مائیں بچوں کو کیسے منفردانداز میں سکھاسکتی ہیں؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی کا اچھوتا آئیڈیا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

اس نے خزانے کی تلاش( ٹریژر ہنٹ Treasure Hunt) کا اپنا انداز(ورژن version ) ایجاد کیا تھا ۔ بچے اور ان کے دوستوں کے لیے ٹافی کینڈی اور چاکلیٹس باغ میں مختلف پودوں میں چھپا دیتی پھر بچے تلاش کرتے ۔ اپنی چاکلیٹ تلاش کرنے پر خوشی اور دوران تلاشی تجسس اور ایکسائٹمنٹ کے ساتھ ساتھ بھاگ دوڑ والی فزیکل ایکٹیویٹی، دن کی روشنی، پھل پھول پودوں میں ماں کے ساتھ وقت گزارنا ۔ پھر کس بچے نے زیادہ خزانہ ڈھونڈا اور اسی بنیاد پر فرسٹ سیکنڈ تھرڈ آنا بھی اہم تھا ۔

آغاز میں بچوں کے خزانہ تلاش کرنے کی مہم بےسمت ہوتی تھی کبھی دائیں طرف کبھی بائیں طرف ۔ لیکن وقت کے ساتھ انہیں ایک سسٹم کے تحت دائیں یا بائیں سمت سےکلاک وائز یا اینٹی کلاک وائز ہر پودے کو کھنگالنے کی عادت ہو گئی ۔ انہوں نے سسٹمیٹک انداز میں ٹریژر ہنٹ سیکھ لیا ۔ یہ گیم ماں اور بچوں کی سہانی یاد بھی ہے ۔ ٹریننگ سے قطع نظر اچھی فزیکل ایکٹیویٹی بھی ہے۔

اسی طرح باغ میں بچے کو دو ملتی جلتی اشیا مثلا دو پودے (گلاب اور موتیا)یا دو مختلف پھول یا دو مختلف بیجوں میں مماثلت اور فرق تلاش کرنے کا چیلنج دیتی ۔ابتدا میں تین مماثلت اورتین فرق کرنےکے والے نکات اور بڑھتے بڑھتے دس دس نکات تک گئے اس سے بچے کو مختلف اشیا کو ان کی الگ حیثیت میں ذہن نشین کرنا آسان ہو گیا اور سوچنے غور کرنے کی صلاحیت نکھری۔

کچھ وقت گزرا تو گھر میں موجود جانور مثلا کتا، بلی، بکری، مرغی یا آرائشی پرندے کو دیکھ کر اس کے متعلق دس پوائنٹس سوچنے اور زبانی بتانے کا کہتی ۔ مثلا یہ ایک کتا ہے اس کا رنگ سفید ہے اس کی چار ٹانگیں ہیں یہ گوشت اور ہڈی کھاتا ہے ۔ دودھ پیتا ہے میرے ساتھ کھیلتا ہے اجنبی پر بھونکتا ہے وغیرہ ۔ اس طرح بچے نے جب کتے پر دس جملے ازخود کہنے سیکھ لیے تو اسے گھوڑے پر سوچنے اور بولنے کی دعوت دی ۔ اب گھوڑا گھر پر تو میسر نہیں تھا ۔ بس راہ چلتے کسی ٹانگے ریڑھے میں جتا دیکھا تھا سو بچہ صاحب نے گھوڑے کو بھی اپنے تخیل کے زور پر کتے کی طرح ٹریٹ کیا ۔ یہ ایک گھوڑا ہے اس کا رنگ بھورا ہے اس کی چار ٹانگیں اور ایک دم ہے ۔یہ” ہڈی” کھاتا ہے ۔ یہاں بات کھل گئی کہ جناب کتے کو گھوڑا بنا رہے ہیں ۔ بس اس نے ہونہار بروا کو یہیں روک دیا اور تصحیح کر دی کہ بےشک گھوڑا بڑا اور طاقتور ہوتا ہے لیکن کھاتا گھاس ہی ہے ۔

بس یہیں سے چھوٹے میاں گھر پر دس اور پھر اسکول پر دس جملے کہنے پر آئے ۔ اور بچے نے مضمون خود اپنی سوچ سے بنا کر لکھنا سیکھ لیا ۔ رٹے سے جان چھٹ گئی ۔

محبت اور وہ بھی مامتا جو عشق ہی کی ایک قسم ہے جو کچھ نہ کر جائے وہی کم ہے۔ اپنی اولاد کے ساتھ کھیلتے کودتے اس کی تربیت کرتے ایک ماں اپنی اولاد سے بھی بہت کچھ سیکھتی ہے ۔ وہ خود تو بچے والا تجسس کھو چکی ہوتی ہے کہ بڑی ہو چکی ہوتی ہے لیکن اپنے بچے کے ساتھ بچہ بننا ۔ اس کے تجسس کی شریک ہونا اس کی چھوٹی چھوٹی بے ربط باتوں سے نتیجہ اخذ کرنا اور اس میں ایک معصوم فخر محسوس کرنا ۔ بچے کی نظر سے دوبارہ دنیا کے رنگ ڈھنگ سیکھنا ہر ماں کو اپنا "اسپیشل سگنیچر سیٹ آف ایکسپیرئینس اینڈ گولڈن میموریز ” special set of experience and golden memories کا ایسا تحفہ دیتا ہے جس سے پھر وہ تاحیات لطف کشید کرتی ہے ۔ اپنے بچوں کے گھونسلے سے اڑان بھرنے اور واپس آنے تک بھی اور پھر اپنے بچوں کے بچوں کو لوری دیتے ہوئے بھی وہ یہ سب کہانیاں دہراتی ہے ۔ اولاد کی کھیل میں شریک ماں( اور باپ ) ہمیشہ اپنی اولاد کی پہلی محبوب رہتی ہے ۔
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں