ٹفن باکس

ڈونگے اور ڈبے

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

آصفہ عنبرین قاضی

دیسی خواتین کو باورچی خانے کے ڈونگے اور ڈبے کس قدر عزیز ہیں اس کا اندازہ صرف وہی لگاسکتے ہیں جن کے گھر ان ڈبوں میں کوئی چیز آتی ہے۔ تعلقات پر ہوسکتا ہے لیکن ڈبے پر نو کمپرومائز ۔۔
فون پہ گفتگو کا محور و مرکز ہی پلاسٹک کے ڈبے ہوتے ہیں


اماں : صبح بھائی کے ہاتھ کریلے گوشت بھیج رہی ہوں ، جو پہلے دو ڈبے ہیں نیلے رنگ کے وہ بھی واپس کر دینا یاد سے ۔۔

تو کیا وہ ڈونگے اور ڈبے لیکر بینک جائے گا ؟
اماں : ڈبے ہی ہیں بم نہیں ، تم بس دے دینا ۔۔

جی اچھا !


کل ہم اسلام آباد جارہے ہیں اماں
اماں : سفر بخیر ، واپسی پہ انٹر چینج سے گزرتے ہوئے وہ ڈبے پکڑاتی جانا جن میں گجریلا اور اچار بھیجا تھا ۔

لیکن موٹروے سے آپ کا گھر ستر کلومیٹر دور ہے ۔۔
اماں: تو کیا ہوا ؟ چل کے تھوڑی آنا ہے ۔

جتنے کا فیول لگے گا اس میں دس نئے ڈبے آجائیں گے
اماں : ٹھیک ہے ، نئے ہی لیتی آنا


اماں فلاں جگہ فوتگی ہوگئی ہے، آپ جائیں گی یا ابا ؟
اماں : تمارے ابا ہی جائیں گے ، تم وہ شیشے کا ڈبا لیتی آنا جس میں مربہ بھیجا تھا ۔

میں تو نہیں آ رہی ، آپ کے داماد ہی آئیں گے ۔
اماں : اچھا تو اس کے ہاتھ بھیج دینا ، کپڑے میں لپیٹ کے شاپر میں ڈالنا ، ٹھیس نہ لگے ۔

وہ دیں گے کس کو ؟
اماں: تمہارے ابا جنازہ گاہ میں ہونگے، ان کو ۔۔۔


یہ لیں اس بار میں خود ہی لے آئی آپ کے دونوں ڈبے !
اماں : اچھا کیا، لیکن اس کا توڈھکن نیلے رنگ کا تھا ، بدل لائی ہو تم ؟

کوئی بات نہیں ، ڈھکن لگا تو ہوا ہے نا ۔
اماں: نہیں تم ڈھکن لیتی جاو ، اور وہی نیلا ڈھکن بھیجنا میرا پورا سیٹ خراب ہوتا ہے ۔


اماں : آم کا مربہ بنایا تھا ، کل تمہارے بھائی کا شاید چکر لگے میں بھیج دوں گی ۔

شاپر ڈبل کر دیجے گا ، ڈبے سے شیرہ نہ گرجائے گاڑی میں۔
اماں: میں اس بار بھیج ہی شاپر میں ڈال کے رہی ہوں ، اپنے ڈبے میں ڈال لینا اور شاپر بیشک واپس نہ کرنا ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں