سکارف پہنے مسلمان طالبات

ندامت

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر فائزہ امجد . لاہور

اسمبلی کے فورا بعد کا منظر

جماعت پنجم بی کا کمرہ مچھلی بازار بنا ہوا ہے ۔ حکومت کی طرف سے اعلان ہوا ہے کہ پڑھائی کے آغاز ہی میں ہر سکول میں 40 منٹ کا ایک پریڈ قرآن کے لیئے مختص کیا جائے ۔ آج 15 دسمبر 2021 ہے اور قرآن کی پہلی کلاس ہے ۔ اسمبلی کے دوران ہی مریم کو کسی طرح ٹیچر خدیجہ کے بارے میں پتا چل گیا تو اب ایک طرف مریم ، صائمہ ، اروش ، منال اور علیہ کا گروپ زور زور سے ٹیچر خدیجہ کے لمبے بالوں ان کے حجاب اور چلنے کے سٹائل پر بحث کر رہے اور دوسری طرف عنایہ اور اس گروپ رات دیکھی جانے والی ارطغرل کی قسط پر بحث و تکرار میں مصروف ہیں ۔

زینب ، فاطمہ اور میرب ایک طرف کھڑے اس میں مصروف کہ نئی ٹیچر کیسے پڑھائیں گی ۔40 منٹ کا پریڈ نجانے کیسے گزرے گا۔۔

اچانک دروازے پر قلم کی نوک کی آواز سے سب خاموش کر اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھتے لگیں ۔

ٹیچر : السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ 

طالبات : وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ 

ٹیچر : میں آپ کی نئی قرآن ٹیچر خدیجہ احمد ۔۔

بہت پیار اور محبت کے انداز میں میں تمام طالبات سے ان کا مختصر تعارف بہت خوشگوار ماحول میں ہوا ۔ اور ابھی 30 منٹ باقی ہیں۔

ٹیچر:قرآن پاک اللہ تعالی کی آخری کتاب ہے جو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر نازل ہوئ۔یہ کتاب ہمیں زندگی گزارنے کا مکمل طریقہ بتاتی ہے۔یہ دنیا جو اللہ تعالی نے ایک امتحان گاہ بنائ ہے۔اس دنیا کے امتحان کے دوران ہمارا ایک دشمن ہے جو ہمیں دائیں بائیں آگے پیچھے سے ہمیں تنگ کرے گا۔یہ انسان کا ازلی دشمن ہے۔

زینب : یہ میم -میری امی جان  نے بھی بتایا تھا کہ اس نے اللہ تعالی کی نافرمانی بھی کی تھی۔میم ! کیا آپ ہم سب کو اس کی نافرمانی کے بارے میں بتا سکتی ہیں؟

ٹیچر : جی ! ہم ضرور اس کی بات کریں گے ۔ چونکہ قرآن اللہ کی پاک کتاب ہے اور  ہمیں صحیح طریقہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے ۔ یہ حق اور باطل ، حرام اور حلال ، جائز اور ناجائز اور حدود و قیود میں واضح فرق کرنے والی حتمی کتاب ہے ۔ اللہ تعالی نے ہمیں بتا دیا کہ کتاب کے پڑھنے سے پہلے تعوذ پڑھ لیا کرو ۔ فاذا قرات القرآن فاستعذ باللہ من الشیطان الرجیم*”پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رحیم سے خدا کی پناہ مانگیں لیا کرو۔”

اللہ رب العالمین نے ہمیں قرآن کی تلاوت کے آغاز میں ، چاہے ہم دو آیتیں ہی کیوں نا تلاوت کرنے لگیں تو اللہ کی پناہ مانگیں لینا چاھیے۔

زینب : میم ! کیا ہمیں اتنا بڑا خطرہ در پیش ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں پناہ لینے کے لیے آیت بھی بھیج دی ۔

ٹیچر:بیٹا ! آپ بالکل صحیح سمجھی ہو . ہمیں واقعی بہت بڑا خطرہ شیطان سے ہوتا ہے . اس لیئے قاری کو چاہیے کہ وہ کائنات کے بنانے والے کی پناہ میں آ جائے ۔

اروش : مجھے آج تک یہ نہیں پتا چلا کہ شیطان نے نافرمانی کیوں کی ؟اور کس لیے کی اور اس کی انسان سے کیا دشمنی تھی؟

ٹیچر : جی ہاں ! میری عزیز طالبات ! میں قرآن کے آغاز سے پہلے آپ سب کے سوالوں دینا ضروری سمجھتی ہوں ۔ ان سب باتوں سے مجھے آپ کو آگاہ کرنا ہی تھا ۔ اچھا ہوا کہ آپ کے ذہن میں خود یہ سوال آیا ۔ اچھا تو سنیے ۔ اللہ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا تو تمام فرشتوں کو انھیں سجدہ کرنے کا حکم دیا ۔

قرآن کی سورہ البقرہ کی آیت نمبر 33میں ارشاد ربا نی ہے*واذ قلنا للملیکتہ اسجدوا لادم فسجدوا الا ابلیس۔۔۔”پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جائو تو سب جھک گئے ، لیکن مگر ابلیس نے انکار کیا ۔ وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا” اس نے اللہ کے سامنے دلیل پیش کی کہ میں آگ ( یعنی برتر چیز ) سے بنا ہوں اور انسان کم تر چیز مٹی سے بنا ہے۔اللہ نے اس  نافرمانی پر اسے جنت سے نکال دیا ۔

منال : کیا وہ پہلے جنت میں رہتا تھا ؟

ٹیچر : جی ! حضرت آدم ، اماں حوا اور شیطان جنت میں رہتے تھے ۔

اروش : اللہ تعالی نے شیطان کو جنت سے نکال دیا تو جنت میں اب صرف حضرت آدم اور اماں حوا رہ گئے تھ؟

ٹیچر : جی ہاں ! شیطان نے اللہ تعالی سے قیامت تک کے لیے انسان کو غلط راستہ دکھانے کی مہلت بھی لے لی ۔ دراصل اس کو لگا کہ انسان کی وجہ سے میں جنت سے نکالا گیا ہوں ۔ اب میں اس کو جنت سے نکلوائوں گا ۔ اب اللہ نے ان دونوں کا امتحان لینے کے واسطے ان کو جنت میں ہر جگہ جانے اور ہر چیز کھانے کی آزادی دی سوائے ایک درخت کے پھل کے ۔ اب شیطان تاک لگا کر بیٹھ گیا اور ان کو بہکانے میں کامیاب ہو گیا تو اللہ تعالی نے ان کو زمین میں اتار دیا۔

زینب : میم ! اگر اللہ تعالی نے ان کو زمین پر بھیجنا تھا تو ان کو  پہلے جنت میں کیوں رکھا ؟مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی۔۔

ٹیچر : اچھی بیٹی ! اللہ نے جنت انسان ہی کے لیے بنائی تھی ۔ انسان کو اسی میں رہنا ہے ۔ بس اللہ نے دنیا اس کے لیے امتحان گاہ بنا دی۔

فاطمہ : یعنی اللہ تعالی اب ہم سب کو بھی آزما رہے ہیں جیسے انھوں نے حضرت آدم اور اماں حوا کی آزمائش کی ۔

ٹیچر : بالکل صحیح سمجھی آپ۔

زینب : ( تقریبا روتے ہوئے ) تو کیا میم اگر جانے انجانے میں ہم کوئی گناہ کر بیٹھیں تو ؟

ٹیچر : پہلی بات تو یہ کہ اللہ نے ہمیں بحیثیت انسان ہماری فطرت میں صحیح اور غلط کی پہچان کی حس ودیعت کر دی اور دوسرا قرآن جیسا عظیم ضابطہ حیات ہی عطا نہیں کیا بلکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت ہمارے لیے نمونہ عطا کیا۔اور بشری کمزوری کے تحت اگر پھر بھی کوئی گناہ ہو جائے تو اللہ سے توبہ کی جائے ۔ جیسے غلطی شیطان نے بھی کی اور حضرت آدم نے بھی لیکن شیطان اپنی غلطی پر ڈٹا رہا اور حضرت آدم نے اپنی غلطی کی توبہ کی ۔ توبہ کے الفاظ بھی اللہ نے ان کو خود سکھائے۔

فاطمہ : جی میم مجھے میری امی جان نے یہ دعا سکھائی ہوئی ہے ۔*ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکوننا من الظلمین” اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہو جایئں گے”

ٹیچر : جی ہاں! یہ حضرت آدم کی دعا ہے جو انھوں نے اپنے جنت میں نکالے جانے پر مسلسل پڑھی ۔

زینب : میم ! اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی تو ان کو جنت میں کیوں نہیں بھیجا؟

ٹیچر : بہت اچھا سوال کیا ۔ اللہ تعالی نے ان کو معاف کر دیا لیکن فرمایا اس امتحان گاہ ( دنیا ) میں خاص مدت تک رہو اور صالحہ اعمال کرو تو ان کے بدلے جنت ملے گی۔

فاطمہ : جزاک اللہ میم حضرت آدم کا قصہ میں بہت بار پڑھ چکی ہوں لیکن آج بہت اچھے سے سمجھ آئی کہ غلطی کرنا اصل گناہ نہیں بلکہ غلطی کر کے نادم  نہ ہونا اس کی معافی اپنے رب سے طلب نہ کرنا اصل گناہ ہے جیسا کہ ابلیس نے کیا۔ سب طالبات نے وعدہ کیا کہ آج سے اگر ہم سے کوئی اللہ کی ناراضگی کا کام ہو جائے تو ہم سچے دل سے توبہ کریں گے ۔۔۔ انشااللہ۔

روتی ہوئی فاطمہ کو میم نے گلے سے لگا لیا اللہ بہت بڑا رحمان اور رحیم بھی تو ہے۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں