تزئین حسن، پاکستانی نژاد کینیڈین صحافی، تجزیہ نگار

بال ٹھاکرے کو ملا پاکستان سے سمرتھن

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

تزئین حسن

ایک روز ” مسجد کے لاوڈ اسپیکر” کے حوالے سے میری ایک تحریر کو اپنی پروفائل پر شئیر کرتے ہوئے مہاراشٹرا ( بھارت ) سے کسی حفظ الرحمان بھائی نے یہ دلچسپ تبصرہ لکھا :

” بال ٹھاکرے کو ملا پاکستان سے سمرتھن ”

میں سمجھی کہ انھوں نے تنقیدی تبصرہ کیا ہے ، بعدازاں حفظ الرحمان بھائی نے وضاحت کی کہ ان کا تبصرہ سنجیدہ نہیں تھا. مجھے ان سے پہلے بھی کوئی شکایت نہیں تھی نہ اب ہے۔ مگر اب اپنے قارئین سے کچھ شئیر کرنے کا دل چاہ رہا ہے .

رمضان کے آخری عشرے میں پچیس اپریل کو صبح آنکھ کھلی تو دو خبریں میری منتظر تھیں . دونوں کا تعلق میری ذات سے بن گیا . ایک تو امریکا کے سرکاری ادارے USCIRF یعنی ” یونائیٹڈ اسٹیٹ کمیشن فار انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم ” نے انڈیا کو یکے بعد دیگرے تیسرے سال بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا جہاں مذہبی اقلیتوں کا استحصال ہو رہا ہے، ان کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ریاست براہ راست ملوث ہے اور جہاں اقلیتوں کو مذہبی آزادی میسر نہیں .

دوسری خبر یہ تھی کہ DISINFO LAB نامی ایک ادارے نے ایک ایک سو انتیس صفحات کی ایک رپورٹ شائع کی جس میں الزام لگایا گیا کہ USCIRF کے اس فیصلے کے پیچھے نارتھ امریکا میں ایک طاقت ور انڈیا مخالف لابی ہے جو انڈیا کو بد نام کرنے کے لئے سرگرم ہے اور انڈیا کے خلاف جینو سائیڈ اور فاشزم کا بیانیہ مرتب کر رہی ہے اور مغرب کے طاقت ور حلقوں میں پھیلا رہی ہے.

میرے لئے یہ بہت اعزاز کی بات ہے کہ اس رپورٹ میں عالمی شہرت یافتہ انٹلیکچوئل ارون دھتی رائے، واشنگٹن بیسڈ جیو ساٸیڈ واچ کے بانی گریگوری اسٹینٹن، مورخ آڈری ٹریشکے، محقق اور ایکٹوسٹ پیٹر فریڈرک اور انڈیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر آواز اٹھانے والے دیگر معروف ناموں کے ساتھ چھٹے باب میں میرا تفصیلی تذکرہ بھی تصاویر کے ساتھ موجود ہے.

یاد رہے کہ اس ادارے ڈس انفو لیب کا برسلز بیسڈ ای یو ڈس انفو لیب سے کوئی تعلق نہیں جس نے مغرب میں پاکستان کے خلاف سرگرم بھارتی لابی کی سات سو کے قریب ویب سائٹس کی سرگرمیوں کو آشکار کیا تھا.

رپورٹ کے مطابق اس انڈیا لابی میں چند طاقت ور تنظیمیں بھی شامل ہیں اور چند اشخاص بھی لیکن ان سب انڈیا مخالف سرگرمیوں کا محور ” جسٹس فارآل نامی تنظیم ” ہے . قارئین کو یاد دلا دوں کہ یہ نارتھ امریکا کی وہ ہیومن رائٹس تنظیم ہے جس کے ساتھ میں کام کر رہی ہوں . مجھے فخر ہے کہ جس تنظیم کو USCIRF کے فیصلے کے پیچھے سب سے طاقت ور فورس تسلیم کیا گیا میں اس سے وابستہ ہوں.

رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس تنظیم کے پیچھے پاکستانی آئی ایس آئی اور جماعت اسلامی کی حمایت موجود ہے . اس الزام کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا.

رپورٹ میں ملکی اور بیرون ملک ویبی نارز اور وڈیو سیشنز کے علاوہ میرے ذاتی بلاگ اور چند مضامین کا حوالہ بھی دیا گیا ہے. رپورٹ میرے بارے میں یہ کہتی ہے کہ میں ایک ایسے کشمیری لیڈر کی رہائی کے لئے کوششیں کررہی ہوں جسے منی لانڈرنگ اور پاکستان کی انتہا پسند تنظیموں سے تعلق کے الزام میں بھارت سرکار نے قید کر رکھا ہے-

اپنے اوپر لگے الزامات کا میں تفصیل سے کسی اور تحریر میں جواب دوں گی . اور یہ بھی بتاؤں گی کہ جس کشمیری لیڈر کی رہائی کے لئے میں کوشاں ہوں ، بھارتی انٹیلی جنس راء اور انٹیلی جنس بیورو کے سابق چیف اے ایس دلت اس کے بارے میں کیا گواہی دیتے ہیں اور کیوں اسے جیل جا کر کشمیرکی وزارت علیا کی پیش کش بذات خود کرتے ہیں اور اس کا تفصیلی تذکرہ متعدد مرتبہ بلکہ ایک سو بانوے ایک سو بانوے مرتبہ اپنی کتاب میں کیوں کرتے ہیں .

عجیب طرفہ تماشا ہے کہ مجھ پر باہم متضاد حلقوں سے الزامات لگتے رہے ہیں .

پچھلے دو تین سال سے مجھ پر تواتر کے ساتھ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے پیسے لے کر مشرقی ترکستان ( چین اس خطے کو سنکیانگ کا نام دیتا ہے ) کے ایغور مسلمانوں پر چینی مظالم کے پروپیگنڈے کا الزام لگتا رہا .

پاکستان کے سابق صدر ممنون حسین کے ایک سابق مشیر ( جو چین کے متعدد دورے کر چکے ہیں جن میں عارف علوی کے ساتھ ایک صدارتی دورہ بھی شامل ہے جس میں وہ چینی حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں سے بھی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہیں ) میرے صحافی دوستوں کو وثوق سے یہ اطلاع دیتے رہے کہ میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے باقاعدہ ماہانہ وظیفہ لیتی ہوں .

میرے قریبی صحافی دوستوں نے سنجیدگی سے مجھ سے استفسار کیا کہ ” تزئین ! کیا واقعی آپ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے پیسے لیتی ہیں؟”

سابق مشیر اپنے کالم میں بھی میرا تذکرہ بغیر نام لئے کرتے رہے . سوشل میڈیا پر یہ خبر بھی گردش کرتی دیکھی گئی کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ مجھے امریکی یونیورسٹیز سے کورسز بھی کرواتا ہے اور میرے مضامین جو چینی حکومت کے خلاف ہوتے ہیں ، عالمی میڈیا میں شائع کرواتا ہے .

بعض سوشل میڈیا ایکٹویسٹس مجھے ” بی بی سی آنٹی ” کا خطاب دیتے ہیں اور میرے اس پیغام کو قطعی نظر انداز کر دیتے ہیں جس میں ، میں نے انہیں پاکستان میں مقیم ایغور بھائی خصوصاً وہ جن کی ایغور بیویاں اور بچے آج بھی سنکیانگ میں مقید ہیں سے رابطہ کروانے کی پیش کش کی تھی تاکہ وہ خود حقیقت حال کی تحقیق کر سکیں . اب آئی ایس آئی سے پیسے لے کر انڈیا کے خلاف شمالی امریکہ میں لابنگ کا الزام ہے۔

ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

میرے لٸے یہ بھی اعزاز ہے کہ ایک سو انتیس صفحات کی اس رپورٹ میں اینٹی انڈیا سرگرمیوں کے حوالے سے سید مودودی اور خرم جاہ مراد کا بھی نام ہے . بعض ناموں کا میں تذکرہ نہیں کر رہی کہ صاحب نام شاید پسند نہ کریں .

رپورٹ میں ایک الزام یہ ہے کہ یہ تمام افراد پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اور مسلمانوں کے خلاف کبھی بات نہیں کرتے . کم از کم میری ذات حد تک یہ بات غلط ہے . میں پاکستانی اداروں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے کھل کر ایمان داری کے ساتھ تنقید کرتی رہی ہوں .

یہ الزام کہ میری سرگرمیوں کے پیچھے جماعت اسلامی ہے ، اس کا جواب دینے کی شاید مجھے اپنے پروفائل پر ضرورت نہیں ہے. میرے میرے سوشل میڈیا پیجز سے جڑے لوگ جانتے ہیں کہ میں سید مودودی کی قائم کردہ خیر کی اس تحریک کی پالیسیوں پر بھی کھل کر تنقید کرتی رہی ہوں اور اپنی ایمان دارانہ رائے کا اظہار فرض بلکہ جہاد سمجھ کر کرتی رہی ہوں . انشا الله آگے بھی کرتی رہوں گی .

میرے نزدیک سماجی مسائل پر بحث اور مروجہ طاقت ور بیانیوں کو دلیل اور شواہد کی بنیاد پر چیلنج کرنا کسی بھی معاشرے کی صحت اور اس سے زیادہ بقا کے لئے ناگزیر ہے.

میرے ساتھی جو میرے دل کے بہت قریب ہیں وہ جماعت اسلامی کے بنیادی بیانیوں کو چیلنج کرنے کی میری جسارت پر بہت جز بز ہوتے ہیں . میرے سوشل میڈیا پیجز پر کئی مرتبہ میرے اپنے ساتھیوں کی گالیوں اور سب و شتم کے ڈھیر بھی لگتے رہے ہیں . کبھی براہ راست جھوٹ بولنے کا الزام لگتا ہے . کبھی مجھے مغرب کی روزی روٹی کا طعنہ دیا جاتا ہے . کبھی کہا جاتا ہے کہ میں مغرب کا دفاع کرتی ہوں . کبھی بغض جماعت اسلامی کا طعنہ دیا جاتا ہے .

کبھی جماعت پر تنقید کر کے پوائنٹ اسکورنگ کا طعنہ دیا جاتا ہے . کبھی نیم لبرل کہا جاتا ہے . کبھی فیمنسٹ بیانیہ سے متاثر ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے . کبھی اسلامی فیمنسٹ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے (حالانکہ اس معاملے پر میں صرف قران سے متاثر ہوں اور میرے مضامین میں دلیل کے طور پر قران حدیث کے حوالے ہوتے ہیں جو تحریکی جرائد میں چھپتے رہے ہیں) . تحریک کی حمایت کا دعویٰ رکھنے والے ایک صاحب نے چند روز قبل عورت کارڈ استعمال کرنے کا بیہودہ الزام عائد کیا.

ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ جن ساتھیوں کے ساتھ معاشرتی رویوں پر میں تکلیف محسوس کرتی ہوں ، وہی لکیر کے فقیر بن کر ان مروجہ بیانیوں کی حمایت میں دلیل کے بجائے ذاتی حملے شروع کر دیتے ہیں حالانکہ الله جانتا ہے کہ ان بیانیوں کو چیلنج کرنے میں میرا اپنا کوئی ذاتی فائدہ نہیں . یہ صرف سماجی امور پر بحث کو آگے بڑھانے کی ایک کوشش ہوتی ہے . دلیل اور شائستگی کے ذریعے مجھے جواب دیا جا سکتا ہے اور قائل بھی کیا جا سکتا ہے.

لیکن حقیقت یہ ہے کہ انڈیا، اسرائیل ، چین ، امریکا اور مغربی ممالک کی مخالفت آسان ہے لیکن اپنے سادہ لوح اسلامسٹ بھائیوں اور بہنوں کا سب و شاتم برداشت کرنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور شاید اسی لئے یہ میرے لئے ظالم حکمران کے خلاف آواز اٹھانے کے برابر ہے.

ہر تحریر کے بعد تھک ہار کر سوچتی ہوں . بہت ٹائم چلا گیا . ایسا بھی ہوتا ہے کہ میرے بارے میں تحریکی اشرافیہ کے وہاٹس ایپ گروپس پر جو گفتگو ہو رہی ہوتی ہے اس کے اسکرین شاٹس مجھے بھیجے جاتے ہیں . الله جانتا ہے کہ ایسے خیر خواہوں کو میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ آئندہ مجھے ایسے اسکرین شاٹس نہ بھیجے جائیں . میں اپنے دل میں ان بیوقوفی کی حد تک سادہ ساتھیوں کے لئے کوئی بد گمانی رکھنا نہیں چاہتی جن کے نزدیک حق اور باطل کا معیار صرف تحریکی بیانیوں کی حمایت یا مخالفت ہے .

سن دو ہزار سترہ میں یمن پر سعودی حملے اور یمنی مسلمانوں کی حمایت پر مجھے شیعہ قرار دینے کی کوشش کی گی . اقلیتی کمیشن کے حوالے سے رمضان دو ہزار بیس میں مجھے بیرون ملک ایک ایشیائی ملک سے پیغام دلوایا گیا کہ آپ کو قادیانی شمولیت سے متعلق بنیادی امورکا ادراک نہیں. اس لئے ملک اور بیرون ملک آپ کا مذاق اڑایا جا رہا ہے.

اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو ساتھی برسوں میرے سوشل میڈیا پیجز پر نہیں آتے وہ کسی سنجیدہ تحریر پر پہنچ جاتے ہیں اور یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ ہمیں تو آپ کی باتوں پر ہنسی آتی ہے . بس ! ایسے میں طائف بہت یاد آتا ہے . کچھ ساتھی اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں . آیا صوفیہ پر اردگان کے فیصلے کے خلاف میرے دلائل پر کہا گیا کہ میں بابری مسجد کے انہدام کی حمایت کرتی ہوں .

تعجب ان ساتھیوں پر ہوتا ہے جو مجھے بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور میرے مضامین بھی ان کی نظر سے گزرتے رہتے ہیں . ایسے میں اگر مجھے بال ٹھاکرے کو سپورٹ کرنے کا الزام عائد کیا جائے اور کسی ایسے فرد کی طرف سے عائد کیا جائے جو مجھے ذاتی طور پر جانتا نہ ہو تو مجھے افسوس نہیں ہوتا .

اکیلے کسی ایشو پر اتنے لوگوں کی مخالفت مول لینا کوئی آسان کام نہیں ہوتا . خصوصاً اس صورت میں جب ان مخالفین کو نظریاتی لحاظ سے آپ اپنا سمجھتے ہوں . میرے ان بیانیوں کو آج سوشل میڈیا کے سنجیدہ حلقوں میں بھی قبولیت حاصل نہیں . لبرل مجھے اسلامسٹ سمجھتے ہیں اور اسلامسٹ لبرل .

سب نہیں مگر بعض مرد بد قسمتی سے جن کی اکثریت کا تعلق اسلامسٹ طبقات سے ہوتا ہے ، محض زہریلی مردانگی کے زعم میں یہ محسوس کرتے ہیں کہ ایک خاتون کو ان موضوعات پر بولنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ خواتین کا ذاتی دماغ نہیں ہوتا . بعض ساتھی جو دل میں متفق ہوتے ہیں ان باکس میں یا ذاتی گفتگو میں میرے موقف کی حمایت کرتے ہیں ، برادری کے ڈر سے وال پر آنے کی ہمت نہیں کرتے ۔ ‘ برادری ‘ میں کسے کہہ رہی ہوں جاننے والے جانتے ہیں ۔ ایسے میں تنہائی محسوس ہوتی ہے اور تنہائی تکلیف دہ بھی ہوتی ہے لیکن میں یہ جہاد انشاللہ کرتی رہوں گی .

میرے جو خیرخواہ ان باکس میں ہمت بندھانے کے ساتھ یہ مشورے دیتے ہیں کہ تم صحیح کہہ رہی ہو لیکن ان موضوعات کو چھوڑ دو اور مٹی پاؤ اور اپنا کام کرو اور اپنے ساتھیوں کی مخالفت مت مول لو.

ان میں سے بعض کے نزدیک سماجی مسائل اور خصوصا ً جماعت کے ان مسائل پر بیانیہ پر کام نہیں محض وقت کا زیاں ہے . میں انھیں یہی جواب دیتی ہوں کہ یوں سمجھ لیجئے میرا تعلق فرقہ ملامتیہ سے ہے . بعض لوگ یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ بات کو گھما پھرا کر کیا جائے یعنی ابلاغ کا سلیقہ . براہ راست دوسرے کو دلیل کا تھپڑ نہ لگایا جائے.

ایسے ساتھیوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ میں اس صلاحیت سے پیداٸشی طور پر محروم ہوں ۔ میں کتنی بھی کوشش کرلوں ان مشکل موضوعات پر بعینہ اسی طرح بغیر لگی لپٹی اپنی بات کر سکتی ہوں . کوئی یہ سمجھنا چاہے کہ میرے اندر ابلاغ کا سلیقہ نہیں ہے تو سمجھ سکتا ہے.

سوال یہ ہے کہ کسی مخصوص موضوع پر مجھے منہ بند رکھنے کی اور مجھےاپنی ایمان دارانہ رائے نہ دینے کی صلاح دینے والے کا کیا مقصد ہے؟ اگر میری بات اتنی ہی فضول ہے تو اسے معاشرے میں قبولیت نہیں ملے گی . اور اگر آپ کی بات میں دم ہے تو دلیل سے میرے بیانیہ کو چیلنج کریں . مجھے برادری میں برے بننے سے زیادہ تکلیف اس بات پرہوتی ہے کہ میرے قریبی دوستوں اور خیرخواہوں کو میرے بارے میں بھلی بری سننا پڑتی ہے جس سے وہ تکلیف محسوس کرتے ہیں اور دباٶ میں آکرغیر ارادی طور پر مجھ پر دباٶ ڈالتے ہیں ۔

جوخواتین و حضرات بدتمیزی اور بد تہذیبی پر اتر آتے ہیں ، تکلیف کے باوجود انہیں اپنا ساتھی سمجھتے ہوئے یہی سوچتی ہوں کہ میرے سرکار نے بھی تو حق کی ترویج کے لئے تکالیف برداشت کیں . طائف یاد آتا ہے اور سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق بہت بڑھ جاتا ہے .

مختصر یہ کہ یہ راستہ میں نے سوچ سمجھ کر چنا ہے . یہ کوئی پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہنا نہیں ہے جو آسان ہو . یہ دریا کے بہاؤ کے مخالف جانا ہے اور شاید والدین کی تربیت کے ساتھ ساتھ اس میں تحریک کی تربیت کا بھی ہاتھ ہے . آخر میں قرآن کی آیت :

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف ۔ خواہ کوئی امیر ہو یا غریب دونوں کا اللہ ہی بہترین نگہبان ہے ۔ پس اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو مبادا عدل سے گریز کرو ۔ اور اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلوتہی کر گئے تو یقینا ًاللہ جو تم کرتے ہو اس سے بہت باخبر ہے ۔ (النساء:136)

اقبال کا یہ شعر بار بار یاد آتا ہے اور بار بار شئیر کرتی ہوں:

درویش خدا مست نہ شرقی ہے، نہ غربی
گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند

کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے آبلۂ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں