پاکستان کے ایک نجی تعلیمی ادارے کی طالبات سکول جا رہی ہیں

نجی تعلیمی اداروں کے سمر کیمپ یا ۔۔۔۔۔۔۔۔؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نگہت حسین

ایک نجی اسکول کی مالک خاتون نے انتہائی دلچسپی سے پوچھا کہ آپ مجھے بتائیں کہ ہم تعلیم کی خدمت کیسے کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے جھٹ فرمایا
اپنا اسکول بند کر کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سچی بات ہے کہ
اسکول کے حوالے سے اگر کبھی بھی کوئی دلچسپی رہی ہے تو وہ صرف اور صرف اساتذہ اور بچوں سے رہی . تعلیمی اداروں اور خصوصا نجی اسکولز کی انتظامیہ تو ہمیں ہمیشہ سے خون چوسنے والے بنیے کی مانند لگتی ہے ۔

چند ایک اچھی مثالوں کو چھوڑ کر تمام کے تمام اسکول بدترین انتظامی امور کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعلیم اور انسان دونوں کا استحصال کرتے نظر آتے ہیں ۔
ایسی علم کی قدرو قیمت سے نابلد انتظامیہ کا ایک نکاتی ایجنڈہ ہوتا ہے پیسے کمانا ۔

مثال سن لیجیے تازہ ترین ہے اور ہر جگہ موجود ہوگی کہ
ایک اسکول میں چار پانچ اہم ترین مضامین کے اساتذہ کی کمی ہے انتظامیہ اسکول کے دوسرے اساتذہ سے ان تمام اساتذہ کا کام کرواتی ہے اور صرف اس لئے نئے اساتذہ نہیں رکھتی کہ جون جولائی کی تنخواہ نہ دینی پڑ جائے۔۔۔۔۔۔
جبکہ ویسے بھی نئے اساتذہ کو جون جولائی کی تنخواہ نہیں دی جاتی ۔ دوسری طرف بچے کا ایک دن پہلے بھی ایڈمیشن ہوگا تو جوں جولائی کی فیس اور دیگر تمام اخراجات پوری طرح وصول کئے جائیں گے ۔

انتظامیہ صرف یہ سوچتی ہے کہ کاروبار میں خسارہ نہ ہو ۔ تعلیم کیسے بہتر ہوسکتی ہے اساتذہ کو کیسے سہولت مل سکتی ہے تربیت کے لئے کیا مزید کیا جاسکتا ہے انتظامیہ کا کبھی ایجنڈہ نہیں ہوتا ۔

صورتحال یہ ہے کہ جب تعلیمی اداروں میں انسان سازی کا دعویٰ کر کے انسان سوزی کی جاتی ہو تو وہاں کس قسم کی تعلیم دی جاتی ہوگی اور اساتذہ کی کیا ذہنی و فکری سطح ہوتی ہوگی وہ کیا علم دیتے ہوں گے یہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ۔
ایک عقل مند انسان کو خود ہی سمجھ جانا چاہیے ۔

اب آئیے سمر کیمپ کی طرف
سمر کیمپ کے نام پر کمانا اسکولز کی ایک اور سرگرمی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس میں اسکولز ہر وہ چیز جو اسکول کو سکھانے کی ذمہ داری تھی اس کو الگ سے فیس لے کر سکھایا جاتا ہے ۔
کوئی یہ سوال کیوں نہیں اٹھاتا کہ یہی سرگرمیاں اسکول کے نصاب کا حصہ کیوں نہیں ؟

اس وقت سیلیبس اور رٹی رٹائی چیزیں کیوں کروائی جاتی ہیں ۔ تدریس اتنی بوجھل اور بے رونق کیوں بنائی جاتی ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اسکول کس کام کے رہے ؟
روزانہ کچھ کتابیں پڑھا کر سوال جواب کرنے کے لئے نوٹ بک بھرنے اور ورک شیٹ پر کام دینے کے لئے ۔۔۔۔

زندگی کے عملی میدانوں میں جن صلاحیتوں کی ضرورت ہے اس کے لئے والدین علیحدہ بھاگ دوڑ کرتے ہیں ۔ بھاری بھرکم فیس لے کر کہیں انگریزی سکھائی جارہی ہے کہیں ربوٹک ، کہیں شخصیت سازی کے کورسس ہورہے ہیں تو کہیں کمپیوٹر کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اخلا ق کردار اور تربیت کی تو بات ہی نہ کیجیے ۔

ہم بارہا کہتے ہیں کہ کمیونٹی کی سطح پر بچوں کی تعلیمی اور دیگر سرگرمیوں کے مراکز اپنے گھروں کو بنائیں ۔ تاکہ مختلف اداروں کی تعلیمی کاروباری ذہنیت کا خاتمہ ہوسکے ۔
لیکن برا ہو اس اشتہاری گلیمر کا ہمیں بھی وہی چیزیں دل کو بھاتی ہیں جن کے پیچھے خلوص اور علم کے بجائے کاروبار اور پیسہ پیسہ جوڑنے کی نیت ہو۔

تلاش کیجیے آپ کے ارد گرد خاموشی سے کام کرنے والے ان اساتذہ کو جن کی علمی قابلیت و صلاحیت کو قدردانی چاہیے کیوں کہ اصل میں وہی اثاثہ ہیں اور علم کے چراغ روشن کرنے والے بھی ۔

علم کی قدر کرنا سیکھیے تاکہ اس سے کاروبار کرنے والوں کا خاتمہ ہوسکے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں