عید الاضحیٰ مبارک ، بچے بکرے کارٹون

بچے، بچپن اور قربانی کے جانور

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

بچپن، زندگی کا خوبصورت ترین دور، بہت سی دلکش یادوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ میرے بچپن کی عید الاضحیٰ کی خوبصورت یادوں میں سب سے اہم یاد قربانی کے جانور ہیں ۔ اور عید الاضحیٰ کے نام سے ہی بکرے چھترے، دنبے اور گائے بیل یاد آجاتے ہیں۔

عید الاضحیٰ کو بڑی عید اور بکرا عید بھی کہا جاتا ہے۔ عربی زبان میں اسے "یوم النحر” یعنی "قربانی کا دن”کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ دن بہت اہم ہے اور اس دن کا سب سے زیادہ فضیلت والا عمل قربانی کرنا ہے۔

مجھے بخوبی یاد ہے کہ ہماری جن چھوٹی چھوٹی سہیلیوں اور محلہ داروں کے گھر عید سے چند روز قبل قربانی کے جانور آجاتے، ہم انہیں خوش قسمت سمجھتے اور ان کے بکروں ، چھتروں کا وقتاً فوقتاً دیدار کرتے رہتے۔ ان کے ساتھ کچھ وقت ضرور گزارتے اور درختوں سے شاخیں اور پتے توڑ توڑ کر انہیں کھلاتے۔

اگر عید سے کئی روز قبل کسی کے گھر گائے آتی اور اسے سوزوکی پک اپ یا ٹرک سے اتارا جاتا اور گھر میں یا گھر کے باہر باندھا جاتا تو یہ بھی ہمارے لیے بڑا پرکشش نظارہ ہوتا ۔ ہم دل میں حسرت سے سوچتے کہ "ہمارے قربانی کے جانور کب آئیں گے؟ کب ہم انہیں چارہ کھلائیں گے؟ کب انہیں نہلائیں اور ٹہلائیں گے؟” درحقیقت دل میں آرزو پنہاں ہوتی تھی کہ "ہم کب دوسروں کے سامنے شوخیاں اور بڑھکیں ماریں گے؟”

اور پھر گھر آکر بار بار پوچھتے کہ "عید الاضحیٰ کی آمد میں اتنے تھوڑے دن باقی رہ گئے ہیں۔ آخر ہمارے قربانی کے بکرے کب آئیں گے؟ فلاں فلاں نے قربانی خرید لی ہے اور ہم ابھی تک محروم ہیں۔”
پھر گائے کے چارم کا خیال آتا تو ہم یہ بھی پوچھتے کہ "اس دفعہ ہم بکروں کے بجائے گائے کیوں نہیں خرید لیتے؟”

"ابھی عید آنے میں چند روز باقی ہیں اور موسم بھی گرم اور تلخ ہے۔ حبس، بارش اور کبھی گرمی کا زور ہوتا ہے۔ موسم برسات کی دھوپ بہت چبھن والی ہوتی ہے۔ اس لیے عید کے قریب بکرے خریدیں گے ان شاء اللہ۔”ابو جان بڑے رسان سے جواب دیتے۔

"ہم گھر کے بڑے یہی چاہتے ہیں کہ عید سے صرف ایک روز قبل جانور خرید کر گھر میں لائیں تاکہ انہیں سنبھالنا آسان ہو، ان کے کھانے پینے کے انتظامات کی کوئی مشکل نہ ہو اور ان کا گند وغیرہ صاف کرنے میں بھی آسانی ہو ۔”امی جان بھی ہمیں سمجھانے کی کوشش کرتیں۔

لیکن ہمارے ننھے منے دلوں میں شوق مزید بڑھ جاتا ۔ ہم بچوں کو ان مسائل سے کیا غرض ہوتی تھی ۔ ہمیں تو بس قربانی کے جانوروں کا حد درجے شوق لاحق ہوتا تھا!

                            *****

پھر بالآخر ہماری حسرت پوری ہوتی اور ابو جان عید سے چار پانچ دن قبل دو بکرے اور ایک چھترا یا دنبہ خرید لیتے تو ہم بہن بھائی مارے خوشی کے پھولے نہ سماتے۔ ہم اپنے قربانی کے جانوروں کی خوب خدمت اور خاطر تواضع کرتے، ان سے پکی دوستی کر لیتے۔ ہم ہی نہیں جانور بھی ہم بچوں سے خوب مانوس ہوجاتے ۔ سب گھروں میں قربانی کا جانور سب کی آنکھوں کا تارا ہوتا اور سب اس کے صدقے واری جاتے۔

بچے زیادہ تر بکرے، چھترے یا دنبے سنبھالتے ، گائے یا بیل سنبھالنا بڑوں کا کام ہوتا کیونکہ بڑے جانوروں کو قابو کرنا بچوں کے بس کی بات نہیں ہوتی تھی، انہیں بڑے ہی سنبھال سکتے تھے ۔ چکی والے (گول دم والے) دنبے بھی ہمیں اچھے لگتے تھے۔

عید سے پہلے ہم بکروں چھتروں کو گھمانے پھرانے کی مصروفیات میں بہت خوش رہتے تھے۔ بلکہ گھماتے پھراتے تو بھائی تھے، ہم تو بس برائے نام ان کے ساتھ ساتھ ہوتے اور خوش رہتے کہ ‘زندگی زندہ دلی کا نام ہے!”

بچے جانوروں کے نام بھی اپنی پسند کے رکھ لیتے مثلاً راجہ ، شیرو ، مولا ، بہادر، بھولا ، دلدار ، لاڈلا ، بھیڈو وغیرہ۔ تقریباً ہر کسی نے اپنے اپنے بکرے چھترے کا نام رکھا ہوتا تھا اور انہیں وہ اس نام سے پکارتے بھی تھے۔ بکرے بھی اپنے چھوٹے چھوٹے مالکوں سے مانوس ہوتے اور اپنے نام پکارے جانے پر "میں میں، میں میں” کرکے اچھا ریسپانس دیتے تھے۔ گلی محلے کے بچے آپس میں فخر سے اپنے اپنے جانوروں کے قصّے بیان کرتے دکھائی دیتے اور ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتے۔

اب تو مہنگائی کی وجہ سے تقریباً ہر مرتبہ گزشتہ عید کے مقابلے میں قربانی کے جانوروں کی تعداد نسبتاً کم دکھائی دیتی ہے۔ اور غریب بچوں کے ارمانوں پر اوس پڑی ہوتی ہے۔

میرا مشاہدہ ہے کہ "شہروں کی نسبت دیہاتوں میں زیادہ لوگ قربانی کرتے ہیں۔ یہ بظاہر حیران کن بات ہے لیکن امیروں کے علاوہ غریب دیہاتی بھی خود سارا سال قربانی کے لیے جانور پالتے ہیں اور قربانی جیسی عظیم الشان عبادت سر انجام دیتے ہیں۔”

بہرحال جوں جوں عید کے دن قریب آتے جاتے، ہم بچے جانوروں کی جدائی کا سوچ کر وقتاً فوقتاً افسردہ ہوجاتے۔ عید سے ایک دن پہلے ہم بکروں کی خوب خاطر تواضع کرتے اور دل میں افسردہ ہوتے کہ "کل قربانی کے جانور ذبح ہو جائیں گے۔” ہم چھوٹے بہن بھائی آپس میں قربانی کے متعلق باتیں کرتے رہتے۔ اور بڑوں سے طرح طرح کے سوالات پوچھتے رہتے۔

ہمارے ذہن میں یہ بات پتہ نہیں کیوں راسخ تھی کہ عید کی رات جانور خواب میں اپنے آپ کو ذبح ہوتا دیکھتے ہیں یا جانوروں کو خواب میں چھریاں دکھائی دیتی ہیں اور وہ خود ہی سمجھ لیتے ہیں کہ "کل ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر حلال ہو جانا ہے۔”
حالانکہ شرعی لحاظ سے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں۔

رات کو سوتے وقت ہم یہی تصورات من میں بسائے سوجاتے۔ ہمیں جہاں آنے والی عید کی خوشی اور انتظار ہوتا تھا، وہیں جانوروں کے ذبح ہونے کی اداسی بھی ہوتی تھی۔ پھر ہم خوابوں میں کبھی اپنے جانور ذبح ہوتے دیکھتے اور کبھی عید کی خوشیوں میں مگن عیدی وصول کرتے اور ہنستے کھیلتے رہتے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں