مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ (2)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فرح مصباح

پہلے یہ پڑھیے :
مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ (1)

عازمینِ عمرہ

جسے ملک کا صدر ایوانِ صدر کی دعوت دے ، وہ خود جو بڑا خوش نصیب محسوس کرتا ہے ۔ اور جسے رب ذوالجلال اپنے شہر بلائے، اپنے در بلائے ، اس مدعو کی خوشی کی کوئی انتہا ہو نہیں سکتی۔

جسے چاہا در پہ بلا لیا
جسے چاہا اپنا بنا لیا

یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے

رب ذوالجلال نے اربوں انسانوں میں سے ہمیں اپنے در کی حاضری کے لیے چنا ، یہ بڑے نصیب ہی کی بات ہے ۔ اپنے پاس تو ایسا کچھ نہیں ، فقط اسی کا فضل ہے ۔ روانگی تو چار دن بعد تھی لیکن یہ چار دن بھی چار صدیوں کے برابر محسوس ہوتے تھے۔ بہرحال ماہِ رمضان المبارک کی مصروفیات اور ساتھ ساتھ طعام و قیام اور سفری ضروریات کے لیے کچھ تیاریوں میں وقت گزر گیا۔ ساتھ ساتھ جیسے ہی قریبی رشتے داروں کو معلوم ہوتا گیا ، مبارک باد دینے والوں کا غیر متناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔

ہر ایک حاضری کا طالب تھا ، اور راہی عدم ہونا چاہتا تھا۔ اور ہر کوئی اپنے پیغامات نوٹ کروا رہا تھا۔ یہ کشش ہے اس گھر کی ، چاہت ہے رب ذوالجلال سے ملاقات کی ، شوق ہے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا، تڑپ ہے روضہ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی ۔ ہمارے پاکستان میں اس کی بڑی مثالیں ملتی ہیں۔

ویسے تو رب ذوالجلال اپنے بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ بندہ مانگتا ہے تو وہ سنتا ہے ، پھر عطا کرتا ہے۔ رحم فرماتا ہے۔ کرم کرتا ہے۔ ہم جہاں کہیں بھی ہوں ہمارا خیال رکھتا ہے۔ ستّر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے، مدد فرماتا ہے۔

مگر شہرِ حرم کی کیا ہی بات ہے۔ جو بات ہم ٹی سی ایس نہیں کر سکتے، ڈاک کے ذریعے نہیں بھیج سکتے، ہم زائرین کے ذریعے بھیجتے ہیں کہ اگر ہم نہ پہنچے تو ہمارا سلام کسی زائر کے ذریعے پہنچ جائے۔ ہماری فریاد پہنچ جائے۔ کوئی زخمی دل کی داد رسی ہو جائے۔ کوئی مرغ بسمل کو قرار آ جائے۔
لوگ یہ کہتے نظر آتے :

طیبہ کو جانے والے، جا کر بڑے ادب سے
میرا بھی قصہ غم، کہنا شہِ عرب سے

اور اس دفعہ چونکہ حرمین شریفین تین سال سے عام زائرین کے لیے بند تھے ، لہٰذا جیسے ہی یہ کھلے تو جو لوگ حاضر ہوسکتے تھے وہ لوگ حاضر ہوئے ، اور جو نہ پہنچ پائے تو ان کے دل کی تڑپ بھی قابلِ رشک تھی۔ یقیناً رب کریم کو یہ تڑپ بھی پسند آتی ہوگی۔ وہ فرماتا ہے "مجھ سے مانگو، میں قبول کروں گا”، اسے ہمارا مانگنا پسندہے۔
ساتھ یہ بھی فرمایا: اور جو لوگ مجھ سے نہیں مانگتے، تکبر کرتے ہیں، وہ جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے”.

بہرحال وہ دل کے حالوں کو جانتا ہے۔ یہ تڑپ اور یہ دعائیں یقیناً اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہیں، لیکن سب کی باتیں سن کر سب کے لئے وہی دعائیں شروع کردیں ۔ اللہ تعالی سب کو اپنے دربار کی اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کی با ادب حاضری نصیب فرمائے ۔ آمین۔
لوگوں کی تمناؤں کی شاعر نے کیا خوب عکاسی کی ہے:

جانے والو! جاؤ جاؤ فی امان اللہ
کبھی تو اپنا بھی لگ جائے گا بستر مدینے میں

چوں کہ تین سال بعد راستے کھلے ہیں تو کچھ مسائل ہیں جگہ جگہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سفر آسان نہیں ہوتا۔ اس بات کو دماغ میں رکھ کر سفر کرنا چاہیے ۔
سفر کے ساتھ صبر لازم ہے
وہاں ایئرپورٹ پر ایک غیر ملکی خاتون اپنے بیٹے کو یہی سمجھا رہی تھی got more sabr
…………..Got more ajr

مجھے ان خاتون کا یہ جملہ بہت اچھا لگا۔ میں نے فوراً ہی اپنے بیٹے کو یہ جملہ سکھایا۔ اسے بھی لفظوں کو توڑنا جوڑنا اچھا لگتا ہے۔ نئے لفظوں کو سننا پسند ہے، سو اسے بھی یہ جملہ اچھا لگا اور فوراً ہی یاد کر لیا۔ پھر جب گاڑی آئی تو ہم گاڑی میں سوار ہو کر مسجد نبوی کے قریب ایک ہوٹل میں جہاں ہمارے کمرے پہلے سے بک تھے، پہنچے۔ بےانتہا رش تھا۔ ایک ایک گھنٹہ لفٹ کے باہر انتظار کرنا پڑ رہا تھا۔

ابھی اسی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ کیا کریں؟ اچانک ہوٹل کے بیرونی دروازے سے میرے میاں کے چچا کی فیملی کو آتے دیکھا۔ روایت ہے کہ اپنے گھر سے دور کسی اپنے کو دیکھیں تو بہت خوشی ہوتی ہے اور اپنا پن محسوس ہوتا ہے۔ بس یہی خوشی ہمیں انہیں دیکھ کر ہوئی۔ انہوں نے بھی ہمارا بڑا اکرام کیا، ہمیں بہت محبت سے اپنے کمرے میں لے گئے۔ مزیدار چائے پیش کی اور پھر مزیدار کھانا بھی ساتھ دیا۔ چائے اتنی اچھی تھی کہ میرے شوہر فرمائش کر بیٹھے کہ ہمیں روز یہ چائے ضرور دینا جسے انہوں نے خوش دلی سے قبول کیا، اور دوسرے روز بھی ہمیں وہی چائے پیش کی۔ اللہ رب کریم انھیں بہت اجر دے۔ امین۔

اس کے بعد اپنے کمرے میں گئے، نماز پڑھی ، تلاوت کی۔ اسی اثنا میں یاد آیا کہ آج سے ڈیڑھ مہینہ قبل ایک نعت لکھی تھی جو حرف بہ حرف قبول ہوئی۔
معلوم نہ تھا کہ وہ الفاظ اتنی جلدی قبول ہو جائیں گے۔ الحمدللہ علی ذلک۔
پختہ شاعر کہتے ہیں میری شاعری میں پختگی نہیں ہے
سچ کہتے ہیں، میری شاعری میں پختگی نہ سہی لیکن جذبات میں تو ہے ۔۔۔۔۔۔۔

طلب کو زباں پر آنے کی حاجت نہیں مدینے میں
کچھ ایسی ہے خاص مہماں نوازی مدینے میں

درودوں کے گجروں سے معطر ہیں فضائیں
اور خوشبوئیں سلاموں کی ہیں مدینے میں

کسی روز جو آپ کی زیارت ہو جائے حضور
تو نگاہیں رہیں محوِ طواف مدینے میں

کبھی ہوں گزر ہمارا اور دیکھیں آ کر
گزرے تھے آپ جن راہوں سے مدینے میں

شجر بھی آپ کی فرقت میں روتا رہا
محبت کے ہیں اور کئی فسانے مدینے میں

رہوں آ کر میں بار بار تیرے شہر میں
ہو میرا بھی ایک مکاں مدینے میں

عشّاق تو ہوں گے آپ کے بہت سے حضور
میرا ہو نام ان میں خاص مدینے میں

سنتوں پر عمل پیرا ہوں میں اس طرح
صحابہ کرتے تھے پیروی تیری جیسے مدینے میں

وقعت تو نہیں میری اتنی لیکن
مدفن میرا بھی بن جائے مدینے میں

دوستوں سے بھی آپ کی محبت ہے بے مثال
سلایا ان کو اپنے پہلو میں مدینے میں

الفاظ حق کہاں ادا کر سکتے ہیں مدحت کی آپ کا
پھر بھی جوڑوں کچھ تانے بانے آ کر مدینے میں

خدایا مقدر ہو وہ گھڑی اب جلد
گنبد خضراء کی چھاؤں ہو اور میں مدینے میں

لکھی تو ہے دور تیرے در سے لیکن
سنی جائے آج یہ نعت مدینے میں

( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں