نثار-موسیٰ-اور-چاہ-بہار-شہر-ایران

ایران کشور جہان ( سفرنامہ، قسط:1)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ہمیشہ سے دل میں خواہش رہی ہے کہ ایران کو دیکھنے جاؤں۔ ایران سے میرا رشتہ نانا جان کی وجہ سے بھی ہے۔ وہ ایران میں ایک بااثر خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔آج سے سو سال پہلے وہ ایران سے ہمارے علاقے تربت آئے تھے۔

امی جان ہمیشہ بتاتی تھیں کہ وہ ایک خاندانی ناراضی کی وجہ سے اپنی خوشحال زندگی چھوڑ کر سرحد کے اس جانب بلوچستان میں آئے اور شادی بیاہ کے بعد کبھی واپس اپنے خاندان سے ملنے نہیں گئے تھے۔ ہم مذاق میں امی جان سے کہتے کہ ہم جائیں گے اور اپنے حصے کی جائیدادیں وصول کریں گے۔

حفیظ بلوچ ہمارے دوست اور یار من ہیں۔ وہ ایک زبردست شخصیت کے مالک ہیں۔ جب وہ پی ٹی وی کراچی میں پروڈیوسر تھے تو ہر رات کو، اپارٹمنٹ کے نیچے پارکنگ ایریا میں چارپائی پر ہم دوستوں کی محفل سجتی تھی۔ چارپائی پر ہم نے کئی ممالک کی سیر کی اور پروگرام بنائے پر جانہیں سکے۔ میں، حفیظ، دیدار اور عطاءاللہ جو ہمارے گروپ کے لیڈر ہیں اور ہم دوستوں کے گروپ کو جوڑ کر رکھتے ہیں، کوشش کرتے کہ کہیں اکٹھے باہر ٹور کے لیے نکلیں۔ ایک بار ترکیہ کا پرگرام بنایا۔ قطر ائیر ویز سے بکنگ بھی کی مگر مجھے اور حفیظ کو ویزہ نہیں ملا تو عطاءاللہ اور دیدار نے ہماری خاطر اپنا سفر کینسل کردیا۔ میں اور حفیظ آج تک ترکیہ حکومت کے اس ظالمانہ اور پر تعصب رویہ پر نالاں ہیں۔

حفیظ بلوچ کی جب گوادر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی میں پوسٹنگ ہوئی تو انھوں نے ہمیں مسلسل ایران جانے کے لیے آمادہ کیا۔ بوجوہ کچھ مسائل کے ہم نے ایک سفر حفیظ کے ساتھ مس کیا۔ وہ جب ایران سے واپس آئے تو پتہ چلا کہ انھیں بھی ہمارے بغیر مزہ نہیں آیا تھا۔ 2023 میں انھیں ّایران ایکسپوٗ کے بارے میں پتہ چلا ۔ وہ کچھ دیگر دوستوں کے ساتھ دوبارہ تشریف لے گئے۔

مضمون نگار دوستوں کے درمیان

سال رواں میں انھوں نے پھر کوشش کی کہ ہم ضرور ان کے ساتھ چلیں۔ جب ایران ایکسپو2024 کی رجسٹریشن شروع ہوئی تو انھوں نے وہ لنک فوراً ہمیں بھیج دیا۔ میں نے عطاءاللہ سے کہا کہ اب کی بار ہمیں سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہم سب کی رجسٹریشن کرادیں۔ میں نے فوراً ہامی بھری اور کام شروع کردیا۔ اس دوران حفیظ مسلسل ہم سے اپ ڈیٹس لیتے رہے۔ میں نے ان سب کے ضروری کاغذات خود بنائے۔ آن لائن رجسٹریشن کے لیے گھنٹوں مسلسل کام کیا۔ اس دوران عطاءاللہ نے بتایا کہ ان کے کاروباری ’دوست‘ جناب واجد محمود سیلانی اور مونس احمد بھی جانا چاہ رہے ہیں۔

مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ یہ لوگ ہمارے گروپ میں شامل ہوں گے۔ واجد اور مونس نے واقعی سفر کو ’خوشگوار اور یادگار‘ بنادیا۔ دوران رجسٹریشن ہمارے دوست محمود خان جو فش ایکسپورٹ کی دنیا کے بادشاہ ہیں، کی طرف سے معاملات سب سے زیادہ لیٹ ہوتے رہے لیکن میں استقامت کے ساتھ ان کے پیچھے پڑ کر ڈاکیومنٹس کو اکھٹا کرتا رہا۔

اللہ تعالیٰ کا کرم ہوگیا اور ہم سب دوست ایرانی حکومت کے مہمان کے طور پر اپنے دعوت نامے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب ہمیں ویزوں کے لیے ایجنٹس سے رابطے کرنا تھے۔ میرے پاسپورٹ پر تربت کیچ کا پتہ تھا تو حفیظ نے بتایا کہ آپ کے لیے ہم گوادر سے پروسیس کروائیں گے۔ باقی دوست کراچی سے پروسیس کروائیں۔

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ایک رات میں عطاءاللہ، محمود اور واجد سولجر بازار میں ایک ایجنٹ کے پاس گئے اور ڈاکیومنٹس جمع کرائے۔ یہ مرحلہ عطاء اللہ کے ایک اہل تشیع دوست کی وجہ سے خیر و عافیت سے ممکن ہوا. انہوں نے ویزہ فیس 17000 روپے بتائی۔ ایک دو روز بعد حفیظ نے بتایا کہ ایرانی حکومت نے ایکسپو2024 کے مہمانوں کے ویزے فری کر دیے ہیں اور پھر عید کے بعد ویزے مل گئے۔ ایرانی حکومت کا شکریہ جس نے ہمیں مہمان کے طور پر ہوٹل میں قیام و طعام کی سہولت نہایت محبت کے ساتھ سرکاری خرچے میں مہیا کی۔ میزبان سرکار کا رویہ بھی بہترین تھا۔

اسی دوران حفیظ بلوچ اور یاسر فدا حسین نے اپنے چاہ بھار کے دوستوں کے ساتھ مل کر ہمارے لیے 26 اپریل کی رات چاہ بھار سے تہران ائیر ٹکٹس بک کروائے۔ جمعہ کو بارڈر کراسنگ بند ہوتی ہے جس کی وجہ سے طے ہوا کہ ہم ہفتہ 27 اپریل کو بارڈر کراس کریں گے اور رات کے وقت چاہ بھار سے تہران جائیں گے۔ واضح رہے کہ ایکسپو 27 اپریل سے یکم مئی 24 20 کو منعقد ہورہی تھی۔(جاری ہے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “ایران کشور جہان ( سفرنامہ، قسط:1)”

  1. جاوید اصغر Avatar
    جاوید اصغر

    شان دار

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے