مسلمان خاتون قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے

رمضان نزول قرآن کا مہینہ اور ایک دورہ ترجمہ و تفسیر القرآن کی روداد

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور خصوصی انعام ہے کہ مجھے گزشتہ کئی برسوں سے جامعہ ریاض الحدیث للطالبات راجووال، اوکاڑہ میں دورہ ترجمہ و تفسیر القرآن کروانے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔

قرآن مجید کی تدریس شرف عظيم ہے، اور یہ خوش بختی اسی کے حصے میں آتی ہے جسے اللہ تعالیٰ خود منتخب کرلے۔ بلاشبہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر و بھلائی ہوتی ہے ۔
الحمد للّٰہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات

یہ مختصر لیکن جامع اور وسیع پروگرام ہے جو ہر سال جامعہ ہذا میں شعبان کے آخری عشرہ اور ماہ رمضان میں منعقد کروایا جاتا ہے جس میں جامعہ کی مقامی طالبات اور خواتین کے علاوہ قرب و جوار کے علاقہ جات سے بھی سابقہ طالبات اور بیرونی طالبات شامل ہوتی ہیں۔ شرکاء نے پہلے قرآن مجید کا مکمل ترجمہ وتفسیر پڑھا ہو تو وہ اس دورہ سے صحیح طرح استفادہ کر سکتی ہیں۔ معلوم نہیں کہ قرآن مجید میں ایسا کیا ہے کہ دل پگھل کر بہنے لگتا ہے اور آنکھیں اشک بہانے لگتی ہیں !

امسال بھی رمضان میں یہ دورہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور خاص رحمت کے ساتھ بہترین طریقے سے ہوا۔ موجودہ طالبات کے علاوہ دورہ میں نئے چہروں کے ساتھ بہت سی سابقہ طالبات کے چمکتے دمکتے روشن چہرے بھی موجود رہے تھے۔

دورہ کی چند نمایاں خصوصیات قابل ذکر ہیں۔
1) اس دورہ میں قرآن مجید فرقان حمید تقریباً سوا ماہ کے مختصر عرصہ میں ترجمہ و تفسیر کے ساتھ مکمل کروایا گیا۔

2) طریقہ تدریس یہ تھا کہ پہلے لفظی ترجمہ اور بامحاورہ ترجمہ کروایا جاتا تھا اور تفسیر بھی اچھے طریقے سے اور مفصل بیان کی جاتی تھی۔ متعلقہ احکام و مسائل واضح کئے جاتے تھے اور حالات حاضرہ کی روشنی میں ڈسکس (Discuss) کیے جاتے تھے اور عمل کے لئے ترغیب و تحریص (Motivation ) دلائی جاتی تھی۔
3) تفسیر کروانے کا انداز مختصر، آسان اور قابل فہم ہوتا تھا جس سے مشکل احکامات اور معاملات بھی باآسانی اور جلدی ذہن نشین ہو جاتے تھے ۔

4) طالبات کو چست اور سبق میں منہمک رکھنے کے لئے لیکچر کے دوران بھی وقتاً فوقتاً اور اختتام پر سبق کے اہم نکات، مسائل اور سوالات پوچھے جاتے تھے۔

5) اگلا سبق پڑھنے سے پہلے گزشتہ روز کے سبق کا سرسری جائزہ لیا جاتا تھا اور علمی و عملی سوالات پوچھے جاتے تھے۔ متعلقہ قرآنی دعائیں بھی سنی جاتی تھیں۔ گزشتہ تحریری کام چیک کیا جاتا۔

6) دس دس پاروں کی تکمیل کے بعد شرکاء کا مختصر زبانی یا تحریری ٹیسٹ لیا جاتا تھا۔

7) جامعہ کی طالبات کی تربیت پر ہمیشہ خصوصی توجہ کی جاتی ہے۔ کیونکہ علم بغیر عمل کے بیکار ہوتا ہے۔ دورہ میں آنے والی نسلوں کی امین طالبات کو بھی تعلیم و تربیت کے ذریعے امت مسلمہ کی با مقصد اور بہترین افراد بننے کے لئے تیار کیا جاتا۔ "ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ” کے مصداق بنانے کے لئے انہیں ڈھالنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
؎ نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کےلئے

8) کلاس کے دوران صرف پڑھائی پر فوکس کیا جاتا تھا۔ اور غیر ضروری باتوں سے مکمل اجتناب کیا جاتا تھا۔ وقت کا ایک ایک لمحہ قرآن کی پڑھائی پر صرف کیا جاتا تھا اور تعلق باللہ مظبوط کیا جاتا تھا ۔

9) جیسے جیسے مزید پارے پڑھتے جاتے، قرآن مجید کے حروف، الفاظ اور آیات کا مزید فہم حاصل ہوتا جا رہا تھا ، ویسے ویسے یوں لگتا کہ قرآن گویا ہمارے قلب و جان پر صرف ہمارے لیے نازل ہو رہا ہے (جبکہ اس سے اکثر شرکاء صرف ناظرہ پڑھا کرتی تھیں اور انہیں یہ علم نہیں ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں سے کیسے مخاطب ہیں؟ اور کیا کلام فرما رہے ہیں؟)

10) دورہ میں طالبات کو ذہنوں میں کھلبلی مچاتے سوالات پوچھنے کی ترغیب دلائی جاتی اور ان کے تسلی بخش جوابات دیے جاتے۔ یہ بات اس لیے بھی خاص ہے کہ بعض اوقات لوگ کئی دینی حضرات و خواتین کے سخت رویوں یا سوالات پوچھنے کی پابندی کی وجہ سے حسب ضرورت مسائل یا سوالات نہیں پوچھ پاتے۔

11) تقابلی جائزے بھی ساتھ ساتھ ہوتے رہے۔مختلف علاقوں میں رائج رسوم و رواج اور شریعت اسلامی سے ان کا موازنہ بھی ہوتا رہا۔ بہت سی بدعات، جو معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلی ہوئی ہیں، کے بارے میں بتایا جاتا اور شرکاء کو ان کا تجزیہ کرنے کا موقع دیا جاتا۔ ان کے خاتمے کے لئے شرکاء نےحسب توفیق اپنے طور پر عملی (تقریری و تحریری وغیرہ) اقدامات اٹھانے کا عزم کیا۔

12) کلاس کے دوران لیکچر کے اہم پوائنٹس طالبات کلاس ورک کی شکل میں نوٹ کرتی تھیں جو باقاعدگی سے چیک (check) ہوتے تھے۔ یہ تحریری کام طالبات کے لیے نہایت سود مند ثابت ہوتا تھا ۔ نہ صرف دنیاوی ٹیسٹوں اور امتحانات کے لئے بلکہ اخروی امتحان کے لیے بھی۔
؎ یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن

13) عمومی حالات میں طالبات باقاعدہ الگ الگ پارے تیار کرتی ہیں لیکن دورہ کے دوران طالبات رجسٹرز پر تفصیل سے لیکچر نوٹ کرتیں اور یہ کلاس ورک بعد میں چیک کیا جاتا تھا۔

14) عمومی حالات میں پانچ پاروں کی تکمیل کے بعد ٹیسٹ سیریز کے ذریعے طالبات کی دہرائی کروائی جاتی ہے اور ان کا پانچ پاروں کا اجتماعی تحریری امتحان لیا جاتا ہے جو معروضی اور انشائیہ طرز کے مختصر اور طویل سوالات پر مشتمل ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ کسی بیرونی استاد سے پانچ پاروں کا شفوی امتحان (viva) بھی دلوایا جاتا ہے۔
لیکن دورہ میں دس پاروں کے بعد امتحان یا ٹیسٹ کا انعقاد کیا جاتا تھا۔

15) ہر سورت اور سپارے کے اختتام پر اس کا مختصر خلاصہ بھی بیان کیا جاتا تھا جس سے پڑھے گئے احکامات اچھے طریقے سے دہرائے جاتے تھے۔ اس سے ہر سورت اور سپارے کی ایک فہرست (index) سی تیار ہو جاتی کہ اس سورت اور پارے میں کون کون سے احکامات بیان کیے گئے ہیں!
دعوت دین کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے طالبات کی مسلسل ذہن سازی بھی کی جاتی رہی۔
؎ حق نے کی ہیں دوہری دوہری خدمتیں تیرے سپرد
خود تڑپنا نہیں اوروں کو تڑپانا بھی ہے

16) قرآن کریم کے مختلف اہم موضوعات پر اسائنمنٹس (Assignments) وغیرہ بھی تیار کروائی گئیں مثلاً انسان کا مقصد زندگی، آدم و ابلیس کے قصے سے حاصل ہونے والے اسباق، بنی اسرائیل کے گناہ اور ان پر آنے والے عذاب، لباس کے مقاصد اور لباس تقویٰ، اقوام عالم کے جرائم اور ان پر آنے والے عذاب، مختلف معاشرتی برائیوں خصوصاً چغلی و غیبت سے اجتناب، اسراف و تبزیر، اللہ سے ڈر اور محبت کی کیفیت، تقویٰ کا حصول کیسے ممکن ہے ؟
دورہ تفسیر کرنے کے بعد ہم میں کون سی تبدیلیاں رونما ہوئیں؟
ہم معاشرے کے لیے کیسے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں؟ وغیرہ
یہ کام شرکاء کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوا۔

17) وقت کی پابندی کے مستقل اہتمام کے ساتھ کلاس بروقت شروع ہوتی تھی ۔ پہلے مختصر اسمبلی کروائی جاتی تھی۔ اور LED پر پندرہ منٹ کے لیے قرآن مجید کی تلاوت لگائی جاتی تھی۔
18) کلاس کا اہتمام پر فضا ماحول میں کیا جاتا تھا۔ اور کلاس کا ماحول باادب اور خوش گوار ہوتا تھا۔
19) کلاس میں نظم و ظبط کے ساتھ پڑھائی ہوتی تھی اور ابتدا میں طے کئے گئے اصول و ضوابط کی پابندی کا خیال رکھا جاتا تھا۔
20) صبح نماز فجر کے بعد کلاس شروع ہونے کی وجہ سے گرمی کا مسئلہ نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی روزے کی وجہ سے مشکل ہوتی تھی۔
21) کلاس کے آغاز کے علاوہ کلاس کے دوران بھی کسی طالبہ یا کسی قاری کی آواز میں تلاوت قرآن مجید کا اہتمام ہونا بہت اچھا لگتا تھا۔

22) متعلقہ اہم مواد وقتاً فوقتاً تحریری شکل میں کمپوز کروا کر مہیا کیا جاتا رہا۔
15) شرکاء کی تعداد کی وجہ سے مائک کا مسلسل استعمال کیا جاتا رہا۔

23) نماز اشراق ،نماز چاشت اور تسبیحات کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔
24) بجلی جانے کی صورت میں سولر سسٹم اور UPS کا متبادل انتظام موجود تھا۔

25) کلاس کا آغاز صبح پانچ بجے ہوتا اور دس بجے تک کلاس جاری رہتی تھی ۔
(دوران کلاس نماز اشراق، نماز چاشت اور تسبیحات، تکبیرات اور تلبیہ وغیرہ کا اہتمام مسلسل بیٹھنے کی وجہ سے ہونے والی تھکن دور کر دیتا تھا)

یہ وقت بڑا ہی بابرکت ثابت ہوتا تھا ۔لمحہ لمحہ غنیمت لگتا تھا۔ رمضان کے نیکیوں کے موسم بہار میں ہر خوشبودار پھول چنا جاتا اور اس پانچ گھنٹے کے بابرکت وقت میں تقریباً ایک پارہ پڑھا جاتا تھا اور آخری دس پارے الحمداللہ اتنے جلدی مکمل ہوئے کہ پانچ گھنٹوں میں تقریباً ڈیڑھ پارہ بآسانی پڑھا جاتا تھا کیونکہ پچھلے پاروں کی تفسیر تفصیلاً پڑھائی گئی تھی اور واقعات چونکہ دہرائے جاتے تھے، لہٰذا بار بار ان کی تفسیر کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔

26) اقامت پذیر (hostalized )طالبات کیلئے شام کو بعد نماز عصر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی ڈسکشن کا اہتمام ہوتا تھا جس سے انہیں کلاس میں پڑھایا گیا سبق بہت اچھی طرح یاد بھی ہو جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ترجمہ اور الفاظ معانی بھی سنے جاتے تھے۔

جامعہ کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ طالبات کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیتی لحاظ سے ایسا شیڈول اور سرگرمیاں مرتب کی جائیں جو ان کے لیے فائدہ مند ہوں اور ان کا قیمتی وقت بہترین طریقے سے استعمال ہو۔

رمضان مینجمنٹ کے حوالے سے یومیہ معمولات رمضان کا شیڈول بھی مرتب کیا گیا تھا۔ طالبات کے لیے تعلیمی امور کے ساتھ ساتھ اس تربیتی شیڈول کے مطابق عمل کرنا لازمی تھا اور ہوسٹل ٹیچرز یہ شیڈول مکمل کروانے اور چیک کرنے کی نگران اور ذمہ دار تھیں۔
رمضان کی گھڑیاں ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی تھیں۔ اور وقت نہایت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا حتیٰ کہ دورے کا آخری دن آپہنچا ۔

27) دورہ کی تکمیل پر شرکاء کے لیے پورے قرآن مجید کا ایک جامع تحریری پرچہ ہوا جس میں معروضی اور انشائیہ طرز کے سوالات شامل تھے۔ ان کے علاوہ تحریری تجزیاتی سوالات کے ذریعے بھی شرکاء کے لیے اپنا محاسبہ کرنے اور جائزہ لینے کی کوشش کروائی گئی۔ بلاشبہ قرآن مجید زندگیوں میں انقلاب برپا کر نے کی صلاحیت کا حامل ہے!
ع قرآن وہ کتاب ہے، جو درس انقلاب ہے

28) دورہ اور رمضان سمر کورسز کے اختتام پر طالبات سے جائزہ (feedback) فارم فل کروایا گیا۔ اور دورہ قرآن کی رپورٹ بھی تیار کروانے کا کام دیا گیا۔

29) طالبات کے لیے نماز تراویح کا باجماعت اہتمام بھی روحانی و قلبی تسکین کے لئے خشوع و خضوع کے ساتھ کیا گیا تھا۔ رات کے سناٹے میں خوبصورت قرات کے ساتھ پر سکون ماحول میں خوبصورت لب و لہجہ آواز میں قرآن مجید کا تراویح میں سننا ایمان تازہ کر دیتا تھا۔
30) نماز تراویح کے بعد متعلقہ قرآنی حصے کا خلاصہ بیان کیا جاتا تھا۔
31) طاق راتوں میں اساتذہ کی زیرِ نگرانی قیام الیل کا مکمل اہتمام ہوتا تھا۔

32) اختتام پر 23 رمضان کو بڑے پیمانے پر افطار پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔ افطاری میں ادارے کی رہائش پذیر طالبات (hostalized)، مقامی طالبات (day scholars) دورہ تفسیر کی بیرونی شرکاء، چند سابقہ طالبات، جامعہ میں منعقد ہونے والے مختلف رمضان سمر کورسز مثلاً "اجالے کاسفر” کی طالبات، اطفال (Kids) کورس "ننھے فرشتے (Little Angles) کی طالبات اور مقامی معاون خواتین کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔

33) افطاری سے پہلے منعقد کیے گئے پروگرام میں پرنسپل صاحبہ نے حاضرین محفل کے سامنے ادارے کا مختصر تعارف اور کارکردگی پیش کی، پوزیشنز کا اعلان کیا۔ اور دورہ ترجمہ وتفسیر القرآن اور رمضان سمر کورسز میں اول، دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والی طالبات کو انعامات سے نوازا گیا ۔

34) دورہ اور شارٹ کورسز میں شامل بیرونی طالبات اور خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں علیحدہ انعامات دیے گئے ۔
بڑی محنت سے تیار کیے گئے چند بہترین ہوم ورک رجسٹرز اور اسائنمنٹس پر بھی انعامات دیے گئے۔

35) جامعہ میں طالبات کو ہر قسم کی سہولیات میسر ہوتی ہیں الحمداللہ ! جن میں چند اہم مندرجہ ذیل ہیں۔
*کشادہ اور ہوادار عمارت
*سر سبز و شاداب وسیع چمن (Lawn)
*تعلیم یافتہ اور باصلاحیت سٹاف
*فری معیاری تعلیم
*فری ہوسٹل کی سہولت
*فری میس اور سحری وافطاری کا عمدہ انتظام
*پینے کا صاف ستھرا پانی
*سولر سسٹم اور U.P.S
*فری واشنگ مشین، سپنر، استری، الیکٹرک ائر کولر، فریزر کی سہولیات
*کنٹین اور بک بینک کی سہولت
*ابتدائی طبی سہولیات کی فراہمی
*روزانہ اور ہفتہ وار ضرورت کی اشیاء منگوانے کی سہولت
غرض روز مرہ کی ہر سہولت فری ہے جن سے رہائش پذیر طالبات استفادہ کرتی ہیں ۔
؎ قسمت نوع بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں

الغرض دورہ قرآن ہر لحاظ سے بہت فائدہ مند ثابت ہوا۔ طالبات کے لیے بھی اور اساتذہ کے لیے بھی۔ خود ہماری سیرت و کردار پر بھی اس مختصر عرصہ میں پاکیزہ، گہرے اور نمایاں اثرات مرتب ہوئے۔ اس ماہ میں ایسا لگتا ہے کہ شائد پورے سال میں یہی ایک ماہ ہے جو ہم نے بالکل اس طرح بسر کرنے کی کوشش کی ہےجیسے اللہ رب العزت نے گزارنے کا حکم دیا ہے۔

طالبات نے عزم و ہمت اور صبر و تحمل کے زاد راہ کی تجدید نو کرکے اس دورہ سے فراغت حاصل کی اور اپنے گھروں کو روانہ ہوئیں کہ ہمیں گھر اور معاشرہ میں اپنا بھرپور اور نافع کردار ادا کرنا ہے ان شاءاللہ

؎ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
ہم ہیں نقیب صبح صداقت
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں