سید جمال الدین افغانی

جمال الدّین افغانیؒ اور’پان اسلامزم‘

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر امتیازعبد القادر، بارہمولہ

افغانستان کی عظیم ہستی اورممتازشخصیت جس نے علامہ اقبال کو متاثر کیا ؛ وہ سید جمال الدین افغانی (1838-1897) ہیں ۔ جمال الدین افغانی مشہور محدّث سید علی ترمذیؒ کی اولاد میں سے تھے ۔ اسد آباد ( افغانستان ) میں پیدا ہونے والے اس نابغہ کو اقبال مسلمانوں کی نشاةِ ثانیہ کاموسس قرار دیتے ہیں۔ 7اپریل1932 کو چودھری محمد احسن کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ :

”زمانہ حال میں میرے نزدیک اگرکوئی شخص مجدّد کہلانے کامستحق ہے تو وہ صرف جمال الدین افغانی ہے ۔ مصر، ایران ، ترکی اور ہندوستان کے مسلمانوں کی اگر کوئی تاریخ لکھے تو اسے سب سے پہلے عبد الوہاب نجدی اور بعد میں جمال الدین افغانی کا ذکر کرنا ہوگا ۔ موخرالذکر ہی اصل میں موسس ہے۔ زمانہ حال کے مسلمانوں کی نشاةِ ثانیہ کا ۔ اگرقوم نے انہیں مجدّد نہیں کہا یا خود انہوں نے اس کادعویٰ نہیں کیا تواس سے ان کے کام کی اہمیت میں کوئی فرق اہل بصیرت کے نزدیک نہیں آتا۔“(مکاتیب اقبال ۔جلد3۔ص 403 از مظفرحسین)

جمال الدین افغانی سے علامہ اقبال کی ملاقات کا واضح ثبوت نہیں ملتا ۔ لیکن ان کے علم و فضل اور انقلابی تحریک کا غلغلہ مشرق و مغرب میں تھا۔ ان کی شخصیت میں ایسی جاذبیت اور الفاظ میں ایسا اثر تھا کہ وہ جس ملک میں بھی جاتے ،اکثریت ان کی عالم اسلام کے اتحاد کی تحریک کے حامی و معاون بن جاتے ۔ مشہور فرانسیسی مفکر رینان (Earnest Renan 1823-1892)نے اپنے تاثر کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:

”ان کی آزاد فکر اور ان کے شریفانہ کردار نے مجھے ایسا متاثرکیا کہ گویا میرے سامنے ابن سینا ، ابن رشد یا دورِ قدیم کے مسلمانوں سے کوئی زندہ ہوکر آگیا ہو“۔(بحوالہ :علامہ اقبال ،چندجہتیں۔ص 126 : مختار مکّی)

رینان کا دعویٰ تھا کہ اسلام کی تعلیمات جدید سائنس و علوم کے عمل کے مخالف ہے ۔ سید جمال الدین افغانی نے ان سے فاضلانہ مباحثہ کیا اور تبحّر علمی کا ثقہ یورپین مستشرقین پربٹھا دیا ۔ خود رینان نے اُن کے مضامین کو پسند کیا ہے۔ (علی گڑھ میگزین ، علی گڑھ نمبر ۔ص 123)

مفتی محمد عبدہ کے بقول” وہ بلند حوصلہ اور زبردست قوتِ ارادی کے مالک تھے ۔ علم وحکمت کے شیدائی ، مادّیت سے گریزاں اور روحانیت کے دلدادہ “۔ (ایضاً)

اقبال کے دورِشباب میں جمال الدین افغانی اکثر ہندوستان آتے رہتے ۔ان کا نقطہ نظر’ اتحاد ملّت اسلامیہ ‘تھا ۔ اور اغیار کی غلامی سے نجات ۔ علامہ اقبال بھی اس کے لئے کوشاں تھے ۔ اس وجہ سے وہ جمال الدین افغانی سے قریب اور متاثر ہوئے ۔ ڈاکٹرجاوید اقبال ان اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”ہندوستان میں جمال الدین افغانی کی بین الملّی اتحاد اسلامی تحریک کا پرجوش خیرمقدم کیا جاتا ۔ چنانچہ جب بھی وہ یہاں سے واپس گئے ، تو معتقدین کی ایک جماعت اپنے پیچھے ہندوستان چھوڑ گئے۔ اقبال بھی مسلم نوجوانوں کی طرح اس جماعت کے رُکن تھے ، جو جمال الدین افغانی کے تصور اتحادِ ملّی سے متاثرہوئی“۔ (شذراتِ فکر اقبال ۔ص50)

جمال الدین افغانی مغرب کے محکوم قوموں میں قوم پرستی کاجذبہ پیدا کرناچاہتے تھے ۔ تاکہ وہ مغربی استعمار (Colonialism)کامقابلہ کرسکےں۔ وہ ’تحریک اتحاد عالم اسلامی‘ کے علمبردارتھے ۔ جسے مغرب نے اپنے بغض اورعناد سے ’ پان اسلامزم‘(Pan Islamism)کا نام دے رکھا ہے ۔ وہ مسلم ممالک کوایک خلافت کے جھنڈے تلے متحد و منظم کرناچاہتے تھے ۔ حب الوطنی کو وہ انسان کا فطری جذبہ مانتے تھے لیکن حبّ دین کو حبّ الوطنی پر فوقیت دلوانا چاہتے تھے ۔ وہ عالم اسلام میں احیاءاسلام کے لئے کوشاں تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ :

”مغربی اقوام مشرقی ثقافت کی نشوونما کے لئے نہیں بلکہ ان کے استحصال کے لئے ان میں احساسِ کمتری پیدا کرتی ہے اور انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہے کہ مغرب ہی تمام خوبیوں اورکمالات کا حامل ہے اورانسانی ثقافت مغربی زبانوں ہی کے ذریعے ممکن ہے “۔
(علامہ اقبال ، چندجہتیں ۔ص 127)

جمال الدین افغانی مشرقی قوم کو اپنی ثقافت ، زبان و ادب اور اس کی عظمت رفتہ کا صحیح احساس دلانا چاہتے تھے :
”جن لوگوں کی اپنی زبان نہیں ، اُن کی اپنی شخصیت و قومیت نہیں ۔ نیز جس قوم کی اپنی کوئی تاریخ نہیں ،اُس کی دنیا میں کوئی عزت نہیں اور جن لوگوں کی نظرمیں اپنے ثقافتی ورثے اور اپنے بزرگوں کے کارناموں کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہوتی ۔ ان کا نام تاریخ میں محفوظ نہیں رہتا“۔ (ایضاً )

سامراجیت و استعمار کے خلاف افغانی ہر وقت سعی کرتے رہے ۔ نوآبادیات میں استعماری طاقتوں کی ظاہری ترقی سے پردہ کشائی کی ۔ بعد میں فلسطینی نژاد مفکر ایڈورڈ سعید (Edward Saed 1935-2003) نے بھی سید جمال الدین افغانی کی طرح مغربی استعمارکی حقیقت واضح کی۔ ان کے بقول علمی ، ادبی ، ثقافتی اور فنی ترقیوں کے پیچھے حکمراں قوم کی اپنی غرض و غایت ہوتی ہے اور اپنی قوت کو مستحکم کرنے کے لئے وہ علمی میدان میں بھی ایسی ہی صورت پیدا کرتے ہیں ، جو ان کی حکمرانی کو مزید مستحکم بنا دے ۔

لہٰذا انہوں نے اپنی قوت اور حکمرانی کی غرض سے ذہن و دماغ بھی جیتنا چاہا اور یہ تبھی ہے کہ جب ترقی کے نام پر ذہنوں کو متاثر کیا جائے ۔ محکوم قومیں لازماً یہ تصور کرتی رہی ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان کی ترقی کا سبب ہے کیونکہ نو آبادیات کے نظام میں علمی اور ثقافتی استحصال کا پہلو مخفی ہوتا ہے ۔ ایڈورڈ سعید اپنے نو آبادیاتی مطالعے کے سلسلے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ:
"That, study, understanding, knowledge, evaluation, masked as blandishment to rule.” ( Orientalism, pg. 107)

معلوم ہوا ایڈورڈ سعید کی نگاہ میں حکمرانوں کے ذریعہ مطالعہ ، تفہیم ، علم ، تجزیہ سبھی ان کی حکمرانہ چالوں سے مطابقت رکھتی ہے۔ ان کے چکنے چپڑے طریق کار سب کے سب ان کی فتوحات کاحصہ ہیں۔ گویا Power سے نوآبادیاتی علوم کو الگ نہیں کیا جاسکتا ۔

سید جمال الدین افغانی کسی ایک ملک کے رہنما نہیں تھے بلکہ عالم اسلام کے متفقہ رہنما تصورکئے جاتے تھے ۔ ان کے خیالات و نظریات کا اثر ترکی ، ایران ، مصر ہندوستان اور شمالی افریقہ کی قومی تحریکوں پر بہت ہی گہرا پڑا۔ انہوں نے جدید دنیا کے اجتماعی مسائل کواسلامی نقطہ نظر سے حل کرنے کا راستہ بتایا ۔ اور قدیم و جدید اندازِ فکر کو ملا کر ایک جامع وہمہ گیر اسلامی اندازِ فکر کی بنا ڈالی ۔ ان کی تحریک کو بدنام کرنے کے لئے’ پان اسلامزم ‘( یعنی پوری دنیا میں جبراً اسلام کومسلط کرنا ) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ علامہ اقبال اس تصورکے سخت مخالف تھے ۔ اور اسے بہتان سمجھتے تھے ۔ اپنے ایک بیان میں جوکہ انہوں نے 28ستمبر1932 کو لاہور میں جاری کیا تھا ، فرماتے ہیں :

”پان اسلامزم کا لفظ فرانسیسی صحافت کی ایجاد ہے اور یہ لفظ ایسی مفروضہ سازش کے تحت انہوں نے استعمال کیا تھا جواس کو وضع کرنے والوں کے خیال میں اسلامی ممالک ، غیراسلامی اقوام ، خاص کر یورپ کے خلاف کر رہے ہیں۔ بعد میں پروفیسر برائون اوردیگراشخاص نے پوری تحقیقات کے بعد یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ کہانی غلط تھی ۔ پان اسلامزم کا ہوا پیدا کرنے والوں کامنشا صرف یہ تھا کہ اس کی آڑ میں یورپ کی چیرہ دستیاں جو اسلامی ممالک میں جاری تھیں ، جائز قرار دی جائیں“۔ (گفتارِ اقبال۔ص 177 : محمدرفیق افضل)

’جاوید نامہ‘ کے آٹھویں باب میں جب وہ فلک قمر سے فلک عطارد پہنچتے ہیں تو انہیں وہاں جمال الدین افغانی اور ترکی کے سعید حلیم ملتے ہیں۔ مولانارومی ، افغانی کا تعارف اقبال سے کراتے ہوئے کہتے ہیں

گفت مشرق زیں دوکس بہترنزاد

ناخنِ شاں عُقدہائے ماکشاد

سیّدالسّادات مولانا جلال

زندہ ازگفتارِ اور سنگ وسقال

یعنی ایشیا میں ان دو آدمیوں سے بہتر انیسویں صدی میں کوئی دوسرا شخص پیدا نہیں ہوا ہے ، جنہوں نے اپنی دینی فراست اور ذاتی قابلیت کی بدولت ہمارے تمام سیاسی ، تمدنی اور معاشی مسائل کا حل پیش کیا ہے ۔ ان کی تقریر میں وہ جوش تھا کہ مردہ دلوں میں بھی زندگی کی لہر دوڑ جائے ۔ عقیدت سے علامہ اقبال نے بصد احترام ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا ۔ جمال الدین افغانی نے مسلمانانِ عالم کا حال پوچھا تو اقبال نے جواب دیا کہ ان کے درمیان دین و وطن کی جنگ جاری ہے۔

ترکی ، ایرانی ، مصری ، عربی ، افغانی اور ہندوستانی غرض سب کے سب فرنگی تہذیب و تمدن کے زیراثر ہیں۔ دوسری جانب اشتراکیت کے تحت یورپین اقوام مسلمانوں کو سیاسی و معاشی اعتبار سے اپنا غلام بنا رہی ہے اور مسلمان چکّی کے دو پاٹ کے درمیان پِس رہے ہیں۔ افغانی ان حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ملّت روس کو پیغام دیتے ہیں اور اشتراکیت کی روح سے علامہ اقبال کو آگاہ کرتے ہوئے کہتے ہیں

زانکہ حق درباطل اومضمراست

قلب او مومن دماغش کافراست

غریباں گُم کردہ اندرافلاک را

درشکم جوئند جانِ پاک را

افغانی کی قبرعرصہ درازتک بے نام ونشان رہی۔بعدازاںایک امریکی نے ذاتی خرچ پراسے پختہ کراکے متعارف کرایا۔دسمبر۴۴۹۱ءمیںمرحوم کے انتقال کے سینتالیس (47)سال بعد استنبول سے آپ کاجسدِ خاکی کابل لے جا کردفن کیا گیا۔

جمال الدین افغانی کی شخصیت پر ان کے شاگرد رشید محمد عبدہ تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ افغانی کاعلم و فضل احاطہ تحریر سے باہرتھا ۔ آپ کو مطالب و معانی کی گہرائیوں پرعبورتھا ۔ فنون ، شاعری ، مناظرہ و مجادلہ سب طرف آپ کا ذہن کام کرتا تھا ۔ آپ نے اپنے علم سے مشرق و مغرب کو مرعوب کیا ۔ مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے دن رات منہمک رہتے ۔ جہاں سے آپ کو شعاعِ امید نظر آتی ؛ فورََا اس سے روشنی حاصل کرنے کی سعی کرتے ۔ اکثراس راہ میں آپ کو حرماں و یاس کا سامنا کرنا پڑا ۔ آپ پھربھی ہمت سے لگے رہے ۔ شخصی کمالات کے تذکرے کو خاطرمیں نہ لاتے تھے کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ کمال تو صرف ذاتِ باری تعالٰی ہی کو زیب دیتا ہے۔ (بحوالہ ؛ تاریخ اسلام کی عظیم شخصیات جلددوم ؛ص145)

سید جمال الدین افغانی کے سامنے جو مشن تھا ؛اس میں مسلمانوں کی علمی ،اخلاقی ، دنیاوی و اخروی بھلائی کے حصول کا مکمل خاکہ تھا۔ عالمِ اسلام کی ہرمیدان میں برتری آپ کاخواب تھا۔
٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں