منشیات

منشیات کے منفی اثرات

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

"ندیم تمہاری ٹانگ کو کیا ہوا ہے؟ کتنی سوجی ہوئی ہے؟ کیسے اتنی مشکل سے چل رہے ہو۔”عبداللہ نے ندیم کو لنگڑا کر چلتے ہوئے دیکھ کرسوال کیا
"پتہ نہیں۔” ندیم نے پریشانی سے جواب دیا۔

ندیم ایک نشہ باز انسان تھا۔ پہلے اچھا بھلا صحت مند اور کمانے والا تھا۔ جان مار کر محنت کرتا تھا۔ بیوی اچھی تھی، گھر بار سنبھالنے والی۔ دو سالہ خوبصورت صحت مند بیٹے میں ندیم کی جان تھی۔ بیٹا بھی باپ سے خوب مانوس تھا لیکن پھر ایک دوست کے بہکاوے میں آکر ندیم نے نشہ کرنا شروع کر دیا۔ گھر والوں کو معلوم ہوا تو بے حد پریشان ہوئے۔ شروع میں گھر والوں نے کنٹرول کرنے اور علاج کروانے کی کافی کوشش کی لیکن ندیم عادی نشہ باز بن چکا تھا۔ اس نے کوئی کوشش بار آور نہ ہونے دی۔

پھر ایک وقت ایسا آیا کہ گھر کے حالات انتہائی ناسازگار ہوگئے اور نوبت فاقوں تک آگئی۔ بیوی اور چھوٹے بچے کو بیوی کے میکے والے زبردست اپنے گھر لے گئے۔

گزشتہ رات کونشہ کرنے کے بعد پہلے تو وہ ادھر ادھر پھر کر اپنے سونے کے لیے جگہ ڈھونڈتا رہا۔ لیکن جب اسے سونے کے لیے کوئی ٹھکانا نہیں ملا تو وہ چپکے سے گھاس سے لدے ہوئے ایک چھکڑے پر چڑھ کر سو گیا۔

صبح سورج طلوع ہونے کے بعد جب چھکڑے والے نے اسے زور زور سے ہلا جلا کر سختی سے اٹھایا تو بمشکل اس کی آنکھ کھلی۔ وہ اسے اپنے چھکڑے پر سوتے دیکھ کر بری طرح ناراض ہو رہا تھا۔ ندیم کا نشہ اس کی ڈانٹ ڈپٹ سے ہرن ہو گیا۔

ندیم پریشان ہوکر ڈر گیا اور اس کے تیور دیکھ کر جلدی سے وہاں سے چل دیا۔ چلتے ہوئے اسے اپنی دائیں ٹانگ پر تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔ کچھ دور جا کر اس نے ٹانگ پر خارش کرنا شروع کی تو کرتا ہی گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تھوڑی دیر بعد اس کی ٹانگ کافی سوج گئی۔ عبداللہ اس کی جان پہچان والا محلہ دار تھا۔ وہ اس کی سوجی ٹانگ اور اس کی بری حالت دیکھ کر، اس پر ترس کھا کر اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔

ڈاکٹر سویرے سویرے ایک نشہ باز کو دیکھ کر بدمزہ سا ہوگیا۔ اس نے اس کے حلیے سے اسے بخوبی پہچان لیا تھا۔
"تمہیں کس چیز نے کاٹا ہے؟” ڈاکٹر نے اس کا زخم چیک کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
"مجھے معلوم نہیں۔ شاید رات کو سوتے ہوئے کسی کیڑے نے کاٹ لیا تھا؟” ندیم نے جواب دیا۔
"بالکل۔ اسے کسی زہریلے کیڑے نے کاٹا ہے۔”ڈاکٹر نے مرہم پٹی کرتے ہوئے اہنی رائے دی۔

بعد میں عبداللہ اسے اس جگہ لے کرگیا جہاں وہ رات کو سویا تھا۔ چھکڑے کے قریب یہاں وہاں ہر جگہ غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ چھکڑے کے نیچے ایک مردہ سانپ پڑا ہوا ہے۔ وہ معاملہ سمجھ گیا۔

"اچھا! کیا تمہیں رات کو اس سانپ نے کاٹا تھا؟” عبداللہ نے ندیم سے پوچھا۔
"مجھے پتا نہیں۔ میں تو رات کو سویا ہوا تھا۔” ندیم نے جواب دیا۔

"یہ سانپ کیسے مرا ہے؟”عبداللہ نے چھکڑے والے سے پوچھا
"میرا خیال ہے کہ سانپ نے رات کو اسے کاٹا تھا لیکن اس کے جسم میں مسلسل نشہ کرنے کی وجہ سے اتنا زہر موجود تھا کہ جب سانپ نے اسے کاٹا تو اس زہر کے اثر کی وجہ سے خود سانپ کی موت واقع ہوگئی۔ لیکن اسے خود کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ اسے صرف تھوڑی سی تکلیف اور خارش ہو رہی ہے۔” قریب موجود چھکڑے والے نے ندیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اصل بات بیان کی۔

دیکھنے اور پڑھنے سننے والے اس واقعہ سے انسانی جسم پر نشے کے مہلک اثرات اور دیگر نقصانات کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ نشہ کس طرح انسان کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتا ہے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ دن بعد عبداللہ کو اپنی چھوٹی بہن ندرت کے ہمراہ قائداعظم لائبریری جانے کا اتفاق ہوا۔ ندرت کو لائبریری میں اپنے مقالہ (Thesis) کے سلسلے میں ریسرچ کا کچھ کام تھا۔ اسے پہلی دفعہ قائد اعظم لائبریری جانے کا اتفاق ہوا تھا۔

باغ جناح میں واقع یہ وسیع و عریض لائبریری اپنے اندر کتب کا عظیم ذخیرہ سمیٹے ہوئے ہے۔ ڈیجیٹل لائبریری کا سارا سسٹم بھی کامیابی سے چل رہا ہے۔

"باغ جناح میں سے گزر کر لائبریری تک جاتے ہوئے طرح طرح کے اشجار و اثمار نظر آتے کس قدر خوش نما دکھائی دے رہے ہیں۔ تاحد نگاہ سر سبز گھاس کے خوبصورت قطعے اور بلند و بالا درخت ماحول کو شادابی عطا کیے ہوئے ہیں۔ دل و دماغ تر و تازہ اور روح معطر ہو جاتی ہے۔”ندرت نے خوش گوار انداز میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا۔

"سیر کرتے ہوئے خواتین و حضرات، کرکٹ اور دیگر کھیل کھیلتے ہوئے نوجوان لڑکے باغ کی سہولتوں سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اگر اس طرح کے باغات اور پارک مختلف جگہوں پر موجود ہوں تو عوام الناس کو کتنا فائدہ ہو۔”ندرت نے اپنے خیالات کا مزید اظہار کیا۔

"جہاں یہ باغ شائقین کے لیے سیرو تفریح اور سبزہ و شادابی کے لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے وہاں اِدھر اُدھر ڈولتے پھرتے، گرتے پڑتے۔۔۔اور گھاس پر لیٹے "جہاز” بھی موجود ہوتے ہیں۔” عبداللہ نے گردو پیش میں جا بجا نظر آتے لوگوں کی طرف اشارہ کیا۔

"جی ہاں بالکل۔” ندرت نے افسوس سے کہا۔
"ان کی ڈیمانڈ محض اپنا نشہ پورا کرنا ہوتی ہے۔
یہ پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس حال نظر آتے ہیں۔
اور آلودگی کے اس ماحول میں سر سبز و شاداب ماحول کی خوبصورت اور رونقوں سے یکسر بے نیاز ہوتے ہیں۔
اور اس ماحول میں "مخمل میں ٹاٹ کا پیوند” کی عملی تصویر ہوتے ہیں!”عبداللہ نے بات بڑھائی۔

"اور بہت افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ نظارہ صرف باغ جناح کا حصّہ ہی نہیں ہے بلکہ تقریباً ہر چھوٹے بڑے باغ یا پارک میں ایسے نظارے دیکھنے میں آتے ہیں۔ نہ صرف باغات ان نشیئوں سے آباد ہوتے ہیں بلکہ ہر گلی کوچے میں بھی ان کا گزر عام ہے۔” عبداللہ نے پریشانی سے کہا۔

"حتی کہ کچرے کے ڈھیر پر بھی عموماً یہی لوگ موجود ہوتے ہیں۔ ابھی راستے میں آتے ہوئے دیکھا تھا کہ ایک خشک گندے نالے کے کنارے پر بھی نشہ باز لوگ موجود تھے۔” ندرت نے کہا۔

"ماحول سے یکسر بے نیاز اور ڈولتے لڑکھڑاتے قدم خود بخود اہلِ زمانہ کو اپنی پہچان کروا دیتے ہیں۔ معاشرے میں نشہ بازوں کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے اور معاشرہ صحت مند افراد سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ یہ لوگ معاشرے کا رستا ہوا ناسور بن جاتے ہیں۔”عبداللہ نے تاسف سے کہا۔

"یہ لوگ کیوں نشہ کرتے ہیں؟
کیا انہیں کوئی روکنے یا پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا؟”ندرت نے اپنے ذہن میں کلبلاتے خیال کو سوال کی شکل دی۔

"انسان اگر نشہ آور اشیاء استعمال کرے تو عارضی طور پر اپنے مسائل اور پریشانیوں سے نجات پا لیتا ہے۔ لیکن یہی وقتی سکون تباہی کا پیش خیمہ بنتا ہے۔

دوبارہ جب کبھی اس پر یہ کیفیت طاری ہوتی ہے تو پھر یہ عمل دہراتا ہے اور کچھ عرصے میں اس کا مستقل عادی ہو جاتا ہے۔ یہ نشہ انسان کے جسم میں یوں سرایت کر جاتا ہے کہ اس سے تا دم حیات نجات حاصل کرنا نا ممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہوتا ہے۔
تب انسان کسی کی بات نہیں سنتا اور نہ ہی مانتا ہے۔ اسے صرف اپنے نشہ کرنے سے غرض ہوتی ہے۔ ” عبداللہ نے تفصیل سے جواب دیا۔

"ایک مسلم صحت مند معاشرہ تب قائم ہوتا ہے جب اس کے افراد روحانی شگفتگی کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت مندی کے بھی حامل ہوں۔
ایک بیمار جسم شگفتہ افکار کو جنم نہیں دے سکتا۔ وہ معاشرہ جس کے افراد کی اکثریت نشہ پسند ہو، جس سوسائٹی کے رگ و ریشے میں منشیات خون کی طرح گردش کر رہی ہوں، وہ معاشرہ نہ جسمانی طور پر صحت مند ہوتا ہے، نہ فکری طور پر صالح اور نہ مجموعی طور پر اسلامی اصولوں کا امین کہلا سکتا ہے۔” ندرت بولی تو بولتی چلی گئی۔

"امت مسلمہ کو تو صحت مند، دلیر اور مشقت کے عادی نوجوانوں کی نہایت ضرورت ہے جو اہل کفر کے مقابل اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرسکیں۔ اور امت مسلمہ کا روشن مستقبل بن سکیں۔” عبداللہ نے بڑے افسوس سے کہا۔

"اللہ تعالیٰ ہمارے نوجوانوں کو ملت و ملک کے لیے نافع اور مفید شہری بننے کی توفیق عطا فرمائے۔” ندرت نے بے ساختہ کہا۔
"آمین ثم آمین۔”عبداللہ نے اس کا ساتھ دیا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں