خاندان

اسلام کا خاندانی نظام

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

 ڈاکٹر خولہ علوی

” آنٹی نادیہ بجلی کا کرنٹ لگنے سے انتقال کر گئی ہیں۔” رافعہ نے کالج سے گھر واپس آنے کے بعد باآواز بلند سب کو بتایا۔ 
نادیہ آنٹی ان کی دادی جان کی سٹریٹ میں رہنے والی خاتون تھیں۔ اور سنجیدہ مزاج ادھیڑ عمر نرس تھیں۔ دادی جان کے گھر آتے جاتے کبھی کبھی ان سے سلام دعا ہو جاتی تھی۔ 
"انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔”بے ساختہ سب کی زبان سے ادا ہوا۔
"بہت افسوس ناک خبر ہے۔ لیکن انہیں کرنٹ کیسے لگا؟کیا ان کے گھر میں اور کوئی موجود نہیں تھا؟”امی جان نے پوچھا۔

"امی جان ! آپ کو شاید معلوم نہیں ہے کہ وہ اپنے گھر میں اکیلی رہتی تھیں۔ پرسوں رات کو کپڑے استری کرتے ہوئے انہیں کرنٹ لگ گیا تھا اور وہ موقع پر ہی فوت ہو گئی تھیں۔”رافعہ نے بتایا۔
"وہ اکیلی کیوں رہتی تھیں؟ ان کی فیملی کہاں تھی؟ ان کے شوہر اور بچے وغیرہ کدھر تھے؟”آپی جان نے سوال کیا۔

"ان کے والدین فوت ہو چکے ہیں، بھائی بہنیں سب اپنے اپنے گھر بار والے ہیں۔ شادی کے بعد آنٹی شروع سے ہی سسرال والوں سے علیحدہ ہو گئی تھیں۔ اولاد اللہ نے دی تھی نہیں۔ پھر ان کے شوہر نے دوسری شادی کرلی تو انہوں نے شوہر سے خلع لے لی تھی۔ بھائی یا بہنوں کے گھر رہنے کے بجائے انہوں نے علیحدہ رہنے کو ترجیح دی تھی۔

لہٰذا وہ اپنے چھوٹے سے گھر میں تنہا رہتی تھیں۔ ڈیوٹی سے واپس آنے کے بعد جز وقتی ملازمہ آکر گھریلو کام کاج کر جاتی تھی۔ کل رات کو ملازمہ کے جانے کے بعد وہ گھر میں اکیلی تھیں۔ تب یہ سانحہ ہوا تھا۔”رافعہ نے تفصیل سے بیان کیا۔

"پھر؟””اگلے دن ان کی ملازمہ نے تقریباً تین بجے ان کے گھر آکر کافی دیر تک ان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور بیل بھی بجاتی رہی پھر اس نے میم کے پڑوس سے ان کے بارے میں پوچھا۔تب ان کی پڑوسن نے سوچا کہ کل سے ان کے گھر سے کوئی آواز نہیں آرہیں، اور صبح وہ جاب کے لیے بھی وہ گھر سے باہر نہیں نکلیں تو خدانخواستہ کوئی ایمر جنسی نہ ہو گئی ہو۔پھر ملازمہ اور پڑوسن دونوں ان کے گھر کی بیل بجاتیں اور مین گیٹ کھٹکھٹاتی رہیں لیکن جب دیر تک دروازہ نہ کھلا، تو پھر انہوں نے ارد گرد کے ہمسائیوں کو بھی بتایا۔

لوگ دیوار پھلانگ کر ان کے گھر کے اندر داخل ہوئے۔ اندر داخلی دروازہ توڑ کر، وہاں سے اندر جانے پر استری سٹینڈ کے پاس گری ان کی اکڑی لاش دیکھ کر لوگوں کو ان کی ناگہانی وفات کا علم ہوا۔ ان کے بالکل قریب موبائل ایسے گرا پڑا تھا۔ جیسے وہ آخری وقت میں کسی کو کال کرنے کی کوشش کرتی رہی ہوں۔”
"چچ، چچ۔ بڑا افسوس ہو رہا ہے۔”بڑی بھابھی نے آہستگی سے کہا۔

"ڈاکٹرکو بلایا تو اس نے چیک کرکے بتایا کہ ان کی وفات کو تقریباً بیس گھنٹے بیت چکے ہیں۔اور پھر جیسے تیسے ان کے بھائی سے رابطہ کیا گیا، اس نے پھر بہنوں اور قریب و دور کے رشتہ داروں کو کالز کیں۔ وہ لوگ آئے تو آنٹی نادیہ کے کفن دفن کی فکر کی۔ اور نماز عشاء کے بعد ان کی تدفین کر دی گئی۔” رافعہ نے روہانسی آواز میں بتایا۔سب کے چہروں پر پریشانی اور افسوس تھا۔ 

"کیا زندگی اتنی بے وقعت ہوجاتی ہے اور موت دبے قدموں آکر سب کچھ چھین لیتی ہے؟ چھوٹی بہن مریم نے سوال کیا۔”بالکل۔ موت آجائے تو سب دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔”امی جان نے آہستگی سے کہا
"ہائے اللہ۔ بہت افسوس ناک واقعہ ہے۔”مریم نے افسوس کیا۔
"بیٹی! آپ کو ان سب باتوں کا کیسے علم ہوا؟” امی جان نے استفسار کیا۔
"اپنی کزن اور کلاس فیلو فریحہ سے۔  وہ ان کے پڑوس میں ہی تو رہتی ہے۔ یہ ساری تفصیل مجھے اس سے معلوم ہوئی تھی۔”رافعہ نے جلدی سے بتایا۔

"اگر وہ اپنے سسرال والوں کے ساتھ یا بھائی کے ساتھ رہائش پذیر ہوتیں اور گھر میں خاندان کے افراد میں سے کوئی موجود ہوتا تو شاید انہیں فرسٹ ایڈ مل جاتی، یا ہسپتال جانے کا موقع مل جاتا۔”رافعہ نے افسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
"رافعہ بیٹی! خاندان کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم غالب آجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی موت کا وقت ایسے ہی لکھا ہوا تھا۔”امی جان نے دھیرے سے سمجھایا۔”زندگی کی بس یہی حقیقت ہے۔ اچانک بلاوہ آگیا اور سب کچھ ختم۔۔۔” بھابھی نے تاسف سے کہا۔

بچے بڑے سبھی یہ الم ناک واقعہ سن کر افسردہ تھے۔ گھر کے ماحول پر اداسی کی چادر چھا گئی تھی۔ رافعہ غمزدہ سی گہری سوچ میں کھوئی ہوئی تھی۔ اس نے اس واقعہ کا گہرا اثر لیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام میں خاندانی نظام کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ خاندان معاشرے کی بنیاد ہے اور مستحکم معاشرے کے لیے محبتوں سے جڑے اور متفق و مضبوط خاندان کی موجودگی ناگزیر ہوتی ہے۔ 
انسان ایک ایک اینٹ جوڑ کر اپنا گھر تعمیر کرتا ھے۔ یہ محض گارے، مٹی، ریت، سریے سیمنٹ اور اینٹوں وغیرہ سے تعمیر شدہ نہیں ہوتا بلکہ محبت و الفت اور شفقت و مؤدت کا گہوارہ ہوتا ہے۔ 

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہترجمہ: "اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اس خدا سے ڈرو جسکا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کے بگاڑ نے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔” (سورۃ النساء 4: 1)
نبی آخر الزماں ﷺ نے فرمایا کہترجمہ: "رشتہ داری رحمٰن (کے نام) کی ایک شاخ ہے۔” (صحیح بخاری: 5988)

اسی حدیث میں مزید ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہترجمہ: "اے رحم (رشتہ داری)! جو تجھے جوڑے گا، میں اس سے جڑوں گا۔ اور جو تجھے کاٹے گا، میں اس سے کٹ جاؤں گا۔”(صحیح بخاری: 5988)
اسلامی معاشرہ میں خاندان کا آغاز ایک مرد اور عورت کے رشتہ نکاح میں منسلک ہو جانے سے ہوتا ہے۔ کائنات کا اولین اور معتبر رشتہ بھی میاں بیوی کا ہی تھا۔

نکاح بہت اہمیت کا حامل ہے کہ دراصل وہی خاندان کی بنیاد اور اساس بنتا ہے۔ فطرت انسانی کی تکمیل اور برکت و سعادت کا باعث ہوتا ہے۔ زوجین زندگی بھر کے ساتھی اور رفیق ہوتے ہیں ، ایک دوسرے کے ہمدرد و غم خوار ہوتے ہیں۔
خاندان میں ماں باپ، دادا دادی، بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں وغیرہ شامل ہیں۔ اسلام میں خاندانی نظام کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ہر ایک فرد کے حقوق وفرائض بیان کیے گئے ہیں اور ان سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ تاکہ مختلف فوائد سے میاں بیوی، ان کی اولاد ، والدین اور تمام افراد معاشرہ احسن طریقے سے مستفید ہو سکیں۔

اور خاندان کا محور و مرکز "ماں” ہوتی ہے جو نسوانیت کی تکمیل ہوتی ہے، افراد کو آپس میں جوڑ کر رکھنے کا باعث ہوتی ہے۔ جو ایثار و قربانی کا دوسرا نام ہے۔ گھر کی خوبصورتی اور رعنائی ماں کے دم قدم سے ہوتی ہے۔
ماں کی گود بچے کی پہلی نرسری اور تربیت گاہ بن جاتی ہے۔ بہن کا وجود لاپرواہ اور کھلنڈرے بھائی میں شفقت، ذمہ داریوں کا احساس اور فرض شناسی پیدا کرتا ہے۔ بیٹی کے باپ ہونے کی ذمہ داری انسان کی زندگی بدل دیتی ہے۔ بیوی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا معاہدہ نکاح آدمی کو تا حیات ذمہ داریوں کے عہد میں باندھ دیتا ہے۔

ہمارے دین نے چند احتیاطوں اور پابندیوں کے ساتھ مشترکہ خاندانی نظام کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی ہے۔
خاندان انسان کا سائبان ہوتا ہے۔ مکان تو مکان ہوتا ہے، انسان اسے گھر بناتے ہیں۔ اس میں ہر فرد کا کردار بہت اہم اور ناگزیر ہوتا ہے۔ صرف حقوق کا حصول مقصود نہ ہو بلکہ فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی بھی اس کے پیش نظر رہے۔ اور ان میں کسی کمی بیشی سے وہ خاندان کے افراد سے علیحدہ نہ ہو جائے۔ بلکہ نیکی اور تقویٰ اور ایثار کا جذبہ غالب رہنا چاہیے۔ تبھی خاندان کی تقویت ممکن ہو سکتی ہے۔

خاتم النبیین، در یتیم ﷺ نے فرمایا کہ ترجمہ: "اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔” (صحیح بخاری: 1429)
خاندان جس قدر محنت و محبت سے اپنے یہ فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہا ہوگا، اسی قدر مضبوط و مستحکم ہوگا۔ اس کا یہ کردار معاشرتی استحکام اور تعمیر سماج میں معاون و محافظ ثابت ہو گا۔ 
اس کے برعکس اگر خاندان اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت یا کوتاہی برتے تو اس سے خاندانی نظام میں انتشار و افتراق رونما ہو گا۔ جس کا لامحالہ اثر معاشرے پر بھی پڑے گا۔

آپﷺ نے خاندان کے ہر فرد کو اس کے حقوق و فرائض سے آگاہ کیا اور خود اپنی سیرت سے ایسی مثالیں پیش کیں جو رہتی دنیا تک ہر خاندان کے لیے مثالی حیثیت رکھتی ہیں۔
گھر کے سربراہ شوہر کے بارے میں فرمایا کہکلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ۔ (صحیح بخاری: 2409)ترجمہ: ” تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی زیر نگرانی لوگوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔” 

نبی مہربان ﷺ نے فرمایا کہخیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ۔ (صحیح مسلم: 3649)ترجمہ: "دنیا کی بہترین متاع نیک بیوی ہے۔”
اور نیک بیوی کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایاترجمہ: "جب تم اسے دیکھو تو وہ تمہیں خوش کردے۔ جب تم اسے کوئی حکم دو تو اس کی اطاعت کرے اور جب تم گھر میں موجود نہ ہو تو وہ تمہارے گھر اور بچوں کی حفاظت کرے۔” (مسند احمد: 9587) 

مشترکہ خاندان اور خاندان میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے حوالے سے اگر انسان اسے نیکی اور ڈیوٹی سمجھ کر نبھائیں اور ایثار و قربانی اور صلہ رحمی کا دامن تھامے رکھیں تو ہی خاندان جڑے رہتے ہیں وگرنہ شیطانی بہکاووں اور وسوسوں میں آکر بہت جلد ان کا شیرازہ بکھر سکتا ہے۔

معروف عالم دین اور مصنف و شاعر نعیم صدیقی صاحب کا قول ہے کہ "جب انسان کا دل زندہ ہوتا ہے تو وہ یہ سوچتا ہے کہ میرے کتنے فرائض تھے اور میں نے کتنے پورے کیے؟ جبکہ جس کا دل مردہ ہوتا ہے، وہ یہ سوچتا ہے کہ دوسروں کے کیا فرائض تھے اور اس نے کتنے پورے کیے؟ لہٰذا اپنے دل کو زندہ بنائیے۔”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عصر حاضر میں مشرقی معاشرے کے بڑھتے ہوئے رجحان کے مطابق "ورکنگ وومین” پر گھر کی ذمہ داریوں کے علاوہ بیرونی ذمہ داریاں بھی عائد ہو گئیں۔ مصروفیات بڑھنے سے نہ شوہر کے پاس  بیوی کے لیے وقت رہا کہ وہ بیوی کو وقت دے سکے۔ نہ بیوی کو اتنی فرصت کہ وہ میاں کے ساتھ وقت گزار سکے۔

ہمارے مثالی خاندانی سسٹم میں کمزوری کے اہم اسباب میں میڈیا کا رول، ٹیلی ویژن کے ڈرامے، فلمیں، وڈیو کلپس اور لطیفے وغیرہ شامل ہیں جو میاں بیوی، ساس بہو، نند بھابھی وغیرہ کے مقدس رشتوں کو نشانہ تضحیک بناتے ہیں۔
اگر میاں بیوی علیحدہ گھر میں رہتے ہیں تو ان کی پرائیویسی میں کوئی حائل نہیں ہوتا۔ بہو بیٹا الگ تو ہو جاتے ہیں۔ مگر جب ان کی اولادیں پیدا ہوتی ہیں تو کوئی بزرگ ان کی تربیت کے لیے موجود نہیں ہوتے۔ اور انہیں روایتی طور پر دودھیالی رشتہ داروں کی محبت نہیں ملتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مغرب میں خاندانی نظام ٹوٹ چکا ہے اور وہ اسلامی ممالک میں بھی خاندانی نظام کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے اہل مغرب کا خصوصی ٹارگٹ خاندان کے ساتھ ساتھ عورت اور نوجوان ہیں جن پر وہ بہت محنت کرکے انہیں مغربی تہذیب وتمدن اور ثقافت و روایات کا دلدادہ بنانا چاہتے ہیں۔

مغربی ممالک خصوصاً جاپان میں خاندانی نظام اتنا بدتر اور پریشان کن ہوچکا ہے، نفسانفسی اتنی غالب آچکی ہے کہ اب خونی رشتوں کی ہمراہی کے بجائے کرایے پر رشتہ دار فی گھنٹہ اجرت پر دستیاب ہیں۔”فیملی کرایے پر دستیاب ہے۔” کے عنوان سے اشتہار شائع ہوتے ہیں اور فلمیں بھی بنتی ہیں۔

ایک عالم دین شیخ واصل واسطی رقم طراز ہیں کہ”اہلِ مشرق کے پاس دین کے علاوہ سب سے قیمتی چیز خاندان کا وجود ہے۔ پاکستان کے سیکولر اور لادین عناصر اس قابلِ فخر اکائی کو توڑنے کے لیے مختلف اوقات میں مختلف بل تیار کرتے رہے ہیں۔ موجودہ بل (گھریلو تشدد بل) بھی درحقیقت اسی خاندانی اکائی کو توڑنے کی بدترین سازش ہے، جس سے آگاہ ہونا اور جس کی مخالفت کرنا ہر ذی شعور آدمی پر لازم ہے۔”

جاپان میں تنہائی ایک وبال اور آزمائش بن گئی ہے۔ کورونا بیماری کے بعد تو اس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا مارکیٹ میں ایسی خدمات فراہم کرنے والی باقاعدہ کمپنیاں وجود میں آچکی ہیں جو شادی بیاہ اور مرگ و تدفین  اور دیگر خوشی و غمی وغیرہ کے مواقع پر خواہش مند لوگوں کے لیے خاندان کے مختلف افراد مثلاً بیٹا، بیٹی، بیوی، شوہر وغیرہ کی خدمات فراہم کرتی ہیں جو خدمت اور اداکاری کرکے اپنی ڈیوٹی پوری کرتے ہیں۔ اور معاوضہ حاصل کرتے ہیں۔

کتنی منافقانہ اور تعجب کی بات ہے کہ  مستقل خاندان کی صورت میں زندگی بسر کرنا مشکل اور ناپسندیدہ بات تصور کی جاتی ہے۔ پھر علیحدگی اور جدائی کے بعد وقتی طور پر کرایے کے رشتوں کا حصول دل کے سکون اور خوشی کے لیے کیا جاتا ہے۔بھلا خاندانی نظام کرائے کے رشتوں یا مفادات کے رشتوں سے کبھی قائم ہوسکتا ہے اور پھر دائم رہ سکتا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(CEDAW) Convention on Elimination of all forms of Discrimination against Womenکے نام سے بننے والا اعلامیہ 1945 سے کام کر رہا ہے کہ عورت کے خلاف تمام امتیازات کا خاتمہ کرکے مرد و زن کی مساوات قائم کی جائے ۔اور اسکے لئے پاکستان حکومت کو جو امداد مل رہی ہے وہ Melenium development Goal (MDG)ہے یعنی "ایک ہزار سال کے اہداف.”اور یہ تمام اہداف  وہی ہیں کہ عورت کے خلاف تمام امتیازات ختم ہوں اسکو ہر سطح کی آزادی ہو۔ نت نئے عنوان ہیں لیکن ان کے پیچھے بات دراصل وہی ہے کہ ماں کا رول سوسائٹی میں جو اہم ترین اور مضبوط ترین کردار ہے، اس کو ختم کیا جائے۔ اور گھریلو شیرازہ بکھیر دیا جائے۔

عورت کو برابری (Equality) اور (Social  Empowerment) کے نام پر معاشرے میں اس طرح گھروں سے باہر لے آئیں اور ملازمتوں میں مشغول کر دیں کہ اسے گھروں میں ٹکنے کا وقت ہی نہ ملے اور جب وہ گھروں میں نہیں رہے گی تو  پھر وہ بچوں کی اچھی تربیت بھی نہیں کر سکے گی۔ بچوں کی پرورش نرسریوں میں ہو گی اور بوڑھے اولڈ ہاؤسز کے مقیم بن جائیں گے۔ میاں بیوی جاب اور کام کے ساتھ زندگی انجوائے کرتے رہیں گے۔ چنانچہ خاندان کا وجود بھی رفتہ رفتہ ختم ہوگا۔

اخلاقی لحاظ سے آج  یہود ونصاریٰ (اہل مغرب) ابتری و زوال کی حالت میں پہنچ چکے ہیں. وہاں خاندانی نظام  وہاں بکھر چکا ہے اور  امت مسلمہ کے خاندانی نظام کی مضبوطی ان کی نگاہوں میں خار بن کر کھٹک رہی ہے ۔ لہذا وہ اس امت سے بھی یہ خاندانی ادارہ ختم کرنا چاہتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خاندانی نظام کی بہتری کے لیے چند تجاویز

1) گھروں میں غیر محرم لوگوں کا بلا اجازت اور کثرت سے آنا جانا محدود کر دیں۔ اگر غیر محرم مہمان آئیں توان کو بیٹھک یا ڈرائنگ روم میں علیحدہ بٹھائیں۔  
2) بچیوں اور خواتین کو صرف محرم رشتہ داروں سے ملاقات کرنے کی اجازت دیں اور ان سے بھی اخلاق و تہذیب اور احتیاط سے  گفتگو کرنی چاہیے۔ 

2) اپنے بچوں کو گھریلو ملازمہ یا ملازم کے پاس آزادانہ اور زیادہ دیر کے لیے مت چھوڑیں۔ اور ان کی مکمل نگرانی رکھیں۔
3) شادی کے بعد مشترکہ خاندان میں رہنے سے کچھ مسائل بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے فوائد نسبتاً زیادہ ہیں۔ 
4) میاں بیوی بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے عزت و احترام پیش آئیں۔5) میاں بیوی باقی رشتہ داروں کے بارے میں بھی اچھے طریقے سے اور اچھی بات کریں۔ 

6) کسی قسم کی بدگوئی یا گالم گلوچ سے اجتناب کریں۔ 7) مائیں بچوں پر چیخنے چلانے، انہیں لعنت ملامت کرنے اور انھیں بلاوجہ مارنے کے بجائے تحمل کے ساتھ ان کی شرارتوں اور بدتمیزیوں کو برداشت کریں۔ 
8) ساس سسر وغیرہ کا احترام کریں۔ ان کی بات کو اہمیت دیں۔ اور ان کی خدمت کریں۔ 

9) خاندانوں میں برکت اور خوشحالی تب ہی آتی ہے جب سب لوگ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں۔ اور ایک دوسرے کی عزت کریں۔ چھوٹے بڑوں کا ادب و احترام کریں اور بڑے چھوٹوں سے شفقت سے پیش آئیں۔
قرآن مجید میں اس حوالے سے ہمیں چند بہت خوبصورت دعائیں سکھائی گئی ہیں۔
ربنا ھب لنا من ازواجنا وذریتنا قرۃ اعین واجعلنا للمتقین اماما۔ (سورۃالفرقان 25 : 74)ترجمہ: "اے ہمارے رب! ہمیں ہمارے شوہروں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا سردار و امام بنا دے۔”
حضرت ابرہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ تعمیر کرتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے مسلمان اور فرمانبردار نسل کے لیے یہ خوبصورت اور جامع دعائیں کی تھیں

ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک وارنا مناسکنا۔ (سورۃ البقرہ: 128)ترجمہ: "اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنالے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنا فرمانبردار بنا۔اور ہمیں ہماری عبادات سکھا دے۔”
اللہ تعالیٰ اسلام کے خوبصورت اور مضبوط خاندانی نظام کو برقرار رکھے اور ہمیں اہل مغرب کی نقالی سے بچائے۔ آمین

                          *****************


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں