محمد علی جناح ، قائد اعظم ، بانی پاکستان

قائد اعظم ، اسلام اور پاکستان

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نمرہ سجاد

"تم جانتے ہو کہ جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا کبھی نہ کر سکتا تھا !
اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اس کو خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے تاکہ مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت ملے!”(محمد علی جناح)

قائداعظم کے علم میں وہ حدیث تھی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ قیامت سے قبل پوری زمین پر اسلام کا نظام قائم ہوگا۔

حضرت ثعبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے صحیح مسلم میں بھی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ نے میرے لیے ساری زمین کو لپیٹ دیا میں نے اس کے سارے مشرق بھی دیکھ لیے ، مغرب بھی دیکھ لیے اور میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں پر ہو کے رہے گی جو مجھے لپیٹ کر دکھائے گئے۔

قائد اعظم نے گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کو خطاب میں فرمایا : آپ سب آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے
آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لئے
اور کسی بھی اور عبادت گاہوں پر جانے کے لئے ،
مسلمانو ! میں نے دنیا میں بہت کچھ دیکھا دولت، شہرت و عشرت کے بہت لطف اٹھائے . اب میری تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ امید اور یقین لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی میں اپنا فرض ادا کر دیا

میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں اسلام کے علم کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔

اکتوبر 1947 کو روزنامہ انقلاب میں شائع ہونے والے یہ الفاظ قائد اعظم کے ہیں جو انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں خطاب کے دوران ادا کئے:

برصغیر کیا پوری دنیا کے مسلمانوں کی خدمت ایک آزاد خودمختار، باوقار ریاست کے قیام کے ذریعے کرنا چاہتے تھے جہاں مسلمان عزت و آبرو کے ساتھ زندگی بسر کریں. اس ریاست کے بارے میں قائداعظم نے 24 اپریل 1943 کو قیام پاکستان سے چار سال قبل آل انڈیا مسلم لیگ کے 23 ویں سالانہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو انتباہ کرنا چاہتا ہوں جو ہمارا خون چوس کر ایسے نظام کے تحت پلے بڑھے جو اس قدر خبیث اور اس قدر فاسد ہے کہ انہیں اس قدر خود غرضی اور حرص نے ایک دوسرے کے مفادات کا تابع کر لیا ہے جنہیں ایک وقت کا کھانا میسر نہیں۔
یہ تہذیب ہے کیا؟ حصول پاکستان ہے کیا؟ اگر پاکستان کا تصور یہ ہے تو میں ایسا پاکستان نہیں لوں گا ۔

قائد اعظم ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے اور ایک ایسی قیام گاہ مسلمانوں کو میسر کرنا چاہتے تھے جہاں مسلمان اللہ کے نافذ کردہ اصول و ضوابط کو قائم رکھ سکے اور اللہ کی دی ہوئی شریعت پر بغیر کسی روک ٹوک کے گامزن ہو سکے۔ قائداعظم نے ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے پاکستان حاصل نہیں کیا تھا ۔

ساری صلاحیتوں طاقتوں کو صرف کرنے کا مقصد یہ نہ تھا کہ آج اسی پاکستان میں جس کو قائداعظم نے دن رات کی تکلیفوں کو برداشت کرکے حاصل کیا تھا اسی ارض پاک پر طاغوت کی اطاعت کی جا رہی ہے۔۔۔۔
افلاس و غربت نے اس ملک کا شمار مقروض ممالک کی فہرست اول میں کیا ہے۔
جس ملک کی بنیاد لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر رکھی گئی تھی آج وہی ملک غیر اللہ کے تلوے چاٹنے پر مجبور ہے

یہ وہ ملک تھا جس کی قومی زبان اردو کو قرار دیا گیا تھا جس کا لٹریچر سیرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھا آج اسی ملک میں قائد کے جوانوں اور اقبال کے شاہینوں کو انگریز کی محبت اور بے وفائی کےقصیدے اور افسانے پڑھائے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

اجلاس مسلم لیگ کوئٹہ 3 جولائی قائداعظم نے فرمایا:
یہ تلوار جو آپ نے مجھے عنایت کی حفاظت کے لیے اٹھے گی لیکن فی الحال جو سب سے ضروری ہے وہ تعلیم ہے۔ علم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہے جائیے اور علم حاصل کیجیے۔۔!

قائد نے ایک ایسے ملک کی بنیاد رکھی تھی جس میں سب کے حقوق برابر ہوں گے آج اسی ملک میں ہر انسان بڑے رتبہ پر پہنچنے کے لیے ناحق قتل اور درجہ سفلی تک گر کے انسانی حقوق سلب کر رہا ہے۔

پاکستان کی پہلی کابینہ کا اجلاس تھا اس اجلاس میں قائداعظم بھی موجود تھے اے ڈی سی گل حسین نے قائد اعظم سے پوچھا، سر ! اجلاس میں چائے پیش کی جائے یا کافی؟ قائداعظم نے چونک کر سر اٹھایا اور فرمایا : جس نے چائے کافی پینی ہے وہ گھر سے پی کر آئے یا گھر واپس جا کر پیے قوم کا پیسہ قوم کے لیے ہے۔ وزیروں کے لئے نہیں۔۔۔۔۔!

افسوس ،اب ہر کسی نے عہدے کے نام پر اپنی تجوریاں بھری اور عوام کو لوٹا ہے . قائد اعظم تو ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں سارے عہدے دار کام کے بھی مسلمان ہوں تاکہ انصاف سے کام لیا جائے ، کسی کا حق نہ دبایا جائے تاکہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں . کسی کی حق تلفی نہ ہو جج تمام شریعت کو جانتا ہو ، تاکہ مظلوم کی دادرسی کرے . آج عہدے داروں نے اسلام کے نام پر ہی کاری ضرب لگائی ہے مغربی لٹریچر پڑھا کر مغربی ثقافت کا ماحول اس ارض پاک میں پیدا کرکے قوم کو اعتبار سے دور تو کیا کیا بلکہ دین داری کو بھی ایک معیوب بات بنا کر رکھ دیا ہے!

قائد ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں امن و سکون میسرہو، ہر کسی کو دوسرے سے تحفظ حاصل ہو ، کوئی کسی کی جان ، عزت ، مال کا پیاسا نہ ہو۔ ہندوؤں سے الگ ہو جائیں تاکہ کسی کے ساتھ کسی قسم کا وحشیانہ سلوک نہ ہو ۔

خطبہ صدارت دستورسازاسمبلی 1947 میں قائد نے فرمایا:
اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں اور بالخصوص غریب طبقے کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی!

اسی طرح اجلاس مسلم لیگ لاہور 23 مارچ 1940 میں آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:
اپنی تنظیم اس طور پر کیجئے کہ کسی پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہ رہے یہی آپ کا واحد اور بہترین تحفظ ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی کے خلاف بدخواہی , عناد رکھیں –

قائداعظم نے جلسہ عام خطاب ڈھاکا 31 مارچ 1947 میں فرمایا:
آخر یہ کہنے کا کیا فائدہ ہے کہ ہم سندھی یا پٹھان یا پنجابی ہیں؟ نہیں ہم سب مسلمان ہیں اسلام نے ہمیں یہی سکھایا ہے۔۔۔۔!

آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے اجلاس مورخہ 15 نومبر 1942 میں قائداعظم نے فرمایا:
مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟
پاکستان کا طرز حکومت قائم کرنے والا میں کون ہوں؟ مسلمان کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا الحمدللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔۔۔۔۔۔! ( انشاءاللہ)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں