پنجاب یونیورسٹی ، لاہور ، پاکستان

ہدایت کی دعا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

لائبہ ایاز

سحر کا وقت تھا۔ تازہ ہوا کے جھونکے اس وقت کو خوشگوار بنا رہے تھے۔ وہ ایک باغ کے ٹریک پر جوگنگ کرتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے ٹریک کے مزید دو چکر لگائے اور ایک طرف رکھے بینچ پر بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ یہ باغ اس کے گھر کے پچھلی طرف تھا۔آج باغ میں اس کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ عام طور پر دو تین لوگ دکھائی دیتے تھے۔

سورج اپنے دائرے میں گردش کرتا مسلسل آگے بڑھ رہا تھا۔ اس نے اپنے جوگرز پر نظر ڈالی اور پھر اس کے ساتھ جڑے زمین پر پڑنے والے سائے پر۔ سورج اس کے پیچھے تھا اسی لیے سایہ بڑا دکھائی دے رہا تھا۔ پھر اس نے ساتھ پڑی بوتل اٹھائی اور پانی پینے لگا۔ نظریں ابھی تک سائے پر جمی تھیں۔ ذہن میں کل کا واقعہ گھوم رہا تھا۔ 

           __________

وہ گراوٴنڈ  میں ہجوم سے الگ تھلگ کھڑا فون پہ ٹائپنگ کر رہا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کر اردگرد دیکھتا پھر دوبارہ اپنے کام میں مگن ہوجاتا ۔ آج یونیورسٹی  میں کسی فنکشن کا اہتمام جاری تھا۔ سب سٹاف اور سٹوڈنٹس زور و شور سے تیاریوں میں مصروف تھے۔ وہ کئی جاننے والوں کی نظر میں آچکا تھا۔ مگر کسی نے جا کر اس سے کوئی بات نہ کی ۔ یہ روز کا معمول تھا۔ اس کے احباب کے سوا سب لڑکے لڑکیاں اس کی پر اسرار شخصیت سے حد درجہ متاثر تھے۔ مگر کوئی بھی اس سے زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ نجانے یہ اس کی شخصیت کا رعب تھا یا تنہائی پسندی۔

وہ بی ایس  کے تیسرے سمسٹر میں تھا۔ اسے اس یونیورسٹی  میں تقریباً سال ہونے کو تھا مگر پھر بھی اس کے ہجوم کی عادت نہ تھی۔ وہ وہیں کھڑا سب کو کام میں مگن دیکھتا کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ اچانک اس کے دائیں بازو سے کچھ ٹکرایا۔ اس نے گردن موڑ کر دائیں طرف دیکھا۔ وہ اسی کے ڈیپارٹمنٹ کی ایک لڑکی تھی۔ "میرب”۔۔۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ وہ خوبصورت تھی ۔۔۔

اس کے لمبے سلکی بال جنہیں وہ کھولے رکھتی تھی اور چلبلے پن نے اسے مزید پرکشش بنا رکھا تھا۔ وہ منہ پہ ہاتھ رکھے ہنس رہی تھی۔ "آئی ایم سو سوری ۔۔۔ میں ذرا جلدی میں تھی۔۔” اس نے ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔

آذان نے سر کو خم دیا اور اس پر سے نظریں ہٹالیں۔ میرب کی مسکراہٹ غائب ہوئی ۔ اس نے چند لمحے اسے دیکھا اور پھر دوسرے ہاتھ میں پکڑی فائیلز کو سنبھالتے ہوئے آگے بڑھ گئی ۔”توبہ! اتنا ایٹیٹیوڈ ۔۔۔۔ بندہ جواب ہی دے دیتا ہے۔” وہ سمیرا اور مصفرا کے پاس پہنچ کر بولی۔ فائیلز پاس پڑے بینچ پر رکھیں اور اپنے بال ٹھیک کرنے لگی۔

"تم سے کس نے کہا تھا اس سے ٹکرانے کا” مصفرا نے جو ہاتھ میں پکڑی ٹیپ کھول رہی تھی ہنستے ہوئے کہا۔ وہ لوگ سجاوٹ کے لیے رنگ برنگے چارٹ پیپرز سے پھول بنا رہی تھیں۔ "میں کون سا شوق سے ٹکرائی ہوں ۔ بات بھی نہ کروں میں تو اس سے۔ خیر! مجھے بھی دکھائو کیسے بنانا۔” اس نے بینچ پر پڑا چارٹ پیپر اٹھاتے ہوئے کہا۔ اس کی بات پر سمیرا نے آذان کی طرف دیکھتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھری۔

"اگر تمہیں ایسا شوق نہیں ہے تو پھر تو کلاس کی سب سے انوکھی لڑکی ہو تم ۔” وہ دونوں زور سے ہنسنے لگیں ۔ میرب سر جھٹک کر چارٹ پیپر کی کٹنگ کرنے لگی ۔ مگر ایک خلش تھی جو اس کے ذہن میں بیٹھ کر اسے تنگ کرنے لگی اور ایک نظر تھی جو ادھر ادھر بھٹکنے لگی۔

__________

"حسنِ اخلاق ایسی صفت ہے جو کہ دشمنوں کو دوست بنانے کی طاقت رکھتی ہے ۔۔۔۔۔ انسان کی انسانیت ، محبت ، انسیت اس کے اخلاق سے ظاہر ہونی چاہیے۔۔۔” وہ سات اٹھ ہم عمر لڑکوں کا مجموعہ  تھا۔ آذان دوزانو ہوکر بیٹھا سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ وہ لوگ کینٹین کے پاس والے گراوٴنڈ  میں بیٹھے تھے۔

 "۔۔۔۔ اپنا اخلاق بہتر کرنے کے لیے ہمیں اپنے دلوں کو صاف کرنا ہوگا ۔ کسی کے بارے میں غلط خیالات کو دل میں جگہ نہ دیں۔ آپس کے پیار محبت کو فروخ دینے کی تدبیر کریں ۔۔۔۔۔ کیونکہ محبت ایک بہت قیمتی خزانہ ہے۔ اسے کھونے سے ڈریں۔ اسے کھو کر ہی انسانوں کا سکون برباد ہوا ہے۔” اس نے مسکرا کر سر کو خم دیا۔ محفل برخاست ہوچکی تھی ۔ سب لڑکے آپس میں باتیں کرنے لگے۔ آذان سب کو سلام کہہ کر اپنی جگہ سے اٹھا اور کینٹین کی طرف جانے لگا۔ اسحاق اس کے ساتھ ہولیا۔

 "ریکارڈنگ پوسٹ کررہے؟” اس نے اسحاق سے پوچھا۔ 

"یار کچھ ایڈٹینگ کی ضرورت ہے۔ وہ کرکے آج شام تک لگا دوں گا۔”

"سہی!۔”

وہ کینٹین پہنچ چکے تھے۔ کھانے کا سامان لے کر وہ وہ دونوں سٹنگ ایریا میں ایک ٹیبل پر جا بیٹھے ۔ آج نیلا آسمان بادلوں سے بھرا ہوا تھا ۔ شام کے وقت بارش کے امکانات تھے ۔ وہ آسمان کی طرف دیکھنے لگا ۔ چند لمحوں بعد لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک گروپ ان کے سامنے والے ٹیبل پر آبیٹھا ۔ ان کی ہنسنے اور باتیں کرنے کی آواز پورے سٹنگ ایریا میں گونجنے لگیں ۔ شاید وہ کسی چیز کی سیلیبریشن کے لیے وہاں آئے تھے ۔ وہاں بیٹھے سب لوگ بار بار ان کی طرف متوجہ ہورہے تھے ۔ پھر تھوڑی دیر بعد ان میں سے ایک لڑکے نے اونچی آواز میں میوزک چلا دیا۔

اسحاق نے آذان کی طرف دیکھا۔ وہ خاموشی سے سر جھکائے کھانا کھا رہا تھا۔ میوزک کی آواز پر اس نے اُس لڑکے کی طرف دیکھا۔ پھر اپنا سامان اٹھا کر کھڑا ہوگیا۔”ہم کہیں اور چلتے ہیں۔ "وہ بولا تو اسحاق نے ہاں میں سر ہلایا اور کھڑا ہوگیا۔ وہ دونوں وہاں سے نکل کر گرائونڈ میں ایک سایہ دار درخت کی طرف چل پڑے۔

 "آذان ایک مسئلہ ہے یار! مشورہ لینا تھا تم سے۔۔” وہ وہاں جا کر بیٹھے تو اسحاق نے دائیں طرف کی خوبصورت کیاری جو رنگا رنگ پھولوں اور پودوں سے بھری ہوئی تھی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”ہاں ضرور ۔۔ کہو کیا بات ہے؟” آذان نے اس کی بات پر کھانے کو ڈھک کر ایک طرف کردیا اور اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔

"یار یہ دور ایسا ہے کہ فتنوں سے بچنا بہت مشکل ہوگیا۔ ایسے بہت سے گناہ ہیں جو انسان بغیر سوچے سمجھے کر جاتا ہے کیونکہ وہ ہمارے معاشرے میں عام ہوچکے ہیں۔ حتٰی کہ بعض گناہ ایسے ہیں جن کے بغیر ماڈرن سوسائٹی کا تصور ہی ناممکن ہے۔ ایسے میں انسان کیا کرے آذان ۔۔۔ ایک یہ معاشرہ ہے جس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ضروری ہے اور ایک یہ خوفِ خدا ہے جس کی وجہ سے ایسے معاشرے میں دم گھٹتا ہے۔

"آذان اس کی بات پر ہلکا سا مسکرایا پھر گرائونڈ میں ارد گرد بیٹھے سٹودنٹسز کی طرف دیکھتے ہوئے گہرا سانس لیا۔

” تمہاری بات بالکل ٹھیک ہے اسحاق ! بہت مشکل ہے اس معاشرے ، اس جوانی اور اس دور میں خدا کے بتائے ہوئے راستے پہ چلنا ۔۔۔۔ انسان بار بار بھٹک جاتا ہے ۔۔ چلتے چلتے گر پڑتا ہے اور بعض اوقات سنبھلنے لگتا ہے تو سہارا بھی نہیں ملتا۔ خود اپنے ہاتھوں سے سہارا لے کر ، انہیں دھول مٹی میں گندا کرکے سنبھلنا پڑتا ہے۔ ایسے معاشرے میں لوگ طنز و طعنوں سے وار کرتے ہیں ۔۔۔ ” اتنا تو چلتا ہے ” کہہ کر بڑے بڑے گناہوں کو معمولی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

مگر اسحاق ۔۔۔ تم جانتے ہو جیسے ایک پھول کو نکھرنے کے لیے دھوپ اور چھائوں دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح جب انسان کو صحیح اور غلط راستے کا علم ہو۔۔۔ اور وہ صحیح راستے پر چلے پھر اس کے راستے میں رکاوٹیں آئیں ۔۔۔ اگر وہ ان رکاوٹوں سے ان مشکلات سے سیکھے تو وہ بھی نکھر جاتا ہے۔ ہاں مگر استقامت اور صبر و تحمل شرط ہے ۔ امید رکھنا شرط ہے۔ اور سب سے بڑی بات خود کو نیک اور دوسروں کو بد نہ سمجھنا شرط ہے۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگنا اور ہدایت طلب کرتے رہنا چاہیے ۔ خدا سے خوبصورت الفاظ میں مانگو اور مانگتے رہو تاکہ یہ خوبصورت تعلق قائم رہے ۔ ہدایت کی دعا کرتے رہنا بہت ضروری ہے ۔۔۔ یہ اس راستے پر آنے والے کسی بھی موڑ پر گرنے سے بچاتی ہے ۔ یہ انسان کو عاجزی سکھاتی ہے۔۔۔”

اسحاق نے اس کی بات پر سر ہلا دیا۔ پھر وہ دونوں خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔ اور ان سے دور۔۔۔ پیچھے کہیں۔۔۔۔۔ گرائونڈ کے دوسرے کونے پر ۔۔۔۔۔ دو خاموش آنکھیں ۔۔۔۔۔ اسے اپنی نظروں میں لیے ہوئے تھیں۔ 

__________

اگلی صبح روشن سورج کے سایے میں زمین پر اتری ۔ رات متواتر بارش کے بعد ہر چیز دھلی اور نکھری ہوئی تھی۔ وہ ابھی ہوسٹل سے ڈیپارٹمنٹ پہنچا تھا۔ اس کے قدم تیزی سے کلاس روم کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ چلتے چلتے بائیں ہاتھ سے وہ اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑے بیگ میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ یک دم اس کے کانوں میں اپنی آواز گونجی۔

"شروع  الله کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔۔۔۔”

اس کے قدم رک گئے ۔”شروع الله  کے نام سے جس نے انسانوں کو پیدا کیا اور انہیں ایک خاص مقصد کے لیے اس دارِ فانی میں بھیجا۔۔۔”وہ اس کے قریب پہنچ چکی تھی ۔ ایک ہاتھ میں فائلز جو بازو کے سہارے اپنے ساتھ لگا رکھی تھیں اور دوسرے ہاتھ میں فون پکڑے وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔

"السلام علیکم ! میں نے آپ کا کل والا بیان سنا تھا۔ بہت اچھی بات کی تھی اپنے اخلاق والی۔۔ اوررر۔۔۔ اور محبت والی۔” وہ روانی سے بولتی ہوئی اپنے چہرے کے تاثرات نہ چھپا سکی ۔

"وعلیکم السلام ! جی بہت شکریہ !” وہ مزید ایک لمحے کے لیے رکا اور پھر آگے بڑھنے لگا۔ میرب کے ماتھے پر گہری لکیریں واضح ہوئیں ۔

"آپ صحیح طرح بات کیوں نہیں کرتے ! ” اس کی آواز اونچی تھی۔ آذان اس سے دو فٹ کے فاصلے پر تھا۔ وہ مڑ کر حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ میرب دو قدم چلتی اس کے قریب ہوئی ۔” کس بات کا گھمنڈ ہے بھئی آپ کو۔۔۔ ہاں! اس دن میں نے سوری بولا تب بھی کوئی جواب نہیں اور اب بھی ایسے ایٹیٹیود دکھا رہے جیسے پتا نہیں کیا چیز ہیں آپ ۔۔۔ آپ جیسا تو کوئی ہے ہی نہیں نا۔۔۔۔” 

"محترمہ آپ کو برا لگا ہو تو معذرت ۔۔۔ لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے جیسا آپ سوچ رہیں۔”

"ایسا ہی ہے جناب ! آپ کے ایسے رویے کی وجہ سے ہی کوئی آپ سے بات کرنا پسند نہیں کرتا۔ لیکن آپ کو کیا فرق پڑتا ہے۔۔ ہے نا ! اور ہاں جس اخلاق کی آپ بات کر رہے تھے نا سب سے زیادہ آپ کو خود اس کی ضرورت ہے۔”

وہ استہزایہ انداز میں ہنسی اور اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر  تیزی سے آگے نکل گئی ۔ وہ خاموشی سے اسے جاتا دیکھتا رہا۔ 

__________

اس کی نظریں ابھی تک اپنے سایے پر جمی تھیں ۔ مگر اس کی سوچ کا مرکز ماضی تھا۔ حالات اور رویے تھے۔ وہ کیا چاہتا تھا اور کیا ہو رہا  تھا ۔۔۔ جن چیزوں کے ڈر سے اس نے خود کو بدلا تھا وہ اب بھی اس کے پیچھے تھیں ۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی کم گوئی اور محفلوں کی رونق نہ بننے کی خواہش کی وجہ سے لوگ اسے گھمنڈی سمجھنے لگیں گے ۔ وہ بہت سے معاملات میں احتیاط کرتا تھا۔۔۔ ہاں مگر بعض اوقات بے احتیاتی کرجاتا تھا۔

وہ جانتا تھا کہ اس راہ پر مشکلات آئیں گی مگر ایسا ہونا کہ اس کی ہی کہی ہوئی باتیں اس کے لیے طعنہ بن جائیں ، یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ میرب نے جو کچھ کہا وہ نہیں جانتا تھا کہ اس معاملہ میں وہ صحیح ہے یا غلط مگر وہ اتنا ضرور جانتا تھا کہ وہ بھاگ رہا تھا ۔ وہ ان سے بچنا چاہ رہا تھا۔مگر کبھی راستہ خراب ہوتا تھا تو کبھی اس کے پائوں تھک جاتے تھے ۔

وہ پھر بھی مسلسل بھاگ رہا تھا ۔ پھر اس نے انہیں کافی پیچھے چھوڑ دیا اور آرام کرنے رک گیا ۔ مگر اس کے رکنے کے باعث وہ اس کے قریب آ پہنچی تھیں ۔ اس نے انہیں دیکھا اور پھر اسے احساس ہوا کہ یہ بیرونی طاقتیں جو انسان کو غلط کام کرنے پر اکساتی ہیں ان سے جنگ، مسلسل جنگ ہے۔ ہدایت کی تلاش ،مسلسل تلاش ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں