مسلم خواتین آپس میں گفتگو کرتے ہوئے

آپ کے سدھرنے سے نسلیں سدھر جائیں گی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نگہت حسین

وہ جسے ہم اپنا ہمدرد سمجھتے ہیں ۔۔۔ وہ جس سے ہمیں بات کر کے سکون ملتا ہے اور وہ جو ہماری پریشانیوں اور دکھوں کو اسی طرح شدت سے محسوس کرکے ہمیں دلاسا دیتا ہے ۔۔۔ہمارے خود بہ خود قریب ہوتا جاتا ہے ۔۔۔۔۔

لیکن کیا ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ آپ جس فرد کو اپنا سب سے زیادہ ہمدرد سمجھ رہی ہوں وہ حقیقت میں آپ کا ہمدرد ہو ؟

وہ بظاہر زخموں میں مرہم رکھنے والا ہو لیکن وہ مرہم دراصل زخموں کو ناسور کی طرح پکا رہا ہو۔۔
آپ کو اندازہ ہوتا ہے ۔۔۔؟ کبھی کبھی ۔۔۔۔۔ آدھے خالی گلاس کو بھرا ہوا بتانے سے منظر نامہ ہی بدل جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔
اور کبھی بھرا ہوا گلاس بھی صرف بتانے والے کی بات کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔خالی نظر آتا ہے قدر کھو دیتا ہے ۔
تعلق ،رشتے ہماری محبتیں کبھی ہمیں بہت زیادہ غلط بھی استعمال کرتی ہیں ۔۔۔۔

منفی اور فسادی بات ہو اور دل سوزی محبت اور تعلق کے پردوں میں چھپی ہو تو کیسے پتہ لگے گا کہ غلط ہے ؟
جب تک کہ ہمارا فہم و فراست کی بنیاد ایمانی بنیادوں پر نہ ہو ۔

ماں اور بیٹی کی محبت کو ہی دیکھ لیجیے ۔۔۔۔ گھنٹوں باتوں کا محور جب گھر میں عزت بنا کر لائی گئی کسی اور کی بیٹی بن جائے ۔۔۔۔۔تو اس کی ہر بات پر تبصرہ اور مشورے کی صورت نازل ہونے والی مصیبت سے کیا گھر بنتے ہیں ؟

اور جب گھر پر بسنے کی جدوجہد میں مصروف بیٹی کے آنسو پوچھنے کو بےتاب والدین غلط مشوروں سے نواز کر حالات کو اور دگرگوں کردیں تو ۔۔۔۔کیا ہوگا ؟

ہمارے گھروں میں
ہر فرد ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ہر فرد ٹھیک ہوکر بھی دکھی ہے ۔
دونوں سچے ہیں اور پھر بھی سکون نہیں ہے ۔
پیچھے کوئی نہیں ہٹ سکتا ۔۔۔۔۔کیوں کہ دونوں ہی حق پر ہیں ۔۔۔

زندگی گزار کر ساری اونچ نیچ کے بعد بزرگوں کے مزاج بگڑے ہوئے ہوں تو جوان تو اپنے گرم مزاجوں کا عذر رکھتے ہیں ناتجربہ کاریوں کی سند رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔

۔لوگ کیوں ہنستے ، تمسخر اڑاتے ہیں کہ عورتوں کے پاس کوئی بات نہیں ؟ انھیں اندازہ نہیں ہوتا کہ ایک عام عورت سارا وقت گھر پر گزارتی ہے اور سارا دن گھر پر رہنے والیوں کو ایک جیسے ہی افراد سے ۔۔۔۔۔ ایک جیسے غیر اخلاقی زہریلے رویوں کا مسلسل سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان کے پاس نہ کوئی موضوع بچتا ہے نہ کوئی عقل ۔۔۔۔۔۔ہر وقت ہر کردار مظلوم بنا رہتا ہے.

آفس کے بھی کوئی اوقات ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔روئیے برداشت ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔ لیکن مسلسل ۔۔۔ ہمہ وقت ۔۔۔۔۔۔۔ ہر پل ۔۔۔۔۔ کے زہریلے رویے صرف ذہنی بیمار بناتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایسا فرد اگر ماں کے منصب پر ہو تو سوچیے کس قدر تباہ کن ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حل یہ ہے کہ
سارا وقت مظلوم بن کر وکٹم کارڈ کھیل کر روتے رہنا ہے ؟ یا کچھ سدھار کے لئے کمر بستہ بھی ہونا ہے ؟
کسی کی نہیں صرف اپنی ذمہ داری لیجیے ۔۔۔ اپنے موجودہ وسائل میں رہ کر ۔۔۔۔۔۔ تبدیل کیجیے جن باتوں پر آج پریشان ہیں ان کو

۔۔۔۔۔انسان کے کردار سازی کی بہت بڑی جگہ اور کردار یہی گھر اور مائیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ماحول بنانے والیاں ۔۔

بہت کچھ ارد گرد دیکھ اور طرح طرح کی دکھوں کی داستان سن کر بعض اوقات توانائی ختم ہونے کو آجاتی ہے
ایسے میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی کہی ہوئی قیمتی باتوں میں سے ایک بات
کانوں میں گونجتی ہے کہ تم میں بہترین وہ ہے جس کے اخلاق اپنے گھر والوں سے اچھے ہوں ۔۔۔۔
کیوں کہ
مسئلہ صرف اور صرف ہمارے اخلاق و کردار کا ہے ۔۔۔۔
بے مقصد زندگی اور اس طرز پر اصرار کا ہے ۔۔۔
ہماری پرکھنے کی کسوٹی ہی تعصب زدہ ہے ۔۔۔ہمیں سچ کہاں سے نظر آئے گا ۔۔۔۔۔

بڑا حوصلہ جرات اور ایمان ایمان کی مضبوطی چاہیے ہوتی ہے کہ آپ عزت احترام تقدس اور آداب و مراتب کا لحاظ رکھتے ہوئے ۔۔۔۔۔غلط کو غلط بتانے کی اور ان پر عمل کرنے سے انکار کا اعلان کردیں ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔

اپنی ذات پر زد پڑتی ہو تب بھی سچ پر قائم رہنا ۔۔۔۔۔
اور
گواہی کے وقت اپنے ہی خون کے خلاف گواہی دینا ۔۔۔۔بڑا مشکل کام ہے ۔۔۔۔

ہم دشمن کے خلاف جمع ہوکر لڑ سکتے ہیں ۔۔ لیکن اپنے آپ کو کٹہرے میں کھڑا کر کے گریبان سے پکڑ کر اپنے طرز عمل کو جانچنے اور اپنی حرکتوں کی پستی کی وجوہات کبھی پوچھنے کی جرات نہیں کرسکتے ہیں ۔۔۔کیوں کہ ایسا کبھی ہم نے سیکھا نہ دیکھا نہ مشق کی ۔۔۔

کوئی ماں اپنی بیٹی کو اور بیٹی اپنی ماں کو گفتگو میں پھسلتا دیکھے تو پیار سے غیر محسوسانہ انداز میں موضوع کیوں نہیں بدلتی کہ اب گھر میں آئی دوسری بیٹی کوئی اور نہیں نکاح کا تاج پہنے گھر کی عزت ہے ۔اس کو موضوع گفتگو بنانا اور تبصرہ کرنا ایمان برباد کرنے والی سرگرمی ہے ۔

بیٹی کے آنسو پر تڑپ اٹھنے والی ماں تھوڑی دیر کو کیوں نہیں سنبھل جاتی ہے کہ ۔۔۔۔اس وقت کا سنبھلنا ، ٹھہر جانا ، جذباتیت سے انکار کرنا ۔۔۔۔۔۔۔ایک گھر کو بسانا ہے رشتوں کو مستحکم کرنا ہے ۔۔۔۔

زبان کی تیزی سے بچنا اور بدگمانیوں سے گریز کرنا
یہ ایک اخلاقی مشق ہے۔ مشق مسلسل!

عمل کرنے کے لائحہ عمل بنانے پڑتے ہیں ۔۔۔۔۔ اگر اچھا انسان بننے کی تڑپ ہو ۔۔۔۔تو ہی یہ کام ممکن ہے ۔۔۔۔

کمفرٹ زون یہ ہے کہ جو جیسا دیکھا ویسا ہی کیجیے ۔۔۔۔۔ظلم سہتے سہتے اور دیکھتے دیکھتے ظالم بننا کوئی مشکل کام نہیں ایک خود بہ خود ہونے والی بات ہے ۔۔۔۔۔
لیکن سہتے سہتے ۔۔۔۔ اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طاقت ملنے کے بعد اس کا درست استعمال اور انصاف پر قائم رہنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمال ہے ۔۔۔ انسانیت ہے ۔۔۔۔۔۔۔ انفرادیت ہے
تو امت کی عزت مآب ۔۔۔۔۔۔مائیں بہنیں بیٹیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔!
آپ اپنی اہمیت سے کیوں انکاری ہیں ؟کہ
آپ کا تھوڑا سا سدھار ۔۔۔۔۔ نسلوں کے سدھار کا ضامن ہے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں