رمضان ماہ فوزان کے فضائل و احکام

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

روزے کی فرضیت
امت مسلمہ پر روزہ 2ھ میں ماہ شعبان میں سوموار کو فرض ہوا تھا۔
قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے۔
يَايُّه‍َا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (البقرة: 183)
ترجمہ: “اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے امتوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔”
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ گزشتہ تمام امتوں پر فرض رہا ہے اور اب امت محمدیہ کے ہر بالغ مرد و عورت پر بھی اس کی ادائیگی لازم ہے۔

اللہ رب العزت کا دوسری آیت میں ارشاد ہے۔
فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَفَلْیَصُمْهُ۔ (البقره: 185)
ترجمہ: "تم میں سے کوئی بھی ماہ رمضان پائے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے ضرور رکھے۔”

روزے کا مقصد
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (البقرة: 183)
ترجمہ: "تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔”
روزے کا مقصد مسلمانوں کے دلوں میں تقویٰ اور پرہیز گاری پیدا کرنا ہے تاکہ مسلمان اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکے۔

رمضان کی عبادات اور محنت و مشقت کا ثمر یہ ہے کہ مسلمان متقی اور گناہوں سے بچنے والے بن جائیں۔ کیونکہ روزے کا مقصد صرف یہ نہیں کہ انسان صرف کھانے پینے اور جنسی خواہشات سے پرہیز کرے بلکہ مقصد یہ ہے کہ وہ تمام گناہوں اور برائیوں کو چھوڑ دے۔ رمضان میں انوار و تجلیات کی بارش ہوتی رہتی ہے۔ تو ان سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے نیکیوں کے موسم بہار میں نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں مستقل آگے بڑھتا چلا جائے۔ تو یہی روزے کا تقاضا اور اصل مقصد ہے۔

روزے کا معنی و مفہوم
عربی میں روزے کو "صوم” کہتے ہیں۔
صوم کا لفظی مطلب ہے "کسی چیز سے رکنا اور اپنے آپ کو روکنا”
اور اس کا شرعی و اصطلاحی مفہوم ہے کہ
"اللہ تعالیٰ کی عبادت کی غرض سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جنسی خواہشات سے رکنا۔”

روزہ اسلام کا تیسرا رکن
روزہ ارکانِ اسلام میں سے تیسرا رکن ہے اور ماہ رمضان اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے۔ ماہِ رمضان میں روزہ ہر عاقل، بالغ، تندرست، مقیم مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے جسے بغیر کسی شرعی عذر کے ترک نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ مریض اور مسافر اس سے مستثنیٰ ہیں۔ لیکن انہیں بعد میں اس کی قضا ادا کرنا ہو گی۔ حیض و نفاس والی خواتین اور بچوں کو دودھ پلانے والی مائیں بھی مریضہ کے حکم میں شامل ہیں۔

رمضان کا چاند دیکھنے کی دعا
رمضان المبارک کا چاند دیکھ کر یہ مسنون دعا پڑھنی چاہیے۔
اللھم أَھِلَّہ علینا بالیُمْنِ والإِیْمَانِ والسَّلامَةِ والإِسلامِ، ربِّيْ ورَبُّکَ اللّٰہ.“
(مسند أحمد بن حنبل، مسند أبي محمد طلحہ بن عبید اللہ، رقم الحدیث: 1397، 179/2، دارالحدیث، القاھرة)
ترجمہ: "اے اللہ! اس پہلی رات کے چاند کو امن وسلامتی اورایمان واسلام کے ساتھ ہم پر طلوع فرما، (اے چاند ) میرا اور تمہارا رب اللہ تعالی ہی ہے۔”

روزے کی نیت
فرضی روزہ کی نیت نماز فجر سے قبل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
روزے کی نیت کرنے کے لیے کوئی مخصوص دعا یا الفاظ قرآن وسنت سے ثابت نہیں۔ بس دل میں ارادہ کر لینا ضروری ہوتا ہے ۔
نیت کے لیے عام طور پر یہ دعا بیان کی جاتی ہے۔
وَبِصَوْمِ غَدٍ نَوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ
ترجمہ: "میں نے ماہ رمضان کے کل کے روزے کی نیت کی۔”
تو یہ ایک موضوع اور من گھڑت دعا ہے اور قرآن وسنت سے ثابت نہیں۔ اور اس میں نیت بھی کل آنے والے روزے کی جا رہی ہے۔ لہذا یہ الفاظ معنوی طور پر بھی صحیح نہیں ہیں۔

ام المؤمنين حضرت حفصہ رضي اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
لَا صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يَفْرِضْهُ مِنَ اللَّيْلِ۔
ترجمہ: "اس شخص کا روزہ نہیں جس نے رات کو اس کی نیت نہیں کی۔”
(سنن ابنُ ماجه: 700، صحَّحه الألباني رحمه الله في الإرواء : (27/4)

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
"وہ شخص روزہ نہ رکھے جس نے طلوعِ فجر سے قبل روزے کی نیت نہیں کی”* (سنن نسائی: 2343)

امام ابن تيمية رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كلّ من عَلِمَ أن غدا من رمضان، وهو يُريدُ صَوْمَهُ، فقد نوى صَوْمَهُ۔
ترجمہ:”جس کسی کے علم میں ہو کہ کل رمضان (کا روزہ) ہے، اور اس کا روزہ رکھنے کا ارادہ ہو، تو یہی اس کی نیت ہے۔”
(الفتاوى الكبرى : 469)

ماہِ رمضان کی آمد مبارک !
حضرت ابوہريرة رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کہ رسول اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو رمضان کی آمد کی خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا کہ:
"قد جاءكم شهر رمضان، شهر مبارك، كتب الله عليكم صيامه”
ترجمہ: "بے شک ماہِ رمضان تمہارے دروازوں پہ دستک دے رہا ہے ۔ یہ مبارک مہینہ ہے۔ اس کے روزے الله نے تم پر فرض کیے ہیں۔”

"فيه تفتح أبواب الجنة، وتغلق فيه أبواب الجحيم، وتغل فيه الشياطين۔”
ترجمہ: اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں۔”

"فيه ليلةٌ خيرٌ من ألف شهر، من حُرِمَ خيرها فقد حُرِم!”
ترجمہ: اس مہینے میں ایک رات ہے جس (میں کی گئی عبادت) ایک ہزار سال (کی عبادت) سے بہتر ہے، جو اس رات کی خیر و برکت سے محروم رہا تو وہ اصل محروم ہے!”
(مسند أحمد : 8979 ، صححه الألباني رحمه الله (صحيح الترغيب : 490/1))

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو رمضان کی مبارکباد دے سکتے ہیں۔ اور ایک مومن جنت کے دروازے کھلنے پر کیوں خوش نہ ہو؟ ایک گناہ گار جہنم کے دروازے بند ہونے پر کیوں خوشی نہ منائے؟ ایک عقل مند شخص شیاطین کے جکڑے جانے پر کیسے خوش نہ ہو؟”
( لطائف المعارف: 158/1)

شيخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"سلف کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو رمضان کی آمد کی مبارکباد دیا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں. اس لیے "رمضان مبارک!” یا "الله اس مہینے کو آپ کے لیے بابرکت بنائے” یا اس قسم کے الفاظ کہنے میں کوئی حرج نہیں. اور مبارک باد وصول کرنے والا جواباً اس جیسے الفاظ ہی کہے، مثلاً”آپ کو بھی مبارک ہو!” یا "آپ کے لیے بھی یہ مہینہ بابرکت ہو” یا کوئی بھی کلمہ جو مبارکباد دینے والے کو اچھا لگے۔” (اللقاء الشهري: 70)

نعمتِ رمضان کی قدر و قیمت
امام ابنِ جوزي رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
” تاللہ، لو قيل لأهل القبور تمنوا ؛ لتمنوا يوماً من رمضان! "
ترجمہ:”اللہ کی قسم! اگر قبر والوں سے کہا جائے کہ تم کوئی آرزو کرو تو وہ رمضان کے ایک دن کی آرزو کریں!” (التبصرة : 85/2)

ایک سبق آموز واقعہ
سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضي اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ دو شخص رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اکٹھے اسلام قبول کیا۔ ان میں سے ایک دوسرے کی نسبت بہت بڑھ چڑھ کر عبادات کرنے والا تھا۔ سو یہ زیادہ عبادت کرنے والا ایک غزوے میں شریک ہوا اور شہید ہو گیا۔ جبکہ دوسرے شخص کی اس سے ایک سال بعد (طبعی) وفات ہوئی۔
حضرت طلحہ رضي اللہ عنہ کہتے ہیں کہ "میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں اور وہ دونوں (شخص) میرے دائیں بائیں موجود ہیں۔ اسی دوران جنت سے ایک شخص نکلا اور بعد میں وفات پانے والے کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ پھر کچھ دیر بعد نکلا اور شہید ہونے والے کو بھی داخل ہونے کی اجازت دے دی. اس کے بعد وہ میری طرف آیا اور مجھ سے کہا کہ”تم واپس چلے جاؤ، تمہارا ابھی وقت نہیں آیا۔”
سیدنا طلحہ رضي اللہ عنہ نے صبح لوگوں کے سامنے یہ خواب بیان کیا تو لوگوں کو بہت تعجب ہوا (کہ زیادہ محنت کرنے والا اور شہید اپنے ساتھی کے بعد جنت میں کیوں گیا؟)
لوگوں نے نبی کریم ﷺ کے سامنے یہ خواب بیان کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"کس بات پر حیران ہوتے ہو؟”
لوگوں نے کہا: "اللہ کے رسول! یہ اپنے ساتھی سے زیادہ عبادت گزار تھا اور شہید بھی ہوا مگر اس کا ساتھی اس سے پہلے جنت میں چلا گیا۔”
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "کیا وہ دوسرا شخص اس کی شہادت کے بعد ایک سال تک زندہ نہیں رہا؟”
لوگوں نے عرض کیا "جی ہاں!”
آپ ﷺ نے فرمایا: "اس نے اس دوران رمضان المبارک کا مہینہ پایا اور روزے بھی رکھے، نمازیں بھی پڑھیں، اور پورے سال میں اتنے زیادہ سجدے بھی کیے۔”
صحابہ کرام نے عرض کیا "جی ہاں!”
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "تو جنت میں ان دونوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہو گیا جتنا زمین اور آسمان کے درمیان ہے. (یعنی بعد میں فوت ہونے والے کے درجات اس قدر بلند ہو گئے۔)
(سنن ابن ماجه : 3925، صححه الألباني في صحيح ابن ماجه (3185) ؛
مسند أحمد : 8380 ، قال أحمد شاكر : إسناده صحيح)

رمضان المبارک کی فضیلتیں

رمضان، نزول قرآن کا مہینہ
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
شَه‍ْرُ رَمَضَانَ الَّذِىْ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ه‍ُدَّى لِّنَّاسِ وَ بَيِّنٰتِ مِّنَ الْه‍ُدىٰ وَالْفُرْقَانْ۔ (البقرة: 185)
ترجمہ: “رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن پاک نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے، راہِ حق دکھانے والی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی کتاب ہے۔”

دیگر تمام آسمانی کتب کے نزول کا مہینہ
مہینوں کا سردار ماہ رمضان، جس کے روزے رکھنے کی ہمیں تاکید کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کی جناب میں بہت اہم مہینہ ہے اور اس کی یہ فضیلت واہمیت کوئی اتفاقی امر نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک زبردست تاریخی عمل موجود ہے اور وہ یہ کہ تمام آسمانی کتب ماہِ صیام ہی میں نازل کی گئیں جن میں تورات، زبور، انجیل اور قرآن مجید شامل ہیں۔

شب قدر میں قرآن مجید کا نزول
پھر مزید وضاحت ہوتی ہے۔
اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ فِىْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ۔ (القدر: 1)
ترجمہ: “ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل فرمایا ہے۔”
27 رمضان المبارک کو قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا گیا اور وہاں سے پھر تقریباً 22 سال، 5 ماہ اور 22 دن کے عرصے میں رفتہ رفتہ دنیا میں نازل کیا گیا۔

شب قدر کی فضیلت
یہ شب قدر کیا ہے؟
اور آپ کیا جانیں کہ یہ کیا ہے؟
یہ ہزار ماہ کی عبادت سے بہتر ہے۔
اس رات میں بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن پاک کا ہدایت نامہ نازل فرما کر جو احسان کیا، وہ یقیناً ہزار ماہ میں بھی سر انجام نہیں پایا تھا۔

روزے کا بے انتہا اجر و ثواب
ایک بہت خوبصورت حدیث قدسی میں روزے کی فضیلت اور بے بہا اجر و ثواب بیان کیا گیا ہے۔
حدیث قدسی درحقیقت رب کریم کی طرف سے اپنے بندوں کے نام نبی رحمت ﷺ کے توسط سے خصوصی پیغام ہوتا ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں سے خود مخاطب ہوتے ہیں۔ اس حدیث کے مطابق
“کُلُّ عَمَلِ ابْنِ اٰدَمَ یُضَاعَفُ الْحَسَنَۃُ بِاَمْثَالِھَا اِلٰی سَبْعِ مِا ئَۃٍ ضِعْفٍ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی اِلَّا الصُّوْمُ فَاِنَّہٗ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہ۔ٖ” (صحیح مسلم)
ترجمہ: “ابن آدم کے ہر عمل کا ثواب اس کے لیے دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے لیکن اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
"روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔”

روزے کی غیر معمولی فضیلت واہمیت کیوں؟
سوال یہ ہے کہ روزے کی یہ غیر معمولی فضیلت واہمیت کیوں ہے؟ اس کی وجہ بھی اسی حدیث میں بیان کر دی گئی ہے کہ
يَدَعُ شَه‍ْوَتَهٗ وَ طَعَامَهٗ مِنْ اَجْلِىْ۔ (صحیح مسلم)
ترجمہ: “روزہ دار میرے لیے اپنی خواہشاتِ نفس اور کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔”

مراد یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ روزے کی بے حد و حساب جزا دیں گے۔ جتنے گہرے جذبے اور اخلاص کے ساتھ انسان روزہ رکھے گا، جتنا تقویٰ اختیار کرے گا، روزے سے روحانی و دینی فوائد حاصل کرے گا اور پھر بعد میں بھی ان فوائد کو برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا تو اللّٰہ رب العزت کے ہاں اس کی جزا بڑھتی چلی جائے گی۔

روزہ اللہ اور بندے کے درمیان مخفی عمل
دراصل بات یہ ہےکہ مسلمان دوسری تمام نیکیاں کسی نہ کسی ظاہری فعل سے ادا کرتاہے لیکن روزہ کسی ظاہری فعل سے ادا نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک ایسا مخفی عمل ہے جو فقط انسان اور اس کے رب کے درمیان ہوتا ہے اور اسی بنا پر اس میں ریا کاری کا امکان نہیں ہوتا کہ وہ اللّٰہ کو کسی طور دھوکہ نہیں دے سکتا۔ اللہ کے نیک بندے رمضان کی دلفریب فضاؤں میں بہت خوش جیتے ہیں کہ خالص نیکی و تقویٰ کی دلفریب فضا ہر طرف چھائی ہوتی ہے!

روزہ دار کی ملائکہ سے مشابہت
اس کے علاوہ، روزہ دار کھانے پینے اور شہوانی خواہشات سے بے نیازی اختیار کر کے اپنے اندر ملائکہ کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا وہ ﷲ کو محبوب ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ:
اَلصَّوْم لِیْ وَ اَنَا اَجْزِیْ بِهٖ۔(صحیح مسلم)

روزہ گزشتہ گناہوں کی بخشش کا ذریعہ
ایک حدیث میں روزے کی فضیلت اور اس کا ثواب یوں بیان کیا گیا ہے۔
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِيْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ۔ (صحیح بخاری)
ترجمہ: “جس نے اللّٰہ پر ایمان رکھتے ہوئے رمضان کے روزے محض ثواب سمجھ کر رکھے، اس کے پہلے سب گناہ بخش دیئے گئے۔”

قیام اللیل کا اجر و ثواب
اسی حدیث میں مزید بیان کیا گیا ہے کہ
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِيْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ۔ (صحیح بخاری)
ترجمہ: “جس نے اللّٰہ پر ایمان رکھتے ہوئے رمضان کی راتوں کا قیام محض ثواب سمجھ کر کیا، اس کے پہلے سب گناہ بخش دیے گئے۔”
صیام و قیام میں دو بنیادی چیزوں ایمان اور احتساب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
؎ کیا ہماری نماز، کیا روزہ
بخش دینے کے سو بہانے ہیں

ایمان اور احتساب کا مفہوم
شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
"ایمان اس بات پر ہے کہ روزے کا حکم اللہ کی طرف سے ہے اور اسی نے اسے واجب قرار دیا ہے۔ جبکہ احتساب یہ ہے کہ صیام و قیام کو اخلاص اور ثواب پانے کی نیت سے انجام دیا جائے۔” (جامع المسائل : 161/1)

بھول کر کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ “جب کوئی شخص بھول کر (روزہ میں) کھالے یا پی لے تو وہ اپنا روزہ پورا کرے، اسے اللہ نے کھلایا اور پلایا ہے۔” (صحیح بخاری: 1812)
لیکن جان بوجھ کر ایک نوالہ کھانے یا ایک گھونٹ پانی پینے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

روزہ جہنم سے دوری کا سبب
حضرت نعمان بن ابی عیاش ابوسعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ
“بےشک جو شخص اللہ کی راہ میں ایک دن بھی روزہ رکھے، اللہ اس کو دوزخ سے ستر برس کی مسافت کے برابر دور کر دیتا ہے۔”
(صحیح بخاری: 104)

روزہ ڈھال ہے
ارشادِ نبوی ﷺ ہے کہ:
اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ.
(سنن نسائی: 2230، 2231)
ترجمہ: “روزہ (دنیا میں گناہوں اور آخرت میں جہنم سے بچانے والی) ڈھال ہے۔ جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔”

روزہ اور قرآن دونوں بندے کے حق میں سفارش کریں گے
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ
"قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندے کی شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا کہ: اے میرے رب! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے پینے اور خواہش پوری کرنے سے باز رکھا۔”
قرآن مجید کہے گا کہ "میں نے اسے رات کے وقت سونے سے باز رکھا تو آپ میری اس کے لیے شفاعت قبول فرمالیجئے۔”
چنانچہ دونوں بندے کی شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت قبول کی جائے گی۔”
(مسند احمد، مشکوۃ المصابیح: 1963)

روزے داروں کے لیے جنت میں باب الریان
حضرت سہل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ
“جنت میں ایک دروازہ ہے جسے “ریان” کہتے ہیں۔ قیامت کے دن اس دروازے سے روزے دار ہی داخل ہوں گے، کوئی دوسرا داخل نہ ہوگا۔ کہا جائے گا کہ “روزہ دار کہاں ہیں؟” وہ لوگ کھڑے ہوں گےاور اس دروازہ سے ان کے سوا کوئی داخل نہ ہو سکے گا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا اور اس میں کوئی اور داخل نہ ہوگا۔”
(صحیح بخاری: 1778)

رمضان میں ایک عمل کا ثواب ستر گنا
رمضان میں ایک نفل کا ثواب ستر گنا بڑھا کر ایک فرض کے برابر کر دیا جاتاہے اور ہر فرض کا ثواب ستر گناہ بڑھا دیا جاتا ہے۔

رمضان کی آمد پر جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں
اس کے آنے پر جنت سجا دی جاتی ہے اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔
ایک پکارنے والا فرشتہ پکار کر کہتا ہے کہ
“يَا بَاغِىَ الْخَيْرِ اَقْبِلْ وَ يَا بَاغِىَ الشَّرِّ اَقْصِرْ ”
ترجمہ: “ا ے بھلائی کے طالب! آگے بڑھ۔ اے برائی کے طالب! پیچھے ہٹ۔” (سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ)
نیکیوں کے اس خوبصورت ماحول میں مسلمان کو ایک نیکی کرنے کی وجہ سے مزید نیکیوں کی توفیق ملتی ہے۔

رمضان میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ: "رسول اکرم ﷺ نے ایک انصاری عورت سے پوچھا کہ:
"تمہارے لیے ہمارے ساتھ حج کرنے پر کیا رکاوٹ ہے؟”
اس نے جواب دیاکہ :”ہمارے پاس صرف دو اونٹ ہیں، ایک پر میرا بیٹا اور اس کے والد حج کرنے چلے گئے اور دوسرا ہمارے لیے چھوڑ دیا تاکہ ہم اس سے کھیتی سیراب کرنے کا کام لیں۔”
آپ ﷺ نے فرمایا کہ : "جب ماہ رمضان آئے تو اس میں عمرہ کر لینا، کیوں کہ رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے۔“
اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ "میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔” (صحیح بخاری: 3/3)

رمضان میں عمرے کو حج کے ساتھ اجر و ثواب میں تشبیہ دی گئی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رمضان میں عمرہ کرنا فرض حج کا متبادل بن جاتا ہے۔ نہیں بلکہ اس کی فرضیت برقرار رہتی ہے۔ لہٰذا رمضان میں عمرہ کرنے سے فرض حج کی ادائیگی کی ذمہ داری ساقط (ختم) نہیں ہوگی۔

روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں
روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنے اور تھکاوٹ کا نام نہیں۔ بلکہ جسم کے ہر عضو کا روزہ ہوتا ہے اور ان اعضاء کو گناہوں سے بچانا اور ان سے نیکی و تقویٰ کے کام لینا ضروری ہے۔

رمضان تربیت کا مہینہ ہے اور اس میں سب سے زیادہ تربیت صبر و شکر کی ہوتی ہے۔ روزے میں ہمیں عبادات کے ساتھ ساتھ گناہوں سے بچنے اور اپنے اخلاق و کردار پر بھی خصوصی توجہ کرنی چاہیے!

ایک بزرگ کا دلچسپ واقعہ
“صرف کھاتا پیتا ہوں لیکن روزے سے ہوں”
کچھ نوجوانوں نے دیکھا کہ ایک بزرگ چپکے سے کچھ کھانے میں مشغول ہیں۔ ایک نوجوان نے نزدیک جا کر پوچھا کہ
"بابا جی! کیا آپ نے روزہ نہیں رکھا؟”
بزرگ نے جواب دیا کہ “کیوں نہیں۔ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ صرف پانی پیتا ہوں اور کھانا کھاتا ہوں۔”
نوجوان نے ہنس کر پوچھا کہ “ کیا ایسا بھی ہوتا ہے؟”
بزرگ بولے کہ "ہاں میں جھوٹ نہی بولتا، کسی پر بری نظر نہیں ڈالتا، کسی سے حسد نہی کرتا ، کسی کا دل نہی دکھاتا ، مال حرام نہی کھاتا اور اپنی ذمہ داریاں اور فرائض دیانت داری سے انجام دیتا ہوں۔
لیکن! چونکہ مجھے بیماری لاحق ہے اس لئے میں معدے کو روزہ دار نہیں بنا سکتا۔”
پھر بزرگ نے نوجوان سے پوچھا کہ “کیا آپ لوگ بھی روزے سے ہو؟”
ان میں سے ایک نوجوان نے سر جھکا کر آہستہ سے جواب دیا کہ
"جی ہم صرف کھانا نہیں کھاتے۔”

روزے دار کے لیے گناہوں سے بچنا ضروری ہے
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
”إِذَا أَصْبَحَ أَحَدُكُمْ يَوْمًا صَائِمًا فَلا يَرْفُثْ ، وَلا يَجْهَلْ ، فَإِنْ امْرُؤٌ شَاتَمَهُ أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ : إِنِّي صَائِمٌ إِنِّي صَائِمٌ“ (صحيح بخاري : 1894)
ترجمہ: "جب تم میں سے کوئی روزہ رکھے تو فحش باتیں نہ کرے، نہ بدتمیزی کرے، اگر کوئی شخص اس سے گالم گلوچ یا جھگڑا کرے تو اسے کہہ دے کہ "میں روزے سے ہوں، میں روزے سے ہوں۔”

رمضان میں دو طرح کا جہاد
حافظ ابن رجب رحمه الله فرماتے ہیں :
"جان لو کہ ماہِ رمضان میں مومن نے اپنے نفس کے ساتھ دو قسم کا جہاد کرنا ہے،

  1. دن کا جہاد روزے کی صورت میں.
  2. رات کا جہاد قیام کی صورت میں.
    تو جس نے دلجمعی کے ساتھ دونوں طرح کا جہاد کیا، اور ان کا حق ادا کیا، اور اس پر صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا تو اس نے بے حساب اجر سمیٹ لیا۔”(لطائف المعارف: 172)

روزے میں مسکرانا اور خوش مزاجی مسنون فعل ہے
سعودیہ عرب کے معروف عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
”إني أُفتيكم الإبتسامة في رمضان لا تفطر ، واعلموا أن البشاشة وطلاقة الوجه لإخوانكم ‏من الأمور التي تثابون عليها.“
‏(الضياء اللامع : 107)
"میں آپ کو فتویٰ دیتا ہوں کہ رمضان میں مسکرانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ خوب جان لیں کہ اپنے بھائیوں کے ساتھ خوش طبعی اور خوشگوار چہرے کے ساتھ ان سے ملنا ایسے امور ہیں جن پر آپ کو ثواب دیا جاتا ہے!”

بغیر شرعی عذر کے روزہ چھوڑنے کی سزا
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ
“اگر کوئی فرد رمضان کا روزہ بغیر کسی شرعی عذر کے چھوڑ دے، وہ بعد میں اگر ساری عمر بھی مسلسل روزے رکھتا رہے، تب بھی وہ رمضان کے روزے کی فضیلت کو نہیں پا سکتا۔”

بغیر شرعی عذر کے روزہ توڑنے کا کفارہ
اور اگر کوئی بغیر شرعی عذر کے روزہ توڑ دے تو اس کو کفارے کے طور پر ایک غلام آزاد کرنا ہو گا یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے ہوں گے یا پھر ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا مناسب کھانا کھلانا ہو گا۔ (صحیح مسلم)

رمضان سے کیسے فائدہ اٹھائیں؟
عرب عالم شيخ ابنِ عثيمين رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ :
"بے شک رمضان کا مہینہ غنیمتوں اور منافع سمیٹنے کا مہینہ ہے۔ پس عبادت، کثرتِ نوافل، تلاوتِ قرآن، ذکر، لوگوں کے ساتھ درگزر، احسان اور دشمنیوں اور نفرتوں کو ختم کر کے اس مہینے سے خوب فائدہ اٹھا لو!” (الضياء اللامع، 165/2)
عبادت کی تھکاوٹیں تو اُتر جاتی ہیں مگر نامہ اعمال میں اس کا اجر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں عبادت میں سستی و کوتاہی نہیں کرنی چاہیے بلکہ محنت و مشقت سے اس جسم کو خوب تھکانا چاہیے۔

چند امور جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا
یہ چند کام ہیں جو روزے میں کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
بھول کر کھا پی لینا، خوشبو اور سرمہ پاؤڈر وغیرہ لگانا، ہانڈی وغیرہ کا نمک مرچ کر فوراً تھوک دینا، نکسیر پھوٹنا، جسم کے کسی اور حصے سے خون نکلنا، مسواک کرنا، خود بخود قے آنا، آنکھ یا کان میں دوائی ڈالنا، احتلام ہونا، حالت جنابت میں میں سحری کھا کر غسل کرنا وغیرہ۔

نواقض روزہ
(وہ کام جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے)
جان بوجھ کر کھانا پینا، حیض ونفاس، خود جان بوجھ کر قے کر دینا ، حقہ، سگریٹ یا بیڑی پینا، نسوار لینا، ہمبستری کرنا، رگ میں انجیکشن لگوانا وغیرہ ایسے افعال ہیں جنہیں کر لینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

رمضان میں عبادت کی محنت ومشقت کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کرتے رہنا
رمضان میں جب بھی طبیعت میں سُستی اور کوتاہی پیدا ہونی شروع ہو، تو اسے قرآن مجید کے یہ دو لفظ یاد دلائیں
أيّامًا مَعْدُودَات
ترجمہ”گنتی کے چند دن”
رمضان کے گنے چنے انتیس یا تیس روزے انمول تحفہ اور دنیا و آخرت کی کامیابی کی گارنٹی ہیں۔ ان میں محنت تھوڑی لیکن اجر و ثواب بےانتہا ہے۔ دن رات دعاؤں کی قبولیت کا وعدہ ہے ، جنت میں اللہ تعالیٰ کے دیدار کا وعدہ ہے اور رزق میں خیر و برکت کا وعدہ ہے۔

رمضان کے تینوں عشروں کی مخصوص دعائیں سنت سے ثابت نہیں۔
رمضان کے تینوں عشروں کی مخصوص علیحدہ علیحدہ دعائیں جو بیان کی جاتی ہیں ،غیر مستند ہیں اور قرآن وسنت سے ثابت نہیں۔ کسی بھی مخصوص عشرہ سے متعلق کسی مخصوص دعا کا کسی قرآنی آیت یا حدیث سے ثبوت نہیں ملتا۔
لہذا پہلے ، دوسرے یا تیسرے عشرے کی قرآن وسنت سے الگ یا کوئی خاص دعا ثابت نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے تمام دعائیں مانگیں۔ اس کی رحمت، مغفرت، برکت سلامتی، ایمان، جسمانی و روحانی صحت و تندرستی، دین و دنیا کی بھلائیوں اور کامیابیوں کی۔ اس کے علاوہ ہر طرح کی خیر و عافیت کا سوال بکثرت کرنا چاہیے۔

گناہوں سے توبہ واستغفار کرنا وقتی عمل نہ ہو، بلکہ مستقل طور پر کیا جائے
رمضان ماہ غفران ہے۔ بہت سے لوگ اس میں برائیوں سے توبہ واستغفار کرلیتے ہیں۔ لیکن ان کے لاشعور میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ رمضان گزر جائے تو دوبارہ سابقہ کام شروع کر دیں گے۔ لیکن یہ فکر ، سوچ اور پھر اس پر عمل سخت گناہ ہے۔ گناہوں پر توبہ مستقل طور پر کرنی چاہیے کہ میں نے یہ گناہ اور غلطی ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی ہے اور اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ کر لی ہے۔

شھر الصیام میں رمضان میں جنت کے کھلے دروازوں سے رحمت کی ٹھنڈی ہوائیں آکر ہمارے گھروں کے درو بام سے ٹکراتی ہیں۔ مغفرت و بخشش کی پکار خود ہمارا تعاقب کرتی ہے۔ جہنم سے رہائی دلانے کے لیے اللہ تعالٰی جہنم سے ہر وقت بے شمار لوگوں کو آزادی دلاتے ہیں ۔

رمضان کی ساعتیں ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی ہیں ، وقت لمحہ لمحہ بیتتا چلا جا رہا ہے، اور کمائی گئی نیکیاں نامہ اعمال میں ریکارڈ ہو رہی ہیں۔

ﷲ تعالیٰ کے لیے گناہوں کی سیاہی سے زیادہ ندامت کی نمی اہمیت رکھتا ہے۔

رمضان نیکیوں کا موسم بہار!
رمضان کیا ہے؟
نیکیوں کا موسمِ بہار!
جس میں نیکیاں اس طرح بڑھتی اور پھلتی پھولتی ہیں جس طرح موسمِ بہار میں سبزہ!
ایک نیکی کی وجہ سے دوسری نیکی کرنے کی توفیق بھی ملتی ہے اور نیکیوں کے اس موسم میں نیکی و تقویٰ کے پھول کھلتے چلے جاتے ہیں، نامہ اعمال میں اجر و ثواب کے ذخیرے جمع ہوتے چلے جاتے ہیں اور مسلمان مختلف عبادات کے ذریعے نیکیوں کی تربیت حاصل کرتا رہتا ہے۔

روزے سے محرومی، نبی اکرم ﷺ اور جبریل امین کی بددعا کا سبب
ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ اپنے منبر کی دوسری سیڑھی پر چڑھے تو جبریل امین آئے اور کہا ” اے اللّٰہ کے رسولِ اکرم ﷺ! اس شخص پر اللّٰہ کی لعنت ہو جس کی زندگی میں رمضان المبارک کا مہینہ آیا اور اس نے باوجودصحت و تندرستی کے روزہ نہ رکھا۔”
آپﷺ نے فرمایا ” آمین!”

بد نصیب ہے وہ شخص جس نے اتنا با برکت مہینہ پایا مگر کمزوری و لاغری کا خود ساختہ بہانہ کر کے روزہ نہ رکھا۔ پھر وہ نہ صرف رمضان کی ہر خیر و برکت سے محروم رہا بلکہ جبریل امین اور نبی رحمت ﷺ دونوں کی بددعا کا مستحق بھی بن گیا۔

بلاشبہ رمضان رب کا قرب حاصل کرنے کا عظیم مہینہ ہے!
یہ نزول قرآن اور قرآن مجید پڑھنے و پڑھانے کا مہینہ ہے!
یہ دعاؤں کی قبولیت کا مقدس مہینہ ہے!
یہ سال بھر کے گناہوں کی بخشش کا مہینہ ہے!
یہ جہنم سے نجات پانے اور جنت کے حصول کا مبارک مہینہ ہے!

                 **********

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں