نوجوان خاتون فرش پر پوچا لگا رہی ہے

پوچا یعنی جھاڑو کا چھوٹا بھائی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نگہت حسین

ذرا گھر کی بالکونی یا کپڑے دھونے کی جگہ کے کسی بھی کونے کھدرے پر نظر ڈالئے اگر وہاں لٹکا ہوا کوئی بھیڑ کی کھال نما اونی کپڑا یا بد رنگ سا تولیہ نظر آئے تو سمجھ جائیں کہ یہی گھر کا پوچا ہے ۔

پوچے کو آپ رشتے میں جھاڑو کا چھوٹا بھائی کہہ سکتے ہیں ۔ کیوں کہ اس کا کام جھاڑو پھیرنے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے . اس کا ثبوت آپ پاکستانی سیاہ ست دانوں کے چھوٹے بھائیوں کو دیکھ کر کر سکتے ہیں کہ ان کا کیا کام ہے ۔

اس رشتے کی بناء پر ہی جھاڑو اور پوچھا لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں کیوں کہ دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں ۔

زیادہ تر روایتی پاکستانی خواتین پوچا ایسے کپڑے کا بناتی ہیں جو خود بھی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہو اور جس کا کوئی استعمال نہیں بن پاتا ۔ مثلا نہ تو اس کا ڈسٹر بن سکتا ہو نہ غلاف نہ ہی کوئی کور یا اسی طرح کی کسی بھی قسم کی چیز ۔۔۔۔۔ تو آخری چوائس یہی بچتی ہے کہ اس کا پوچا بنایا جائے ۔ اسی لئے پاکستانیوں کے پرانے سوئیٹزر اور تولیہ کہیں استعمال شدہ ملتے ہی نہیں صفحہ ہستی سے ہی غائب ہو جاتے ہیں کیوں کہ ان کی آخری منزل پوچا بننا ہوتی ہے ۔ پھر اس کے بعد اس کپڑے کا نام و نشان نہیں رہتا ہے ۔

پوچا بننے کے بعد ویسے بھی کپڑا اس بہو کی طرح اپنا رنگ و روپ کھو بیٹھتا ہے جس کو ظالم سسرال ملا ہو ۔۔۔۔۔ اس لئے پہچاننے کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں یوں آپ معصوم بننے کی خوب خوب اداکاریاں کرسکتی ہیں کہ مجھے کیا پتہ !

دیکھا جائے تو ہمارے اردگرد کچھ لوگ بھی ساری زندگی پوچے کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ بے چارے اپنا رنگ و روپ کھو دیتے لیکن جس کو چمکانا چاہتے ہیں چمک کر نہیں دیتا بلکہ اپنے اجلے پن کو بھی دوسروں کی گند صاف کرتے کرتے ماند کردیتے ہیں . بعد میں خود بھی پھٹی پرانی حالت ہونے کے سبب بے کار گردانے جاتے ہیں ۔ اس لئے کسی کا پوچا بننے سے ہمیشہ گریز کرنا چاہیے ۔

کسی زمانے میں پوچا لگاتے وقت سلیقہ مند بیبیاں سارے گھر والوں کو باہر نکال دیتی تھیں لیکن پھر گھر والے کب اندر آتے تھے ؟یہ پوچے والیوں کے موڈ مزاج پر منحصر ہوتا تھا ۔ اس پر کبھی کسی نے اپنے جذبات تحریر نہیں کئے ۔

سنا ہے کہ پہلے کبھی پوچا لگانے والیاں فرش شیشے کی طرح چمکا دیا کرتی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس شیشے میں منے کے ابا اپنی مانگ نکال کر دفتر جایا کرتے تھے ۔ ہمارے خیال سے اسی لئے منے کے کسی ابا کے دل میں ہیرو بننے کی امنگ نہیں پائی جاتی تھی اور شادی کے بعد وہ سدھر جاتے تھے اور پرانے زمانے کی بڑی بوڑھیاں سمجھتی تھیں کہ لڑکا بگڑ رہا ہو تو شادی کروا دو سدھر جائے گا ۔ کیوں کہ نہ بے چارہ آئینہ دیکھ سکتا تھا نہ ہی مانگ نکال سکتا تھا ۔ فرش پر چہرہ دیکھنے کے بعد تو اس کا دل دنیا سے اچاٹ ہوجاتا تھا. پس بیوی بچوں کو نعمت سمجھ کر صبر شکر سے زندگی چپ چاپ ہی گزار دیتا تھا۔

لیکن اب وہ زمانے کہاں ؟
نہ وہ بیبیاں رہیں نہ ویسے بھولے منے کے ابا ۔۔۔ جو آئینے کی موجودگی میں بھی فرش دیکھ کر ہمیشہ ہی دل رکھنے کو آڑی ترچھی مانگ نکال کر جاتے تھے ۔ اور بیبیاں بھی کتنی بے وقوف تھیں کہ شیشے کے ہوتے بھی خواہ مخواہ فرش کو شیشہ بناتی تھیں ۔

زمانہ بدل گیا ہے سلیقہ صفائی کے انداز بدل گئے ہیں ۔۔۔ لیکن جھاڑو پوچا کا ساتھ کب چھٹا ہے ؟
اب یہ ساتھ طرح طرح کی شکلیں بدل کر آگیا ہے ۔
اور جدید پوچے کچھ بھی کرلیں ان میں وہ بات نہیں جو روایتی پوچوں میں ہوتی ہے ۔ بہرحال صفائی ستھرائی کے مددگاروں کو سلام ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں