خالد مسعود خان

تصنع کی ماری دُنیا میں ایک بے ریا آدمی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ہارون الرشید

تصنع کی ماری دُنیا میں ایک بے ریا آدمی۔ کالم نگاری اور شاعری تو محض اس کے مشغلے ہیں۔ درحقیقت وہ ایک جہاں گرد ہے۔ ہمہ وقت محو سفر۔ ابن بطوطہ نے زیادہ سے زیادہ کتنی سیاحت کی ہو گی؟ ایک، دو یا تین لاکھ کلو میٹر۔ ہمارا جہاں گشت کم از ایک کروڑ میل کی مسافت طے کر چکا اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ کیا چیز خالد مسعود خان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتی؟ یہ پی ایچ ڈی کے ایک مقالے کا موضوع ہو سکتا ہے اگر کوئی کمر باندھے۔

خالد مسعود خان کے موضوعات متنوع ہیں اور منفرد بھی، خود اپنی شخصیت کی طرح۔ مزاح نگاری میں اس کے کردار ملتان کے مقامی ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک طرح دار، کھلکھلاتا ہوا مزاح۔ قلم گل کھلاتا ہے، قاری محفل میں شریک۔ ایسی بشاشت کہ تحریر کے تمام ہونے پر ختم نہیں ہوتی۔ کالموں میں سماج کے عام لوگ، جن کے احساسات پوری بے تکلفی سے بروئے کار آتے ہیں۔ اگر یہ بالکل حقیقی نہیں تو موجود یقیناً ہیں، مصنف کی زندگی کا ایک اٹل حصہ۔ ظاہر ہے کہ کچھ زیبِ داستاں بھی کہ تحریر کی اپنی ہی جمالیات ہوتی ہے۔

سنتا ہوں بڑے شوق سے افسانۂ ہستی
کچھ خواب ہے، کچھ اصل ہے، کچھ طرزِ ادا ہے

جمالیاتی تقاضوں سے اگر کوئی آشنا نہیں بلکہ خوگر نہیں تو وہ کچھ بھی ہو سکتاہے، ایک قلم کار نہیں۔

خالد مسعود اپنی مزاحیہ شاعری سے پہچانے گئے۔ پنجابی اور اُردو کے امتزاج سے تشکیل پاتی زبان۔ ساری دُنیا میں ان کا ڈنکا بجتا ہے۔ شگفتہ کالموں میں بھی ان کا لہجہ گاہے اسی شاعری سے جا ملتا اور جادو جگاتا ہے۔ خالد صاحب شاعری ہی کیا کرتے تھے۔ ربع صدی ہوتی ہے ، از راہِ کرم میرے ہاں تشریف لائے ۔ عرض کیا: کالم لکھا کیجیے۔ بولے: کیا لکھوں۔ گزارش کی کہ وہی کچھ جو ابھی آپ ارشاد فرما رہے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اوّل اوّل ذرا سی جھجک تھی ، آغاز کار جو سبھی میں ہوتی ہے۔ پھر تو ایسے رواں ہوئے، ایسے رواں کہ

جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا

روزنامہ دُنیا سے وابستہ ہوئے تو میاں عامر محمود سب سے زیادہ انھی کے مشتاق تھے۔ باقی کالم نگاروں میں سے بعض کا نام تک انھوں نے سنا نہیں تھا۔ بار بار مجھ سے فرمائش کرتے: خالد صاحب سے کہیے مزاح ہی لکھا کریں۔ ہر بار میں وعدہ کر لیتا مگر خالد مسعود سے کبھی ذکر ہی نہ کیا۔ البتہ ایک دوسرے موقع پر جب انھوں نے کالم نگاروں کو کچھ ہدایات دینے کو کہا تو عرض کیا: صحافت کی شریعت میں یہ گناہِ کبیرہ ہے۔ جہاں کہیں اڑچن آ پڑنے کا اندیشہ ہو، مدیر کا حق ہم استعمال کرتے ہیں۔

رؤف کلاسرا اور خالد صاحب کو گاہے اس پر اعتراض ہوتا ، خاص طور پر محاورے کی درستی پر۔ عام طور پر وہ برداشت ہی کرتے۔ ایک بار مگر خالد مسعود خان نے یہ کہا : ہمیشہ سے ہم غلط اُردو لکھتے آئے ہیں۔ ہماری اصلاح کے در پے آپ کیوں ہیں؟ غلط وہ نہیں لکھتے بلکہ عوامی زبان۔ خاکسار کے مؤقف سے ممکن ہے، بعض کو اختلاف ہو۔ رائے اس پر بہرحال یہی ہے کہ بول چال اور تحریر کی زبان میں فرق ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔ یہ فرق اگر ملحوظ نہ رہے تو کالم کا حُسن گاہے متاثر ہوتا ہے۔

خالد صاحب کے باب میں مگر بہت احتیاط کرنا پڑتی کہ بے ساختگی مجروح نہ ہو۔ یہ ان کے مزاح کی رُوح ہے۔ ایک مردِ آزاد مسجد الحرام کے دروازے پر جو تن کر کھڑا ہو جائے کہ اپنی قمیص پر بنی ہوئی گھوڑے کی تصویر کے ساتھ ہی اللہ کے گھر میں داخل ہو۔ شرطہ شور مچاتا رہا، موصوف مگر مصر رہے۔ اپنی جیب سے ریال پر چھپی بادشاہ کی تصویر نکال کر دکھائی کہ اگر یہ روا ہے تو قمیص پر بنی بے ضرر تصویر کیوں نہیں۔

یہی خالد کی خوبی ہے اور یہی اسے ممتاز کرتی ہے۔ شخصیت ہی نہیں، تحریر میں بھی۔ دُنیا میں کم آدمی ایسے ہیں، جن کے ظاہر و باطن میں کوئی فرق نہ ہو۔ میر صاحب نے کہا تھا…

جامۂ احرامِ زاہد پہ نہ جا
تھا حرم میں لیک نامحرم رہا

خالد کی خُوبی یہ ہے کہ ہر مجلس، ہر دیار، ہر کُوچے میں وہ ایک جیسے ہیں۔ محفل ہو یا تنہائی۔ حد یہ ہے کہ اپنے مرحوم گرامی قدر والد کے ساتھ بھی مذاق سے نہ چوکتے، جو ایک متین بزرگ تھے۔ عمر ان کی لائبریریوں میں بیت گئی۔ چند کتابیں بھی لکھیں اور قرینے کی۔ عصرِ رواں کے عارف نے کہا تھا: علم کی دُنیا میں رو رعایت کی رتی برابر بھی گنجائش نہیں ہوتی۔ خالد کے ہاں بھی کوئی رو رعایت نہیں۔ اپوزیشن ہو یا حکومت، عزیز دوست ہوں یا ذاتی مراسم کے سیاستدان، قلم اُٹھایا تو مراسم کو طاقِ نسیاں پہ رکھا۔

ایک جاوید ہاشمی ہیں، جن سے کچھ رعایت کیا کرتے ہیں مگر جلد ہی تلافی کر ڈالتے ہیں۔ ایک سچّے اور کھرے اخبار نویس کی یہی سب سے بڑی نشانی ہے۔ رہا ہنر تو اس کے معیار کا فیصلہ لکھنے والا نہیں، قاری کیا کرتے ہیں۔ خالد کی ایک اور خُوبی یہ ہے کہ گاہے وہ خود اپنی ذات کو بھی نشانہ کرتے ہیں۔ یہ کمال اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔

دو طرح کے لوگ دُنیا میں ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنی ذات کے بھنور میں گھرے رہتے ہیں۔ ایک وہ کہ جنھیں ہنر اور مقصد عزیز ہوتا ہے۔ سچّی گواہی لکھنے والے کا اوّلین فریضہ ہے، اوّلین ترجیح۔ بیس پچّیس برس کی کالم نگاری میں خالد اس معیار پہ پورے اُترے اور مبارک باد کے مستحق ہیں۔

اپنا نامۂ اعمال اخبار نویس خود لکھتا ہے۔ منکر نکیر کو زیادہ زحمت نہیں ہوتی۔ عجیب بات یہ ہے کہ عوامی زبان لکھنے والا کالم نویس شعر و اَدب کی دُنیا کا کھرا پارکھ ہے، خصوصاً شاعری میں۔ نصف صدی کی عملی زندگی میں ان کے نام انگلیوں پر گِن سکتا ہوں، جن سے میں نے منتخب شعر سنے تو کچھ یاد بھی رہے۔ افضل رندھاوا کا یہ شعر انھی سے سنا تھا…

میں دریاواں دا ہانی ساں
ترنے پے گئے کھال نی مائے

فیصل آباد کے ایک جواں سال شاعر کا کلام بھی…

یہ عمر تو کسی عجیب واقعے کی عمر تھی
یہ دن فقط سپردِ روزگار کیسے ہو گئے

حافظہ اچھا پایا ہے۔ بات نسبتاً کم کرتے ہیں۔ اخبار نویس کے لیے یہ بڑے وصف کی بات ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اکثر جہاں سطح پر تیرتے ہیں، سیاسی حادثات سے نتیجہ اخذ کرنے میں وہ اکثر کامیاب رہتے ہیں۔ پانچ برس ہوتے ہیں، شہباز شریف نے بہاولپور میں شمسی توانائی کے منصوبے کا افتتاح کیا۔ اکثر صحافیوں نے ان کے دعوے پر اعتبار کیا کہ سو میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی۔ خالد مسعود خاں نے لکھا: جی نہیں، اٹھارہ میگاواٹ۔ زیادہ سے زیادہ استعداد ایک چیز ہے اور عملی نتیجہ دوسری۔

صحافت میں وہی کامران ہوتا ہے، جو جانتا ہو کہ اخبار نویس اور سیاست دان کی دوستی سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے ٹھوکر کھائی۔ خالد صاحب بچ نکلے۔

خالد مسعود خوشگوار آدمی ہیں۔ عمران خان سے ان کا تعارف کرایا تو اپنے پسندیدہ ریستوران میں خان صاحب نے انھیں کھانے پر مدعو کیا۔ کھانے کے بعد زیادہ حیران کن منظر یہ تھا کہ عمران خان صاحب نے بیرے کو 500/- روپے عنایت کیے۔ خان صاحب کے بخل میں کبھی کبھی استثنا پیدا ہو جاتا ہے۔ خالد مسعود ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں، جن پر یہ عنایت کی گئی۔ کپتان نے اپنی پارٹی کے لیے نغمہ لکھنے کی فرمائش کی۔ خالد نے سنی اَن سنی کر دی۔

ماضی کی بازگشت موصوف کے ہاں بہت ہے۔ بچپن، لڑکپن اور آغازِ شباب کے خوشگوار دن۔ یہ ایک شُکر گزار آدمی کا طرزِ احساس ہے۔ بیتے ہوئے دنوں کے بارے میں لکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک زندہ آدمی کے ایام تھے۔ اپنے گرد و پیش میں جس کا انہماک گہرا اور کھرا تھا۔ فقط اُداسی ہی نہیں، تصویرکشی کا عنصر اس میں نمایاں ہوا ہے۔ قدیم ملتان یا لاہور کے وہ در و بام جو اب تاریخ ہو گئے ہیں۔ ان کی تصاویر اس مہارت سے وہ بناتے ہیں، جیسے کسی مصوّر کا مُوقلم۔ پڑھنے والا ان کے گداز اور ان کی حیرت میں شامل و شریک ہو جاتاہے۔ یہی تو قلم کاری ہے۔ اسی سے بالیدگی جنم لیتی ہے۔

ادب کا وظیفہ فقط فصاحت نہیں بلکہ انسانی اذہان میں اجلے خیال کی کاشت اور اس کی آبیاری بھی ہے۔ شاعر اور ادیب، ناول نگار اور غزل گو، افسانہ نگار اور داستان نویس پروردگار نے بے سبب پیدا نہیں کیے۔ افلاطون کو خدا جانے کیا سوجھی تھی کہ اپنی مثالی ریاست سے شاعروں کو باہر نکال پھینکا تھا۔ فاروقِ اعظم عمر بن خطاب t شب نگرانی کرنے اور ٹہلنے کو نکلتے تو جناب عبداللہ بن مسعودؓ سے اشعار کی فرمائش کرتے۔

ایک دن بولے: الشعر الشعراء کا کچھ کلام تو سناؤ۔ حیرت سے انھوں نے پوچھا: وہ کون ہے؟ بولے: زہیر بن ابی سلمیٰ۔ بے حد اشتیاق کے ساتھ اس کے اشعار یاد رکھتے اور سنایا کرتے۔ ارشاد کرتے: اس کی خُوبی یہ ہے کہ ممدوح کی وہی صفات بیان کرتاہے جو واقعی اس میں پائی جاتی ہوں۔ ممدوح اس کا حرم بن سنان تھا۔ زہیر اس عرب سردار کا ایسا عاشق تھا کہ کم کسی کو نصیب ہوا ہو گا۔ اس کی موجودگی میں برپا ایک مجلس میں جب کسی نے اس کی شان میں زہیر کے قصائد کا ذکر کیا تو جود و سخا کے اس پیکر کی رگ پھڑکی۔ بولا : خدا کی قسم آج کے بعد جب بھی زہیر مجھے سلام کرے گا، ایک اونٹ یا اونٹنی، ایک کنیز یا غلام اس کی نذر کروں گا۔ ظاہر ہے کہ ملاقات ہو تو سلام کیا ہی جاتا ہے۔

زہیر بھی ایک ہی خوددار تھا۔ بات اس تک پہنچی تو تہیّہ  کر لیا کہ آج کے بعد کوئی انعام قبول نہ کرے گا۔ پہلی بار آمنا سامنا ہوا تو شاعر نے کہا: تم سب پر سلام ہو، سوائے اس کے جو تم میں سب سے بہتر ہے۔

زہیر اِن یکسو اور دانا ترین شاعروں میں سے ایک تھا، جس کے بعض مصرعے ضرب الامثال ہو گئے ہیں۔ وفات سے کچھ عرصہ پہلے اس نے ایک خواب دیکھا، بیٹوں سے بیان کیا : آسمان سے لٹکتی ہوئی ایک رسی میں نے دیکھی ہے۔ خلق جسے پکڑتی ہے۔ میں نے ہاتھ بڑھایا تو سکڑ گئی۔ اس کا مطلب نبوت کے سوا کچھ نہیں۔ اشارہ یہ ہے کہ میں اسے پا نہ سکوں گا۔ تم دیکھو تو اس پہ ایمان لانا۔ زہیر کا فرزند مسلمان ہوا۔ یہ بجائے خود ایک بہت طویل قصہ ہے۔

اوّل ہجو کرتا رہا؛ حتیٰ کہ رسول اللہe نے اس کے قتل کا حکم صادر کیا۔ پھر بھیس بدل کر مدینہ پہنچا۔ تب اس مفہوم کی کوئی بات آپ ارشاد فرما رہے تھے کہ اہلِ جاہلیت کی سب خطائیں معاف کر دی جاتی ہیں۔ مہرِ نبوت سے کچھ فاصلےپر کھڑا تھا۔ کہا: کیا میری بھی۔ فرمایا: ہاں، خواہ ابنِ زہیر ہی کیوں نہ ہو۔ پھر اس نے قصیدۂ بانت سُعاد کے عنوان سے وہ قصیدہ پڑھ کر سنایا کہ ابد الآباد تک زندہ رہے گا۔ پدر کے طفیل پسر میں روشنی کی ایک کرن رہ گئی تھی۔ اسے بچا لے گئی۔

ایک دن عجب ماجرا ہوا۔ جنابِ فاروقِ اعظمؓ کی مجلس میں حرم بن سنان اور زہیر بن ابی سلمیٰ کے فرزند جمع تھے۔ حرم کے بیٹے سے مخاطب ہو کر آپؓ نے کہا: تمھارے باپ کی مدح میں زہیر خوب کہتا ہے۔ بولا : امیر المومنینؓ ہم صلہ بھی تو خُوب دیتے تھے۔ انسانی نفسیاتی کا وہ عظیم پارکھ زہیر کے فرزند کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا : اس کے باپ نے تمھارے باپ کو کیا دیا تھا۔ جواب ملا: کچھ فرش تھے، جو فرسودہ ہو گئے۔ کچھ پردے تھے، جو پُرانے ہو چکے، کچھ مال تھا، جو کھا لیا گیا۔ حرم بن سنان کے بیٹے سے تب امیر المومنینؓ نے یہ کہا ؛ تمھارے باپ نے جو کچھ ان کے باپ کو دیا تھا، وہ فنا اور فرسودہ ہوا۔ جو کچھ ان کے والد نے تمھارے والد کو عطا کیا، عربی زبان جب تک زندہ ہے، وہ باقی رہے گا۔

زہیر بن ابی سلمیٰ کی بیٹی سے کسی نے سوال کیا: تمھارے باپ کو سردار نے کیا عنایت کیا تھا کہ اس نے ہمیشہ باقی رہنے والے اشعار لکھ دیے۔ بولی: اس نے بوڑھے ہو جانے والے اونٹ اور مَر جانے والے گھوڑے دیے تھے۔

فصاحت کا کمال عربوں نے دیکھا اور انھی پر تمام ہو گیا۔ اگرچہ دُنیا کی سب زبانوں میں، ہر عہد میں کوئی ایک یا زیادہ لکھنے والے جگمگاتے ہیں۔ مگر عہدِ قدیم کے عرب شاعروں جیسا کوئی نہ ہوا۔ جس طرح کہ رُوسی اور لاطینی امریکہ کے ناول نگاروں جیسا کوئی نہیں۔ جیسا کہ خواجہ فرید الدین شکر گنج اور سلطان باہو سے لے کر خواجہ غلام فرید، بلھے شاہ اور میاں محمد بخش جیسا کوئی نہیں۔

کھیتوں میں پھولتی سرسوں، چاندنی ایسی برف سے ڈھکے کوہساروں، سمندروں، دریاؤں، ندیوں، آبشاروں اور آنگنوں میں کھلکھلاتے بچوں کا رب جمیل ہے اور جمال سے محبّت کرتا ہے۔ شاعروں کے بغیر، سحر نگار قلم کاروں کے بغیر یہ دُنیا کیسی ہوتی۔

اپنے شہر کے در و بام کو، اس کے کُوچہ و بازار کو، اپنے اساتذہ اور اپنے رفتگاں کو، اپنے ماضی کو خالد نے پورے خلوص سے یاد رکھا ہے۔ بے ساختہ آدمی ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ اپنے گرد و پیش پہ معترض وہ ہو سکتا ہے، بے زار نہیں۔ بندے کا سب سے بڑا وصف شُکر گزاری ہے۔ اقبال نے کہا تھا…

خدائی اہتمام خشک و تر ہے
خداوندا! خدائی دردِ سر ہے
و لیکن بندگی، استغفراللہ!
یہ دردِ سر نہیں، دردِ جگر ہے

لیکن پھر یہ بھی کہا کہ بندگی کے عوض خدائی انھیں کبھی قبول نہ ہو گی۔ اقبال جیسا فطرت کا نبض شناس برصغیر کے آسمان پہ دمکتے ستاروں نے شاید کبھی نہ دیکھا ہو۔ وہ جانتے تھے۔ جانتے کیا تھے، ان کے دل کی گہرائیوں میں یہ ایقان روشن تھا…

پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہو ں وہ کارواں تُو ہے

اور یہ کہ…

ہمسایۂ جبریلِ امیں بندۂ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں

ریاکاری اور ریاکاروں سے بھری اس دُنیا میں خالد مسعود خان ایسے لوگوں کا دم غنیمت ہے۔ یہ نہیں کہ وہ ایک مثالی آدمی ہے، فرشتہ ہے۔ آدمی کو خطا و نسیان سے بنایا گیا اور وہ بھی ایسا ہی ہے۔ زندگی مگر ایک مثبت اندازِ فکر کے ساتھ ہی نمو پاتی اور لہلہا سکتی ہے۔

”سارا سال چلنے والی دکھن کی ہوا کی سمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ مکان بنا تھا۔ کچا لیکن صاف ستھرا صحن۔ دوپہر میں ایسی ہوا چلتی کہ پسینہ ساتھ ساتھ سوکھتا رہتا۔ تیسرا کمرہ سب سے بڑا تھا۔ ایک کونے میں اُوپر تلے رنگین پایوں والے پلنگ۔ ان دو منزلہ پلنگوں پر ہم کودتے رہا کرتے۔ باہر ایک کھڑکی اور اس کے ساتھ سرنگ نما راستہ۔ اس راہ سے گزر کر، سیڑھیاں چڑھ کر ہم مسجد کی چھت پہ جا پہنچتے۔ مسجد کے ہال میں داخلی دروازوں کی دیوار کے اُوپر چھوٹے چھوٹے مینار۔ میناروں کے گنبدوں پر چینی کے ٹوٹے پیالوں کے ٹکڑوں کا جمال“

یہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے قریب دُلم گاؤں میں اپنے ایک کزن کے گھر کا ذکر تھا۔ ہم سب اس طرح کے مناظر سے گزرتے ہیں۔ کتنے ہیں جو یاد رکھیں۔

”ضوریز دوڑتا ہوا اندر آیا۔ سانس پھولا ہوا۔ بازو سے پکڑا اور بولا ”بڑے بابا! فائر فلائی“ بات سمجھنے میں دِقت ہوئی۔ ایک تو وہ توتلا ہے۔ دوسرا لہجہ گوروں والا۔ صرف یہ بات سمجھ میں آئی کہ صحن میں کوئی خاص چیز ہے۔ سو میں اس کے ساتھ چل پڑا۔ شام کا سحر، ڈوبتا ہوا سورج۔ سڑک پہ بتیاں جل چکی تھیں… اب اس نے اشارہ کیا۔ وہاں جگنو اُڑ رہے تھے۔ ایک دو نہیں، درجنوں، بیسیوں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔“

زمستان کی بارش بک کارنر جہلم نے شائع کی ہے

جی چاہتا ہے کہ پوری کہانی نقل کر دی جائے مگر نہیں۔ تفصیل کتاب میں پڑھیے اور لطف اُٹھائیے کہ ایک عام سے منظر میں کیسا جادو سا جگا دیا ہے۔ محسوسات سے لبریز، ایک زندہ آدمی کی تحریر۔ اسی طرح اپنے اساتذہ کا تذکرہ، سکول، کالج اور یونیورسٹی کے ساتھیوں کا، کمال محبّت اور اُلفت کے ساتھ، ان میں سے کسی سے کوئی شکوہ نہیں۔ ماضی کے مکینوں کی خوبیوں کا ذکر تو ہے، خامیوں کا نہیں۔ وہ ایک صاف دل آدمی ہے۔ ردّعمل کس دل میں نہیں جاگتا۔ کون ہے جو ستایا نہیں گیا، کون ہے، بارہا جس نے دھوکہ نہ کھایا ہو مگر وہ صاف دل آدمی ہے۔ دل سے ملال کو دھو ڈالتا اور شاد ہوتا ہے۔ اسی طرزِ احساس میں اُجلی زندگی کا بھید پوشیدہ ہے، جو اکثر پہ نہیں کھلتا، عمر بھر نہیں کھلتا۔

خالد مسعود خان کی سب سے زیادہ دل گداز تحریریں ان کی مرحوم اہلیہ کے بارے میں ہیں، جن کے انتقال کو قریب نو برس بیت چکے۔ دوسروں کے لیے مگر ان پر نہیں۔ ان کے دل میں ہر وہ لمحہ پوری تب و تاب، توانائی اور تازگی کے ساتھ زندہ ہے، اس نے جو اپنی رفیقِ حیات کے ساتھ بسر کیا۔ وہ تھیں بھی ایسی ہی، بہت صابر، بہت قابلِ قدر، ہمیشہ آسودہ، ہمہ وقت بشاش۔ خواتین میں شکایت کی خو زیادہ ہوتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر ان میں تھی ہی نہیں۔ مہمانوں کا خیر مقدم کرنے اور ان کی خدمت بجا لانے میں ہمیشہ خوش باش۔ اپنے میاں اور بچوں پہ فدا مگر ایک کمال جذباتی توازن کے ساتھ۔

ان بہت سی تحریروں میں سے کوئی نقل نہیں کروں گا۔ ان کی تاب لانا مشکل ہے۔ کم از کم میرے لیے۔ دل پگھل کر موم ہو جاتا ہے۔ ادراک ہوتاہے کہ سچّی محبّت کیا ہوتی ہے اور کیونکر دوام پاتی ہے۔ وہ دن جو کبھی رُخصت نہیں ہوتے۔ وہ یادیں کہ ہمیشہ مجسم رہتی بلکہ نمایاں ہوتی چلی جاتی ہیں۔ عرب شاعر نے کہا تھا…

”اس طرح جیسے کہ بارش کھنڈرات کو اُجاگر کر دے۔“

تصنع کی ماری دُنیا میں ایک بے ریا آدمی۔ کالم نگاری اور شاعری تو محض اس کے مشغلے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں