مضمون نگار اور ان کی صاحبزادی استنبول میں ، عقب میں ینی مسجد

ترک قوم سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ (دوسری قسط)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

اب بھی ترک معاشرے میں ایک ہی وقت میں کافی کچھ کھانے پینے کی روایت برقرار ہے

شبانہ ایاز

پہلے یہ پڑھیے
ترک قوم سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ ( پہلی قسط )

اب اگلا مرحلہ ارطغرل غازی کے مزار پر حاضری کا تھا ۔ انقرہ سے سوغوت پانچ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے ۔ لہذا ہم نے ترک دوست فیملی ( ابراہیم ، الپرین اور والدہ محترمہ ) کو ساتھ لیا اور سوغوت پہنچے ۔ سوغوت بہت خاموش سا ٹائون ہے ۔ ارطغرل غازی کے مزار کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی حلیمہ سلطان کی سرخ پھولوں سے مزین قبر نظر آئی ۔ فاتحہ پڑھنے کے بعد آگے بڑھے تو مزار کے دروازے کے باہر قائی قبیلے کا روایتی لباس پہنے قد آور وجیہہ نوجوان ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھ میں کلہاڑا لئے دربان کے طور پر کھڑے تھے۔

ارطغرل غازی کی آخری آرام گاہ

مزار کے اندر داخل ہوئے تو ارطغرل غازی کی قبر واقعتاً کسی سردار اعلیٰ کی قبر کا منظر پیش کر رہی تھی ۔ قبر کے چاروں اطراف میں سلطنت عثمانیہ کے دور میں فتح کئے گئے ملکوں کی مٹی چھوٹے چھوٹے باکسز میں ، ترتیب سے ناموں کے ساتھ رکھی ہوئی تھی ۔

ارطغرل غازی کی آخری آرام گاہ

دعائے مغفرت کرکے باہر نکلے تو مزار کے دونوں اطراف میں درختوں سے ڈھکی سرسبز و کشادہ جگہ پر ارطغرل غازی کے جانثاروں اور بیٹوں ساﺅچی اور گوندوز کی قبریں موجود تھیں ۔ ترگت الپ کی اعزازی قبر بھی ان کے درمیان دیکھی ۔ قائی شہداء کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے اور کچھ دیر تلاوت قرآن کرنے کے بعد وہاں کی مقامی مسجد میں نماز ادا کی جس کے بارے میں پتہ چلا کہ اسے ارطغرل غازی کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔

ارطغرل غازی کے بارے میں یقیناً آپ سب کو یہ پتہ ہوگا کہ وہ 1191 ء میں پیدا ہوئے اور 1280ء میں وفات پائی ۔ سلطان علاءالدین اول نے ارطغرل کی خدمات سے متاثر ہوکر سوغوت اور اس کے نواح میں واقع دوسرے شہر بطور جاگیر عطا کئے تھے ، ساتھ ہی ساتھ سردار اعلیٰ کا عہدہ بھی دیا تھا جس کی وجہ سے تمام ترک قبائل ان کے ماتحت ہوگئے تھے۔

ارطغرل کے دور میں سلجوقی سلطنت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی اور منگول سلطنت نے پورے اناطولیہ ( موجودہ ترکیہ ) پر قبضہ کر لیا تھا جو ارطغرل کے لئے باعث تشویش تھا۔ ارطغرل کی خواہش تھی کہ ایک عظیم اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں لایا جائے چنانچہ ان کے چھوٹے بیٹے عثمان غازی نے ان کا خواب پورا کیا اور ایک عظیم سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔

٭ شیخ ادیبالی کے مزار پر حاضری
سوغوت سے واپسی پر ہمیں پتہ چلا کہ یہاں سے تقریبا آدھے گھنٹے کی مسافت پر بیلجیک ہے جہاں عظیم روحانی بزرگ اور عثمان غازی کے استاد شیخ ادیبالی کا مزار ہے ۔ لہذا ہم نے ارادہ کیا کہ شیخ کے مزار پر بھی حاضری دیں گے۔ جب ہم وہاں پر پہنچے تو اندازہ ہوا کہ شیخ ادیبالی کی قبر پہاڑی پر ہے ۔ پہاڑی پر چڑھنے کے لئے سیڑھیاں اور لفٹ دونوں تھیں مگر لفٹ دوسری سائیڈ پر ہونے کے باعث ہمیں پتہ نہ چلا ، یوں ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے ۔

شیخ ادیبالی اور بالا خاتون کی قبروں کی طرف رہنمائی
شیخ ادیبالی کی قبر

اس سے پہلے سیڑھیوں کے دائیں طرف ’ مسجد اورہان غازی ‘ تھی ۔ یہ ’ اورہان غازی‘ نے 1332ء میں تعمیر کروائی تھی ۔ سات سو سال گزرنے کے باوجود مسجد کی خوب صورتی قائم و دائم تھی ، عثمانی عظمت اس مسجد سے جھلک رہی تھی ۔ لکڑی سے بنی مسجد کی پہلی منزل پر خواتین کے لئے نماز کا اہتمام تھا۔

جب سیڑھیاں چڑھ کے اوپر پہنچے تو ایک الگ ہی روح پرور نظارہ تھا۔ اطراف میں درختوں سے ڈھکے پہاڑ جنھیں ملانے کے لیے کسی وقت پل کے ذریعے راستہ بنایا گیا تھا اور وہ پل اب بھی موجود ہے ۔ نیچے کافی گہرائی میں تازہ پانی کا چشمہ بہہ رہا تھا۔ سیاہ توت کے بے شمار درخت پھل سے لدے ہوئے تھے۔

ان خوبصورت نظاروں سے نظریں ہٹا کر ہم نے شیخ ادیبالی کے مزار پر حاضری دی ۔ پوری جگہ لال کارپٹ سے کور تھی ۔ ارطغرل کے مزار کی زمین بھی لال کارپٹ سے کور کی گئی ہے ۔ البتہ عثمان غازی اور اورہان غازی کے مزار کارپیٹڈ نہیں۔ شیخ ادیبالی کے سرہانے کی طرف قرآن پاک کی تلاوت کے لئے باقاعدہ جگہ بنی ہوئی تھی ، قرآن پاک / یسین شریف بھی رکھے ہوئی تھیں جبکہ بزرگ کے پیروں کی طرف بیٹھنے کی بھی جگہ تھی۔

ہم نے تھوڑی دیر بیٹھ کر تلاوت کی ۔ شیخ کی قبر کے ساتھ ان کے اہل و عیال کی بھی قبریں موجود ہیں ۔ اس سے ملحقہ کمرے میں مرد و خواتین کے لیے نماز کا انتظام ہے ۔ بائیں طرف چند سیڑھیاں اتر کر ایک کمرے میں بالا خاتون اور ان کی بچپن کی سہیلی کی قبر موجود ہے۔ وہاں بھی فاتحہ خوانی کی ۔ اور پھر لفٹ کے ذریعے نیچے اترے اور ترکوں کی روایتی چائے پی۔

یہاں پر قارئین کی دلچسپی کی خاطر بتاتی چلوں کہ شیخ ادیبالی کی پیدائش1206 ء اور وفات 1326 ء میں ہوئی ۔ وہ اخی تنظیم کے ایک انتہائی بااثر عثمانی شیخ تھے ۔ انھوں نے ترقی پذیر عثمانی سلطنت کی پالیسیاں تشکیل دینے میں مدد کی ۔ سلطنت عثمانیہ کے قیام کے بعد وہ اس کے پہلے قاضی بھی بنے ۔ ان کی دختر رابعہ بالا خاتون عثمان غازی کی پہلی زوجہ تھیں ، جن کے بطن سے علاءالدین پاشا نے جنم لیا ۔ عثمان غازی کے بعد اورہان غازی نے سلطنت عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالی تو علاءالدین پاشا نے اسلامی فوج کی باقاعدہ بنیاد رکھی ۔ اور بطور پہلے وزیر اعظم ریاستی امور سنبھالے۔

٭ عثمان غازی اور اورہان غازی کے مزار پر حاضری
عثمان غازی اور اورہان غازی کے مزار پر حاضری دینے کے لئے ہم نے بورصہ کی طرف سفر شروع کیا ۔1326 ء میں بورصہ فتح ہوا تھا ۔ اسے اورہان غازی نے تورگت الپ کے ساتھ عظیم جذبہ جہاد اور بہترین جنگی چالوں کی مدد سے فتح کیا۔ بیلجیک سے تاریخی شہر بورصہ پہنچے تو شام ہو چکی تھی ۔

عثمان غازی اور اورہان غازی کے مزار پر حاضری کا وقت صبح 9 سے شام 5 بجے تک تھا اور ہمیں دیر ہوچکی تھی ۔ ہم نے رات کو ایک مقامی ہوٹل میں قیام کیا ۔ صبح عثمان غازی کے مزار کے ساتھ متصل پہاڑی پر واقع ایک ریسٹورنٹ پر ناشتہ کیا ۔ ترکی کے ناشتہ میں سیاہ اور سبز زیتون ، مختلف قسم کے پنیر ، دو تین ذائقوں کے مکھن ، شہد ، ابلے ہوئے انڈے ، مکھن میں تلے انڈے ڈبل روٹی کے ساتھ پیش کیے گئے ، گوشت بھی تھا اور چائے( قہوہ ) بھی ۔ یہ کسی طور شاہی ناشتے سے کم نہیں تھا۔

ارطغرل ڈرامہ دیکھتے ہوئے ہمارا خیال تھا کہ قائی قبیلے والے ہی پورے ذوق وشوق سے ، خوب کھاتے پیتے ہیں ۔ تاہم ترکیہ پہنچ کر معلوم ہوا ہے کہ اب بھی ترک معاشرے میں ایک ہی وقت میں کافی کچھ کھانے پینے کی روایت برقرار ہے ۔ شاید یہی اسی میں ان کی صحت کا راز پنہاں ہے ۔

ایک دلچسپ بات یہ بھی بتاتی چلوں کہ ترک رات کا کھانا گھر پر ہی کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ ان کی گھریلو زندگی کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 95 فیصد ترک رات کا کھانا اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی کھانا پسند کرتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل ترک معاشرے کا ایک منظم جائزہ بھی لیا گیا تھا جس سے ظاہر ہوا کہ یہاں انفرادیت پسندی (Individualism ) کی شرح انتہائی کم ہے۔ انسان کی پوری زندگی کا محور و مرکز اس کا گھرانہ ہوتا ہے ۔87 فیصد ترک ناشتہ گھر ہی میں کرتے ہیں ۔ وہ پونے نو بجے ناشتہ کرتے ہیں ۔40 فیصد لوگ دوپہر کا کھانا گھر سے باہر کھاتے ہیں ۔

ترک پھل فروٹ خوب کھاتے ہیں چاہے وہ کم کماتے ہیں یا زیادہ ۔ زیادہ کھانے پینے کی عادات کی وجہ سے ہر پانچواں فرد موٹاپے کا شکار ہے یعنی مجموعی آبادی کا 20 فیصد حصہ ۔ ترک وزارت صحت مسلسل مہمات کے ذریعے لوگوں کو زیادہ فعال زندگی گزارنے اور متوازن کھانے کی ہدایت کرتی رہتی ہے۔

میں جب انقرہ سے روانہ ہوئی تھی تو دل میں خود سے کہا تھا کہ ارطغرل غازی اور عثمان غازی کی قبروں پر جاکر اپنے دل کی کیفیت دیکھوں گی کہ کس کی قبر پر دل کی کیفیت بدلتی ہے۔ عثمان غازی کے مزار کے احاطے میں داخل ہوتے ہی پہلے اورہان غازی کا مقبرہ آتا ہے۔ اورہان غازی 1281ء میں پیدا ہوئے اور 1362ء میں فوت ہوئے ۔

یہ سلطنت عثمانیہ کے دوسرے فرمانروا تھے ۔ انہیں سلطنت عثمانیہ کا اصل بانی قرار دیا جاتا ہے ۔ انھوں نے1326ء سے1359ء تک حکمرانی کی ۔ ان کے دور حکمرانی میں ترک فوج بنی اور یورپ میں داخل ہوئی ۔ دنیا کی پہلی منظم فوج ’ ینی چری ‘ انہی کے دور میں ان کے بھائی علاءالدین نے بنائی ۔ جس میں مفتوحہ علاقوں کے غیر مسلم / عیسائی نوجوانوں کو اسلام قبول کروا کر فوج میں شامل کرلیا جاتا تھا ۔ اورہان خان نے30 سال تک حکمرانی کی ۔

اورہان غازی کے مقبرے کے باہر سلطنت عثمانیہ کے سپاہیوں کی مخصوص وردی میں دو دربان کھڑے تھے ۔ مزار میں خواتین کا اسکارف اور عبایہ میں خود کو کور کرکے داخلہ ضروری ہوتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے مزار کے پہلے حصے میں اسکارف اور عبایہ ایک اسٹینڈ پر لٹکے ہوئے تھے ۔ چونکہ سیاح خواتین نیم برہنہ ہوتی ہیں ، اس لئے مزار کے تقدس کو قائم رکھنے کے لیے خواتین کو کور کرکے اندر جانے دیا جاتا ہے۔

عثمان غازی کے مزار کے باہر قائی قبیلے کے پہرے دار

اورہان غازی کی قبر کے ساتھ ان کے اہل و عیال کی بھی قبریں ایک ترتیب سے تھیں ۔ فاتحہ خوانی کے بعد عثمان غازی کے مزار کی جانب گئے، جو چند قدم کے فاصلے پر بائیں جانب ہے ۔ مزار کے ساتھ ساتھ عثمان غازی کے بچوں کی قبریں ہیں جو کم سنی میں فوت ہوئے تھے ۔ یہاں بھی قائی قبیلے کی وردیوں میں دربان کھڑے تھے اور خواتین کے لئے اسکارف اور عبایہ کی سہولت موجود تھی۔

قائی قبیلے کی دیگر شخصیات کے قبریں

عثمان غازی کے مزار میں داخل ہوتے وقت دل کی کیفیت بدل گئی ۔ فاتحہ پڑھتے ہوئے آنکھوں سے خود بخود آنسو بہنا شروع ہوگئے۔ مسلمانوں کی عظیم الشان اسلامی سلطنت کے خواب کو عملی جامہ پہنانے والے عثمان کے قدموں میں کھڑے ہوکر خود کو بے بس اور شرمندہ محسوس کیا کیونکہ اب ترکی میں اسلام کی محض باقیات رہ گئی ہیں ۔

ترک جو کبھی باعمل مسلمان ہوا کرتے تھے ، سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد یورپی یلغار نے ان کی اسلامی اقدار کو عورت کی آزادی کی آڑ میں ملیا میٹ کیا ہوا ہے ۔ یہودی فلسطین پر قدم جما چکے ہیں ، غیر مسلم قومیں مسلمانوں پر بھوکے کتوں کی طرح ٹوٹ پڑی ہیں۔ عالم اسلام لہو لہو ہے ، کوئی مسلم رہنما ایسا نہیں جس کی قیادت میں مسلمان اکھٹے ہوکر کفار کا مقابلہ کریں۔ جب دل کچھ ہلکا ہوا تو باہر نکلی ۔ پتہ چلا کہ گارڈ کی تبدیلی کا وقت ہے ۔ وہ منظر بیٹھ کر دیکھا اور کیمرے کی آنکھ سے محفوظ بھی کیا۔

عثمان غازی کے مزار کے باہر قائی قبیلے کے سپاہیوں کے لباس میں ملبوس دو دربان مزار کے باہر پہرہ دیتے ہیں ۔ گیارہ بجے کے قریب مین گیٹ سے تین سپاہی جس میں ایک کے ہاتھ میں تلوار تھی اور دوسرے کے ہاتھ میں کلہاڑا جبکہ تیسرا انتہائی قد آور ، مضبوط جسم کا مالک جو سپہ سالار لگ رہا تھا ، پریڈ کے انداز میں داخل ہوئے ۔

زائرین/ سیاحوں کو انتظامیہ کے افراد نے مزار سے باہر دور کھڑا کردیا تھا جہاں سے تمام سیاح دربانوں کی تبدیلی کی ویڈیوز اور تصاویر بنانے میں مصروف ہوگئے ۔ دو دربان ڈیوٹی پہ کھڑے دربانوں کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوگئے ، اور ترکش زبان میں زور زور سے سلطنت عثمانیہ کے ساتھ وفاداری کا عہد دہرایا ۔ پھر وہ دونوں ایک طرف ہوئے اور آنے والوں کے لئے جگہ چھوڑ دیتے ہیں ۔ جن دربانوں نے جگہ سنبھالی انہوں نے ایک طرف لگے ترکیہ کے پرچم کو چوما اور کھڑے ہوگئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترک آج بھی عثمانیوں کو کس قدر بلند مقام دیتے ہیں ۔ انھیں اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں ، چاہے کوئی سیکولر ترک ہو یا اسلامسٹ ، سب کے سب عثمانیوں پر فخر کرتے ہیں۔

چونکہ جمعہ تھا لہذا جمعہ پڑھنے کے لئے علو مسجد کا پیدل رخ کیا ۔ جو کہ عثمان غازی کے مزار سے تھوڑے سے فاصلے پر ہے۔ علو مسجد عثمانی طرز تعمیر کا اولین شاہکار ہے ۔20 گنبدوں والی علو مسجد 1396ء سے 1399 ء کے درمیان تعمیر ہوئی تھی ۔ یہ مسجد حسن خط کا شاہکار ہے ۔

بورصہ سلطنت عثمانی کا دارالحکومت تھا ، اس میں علوداغ ایک پہاڑ ہے، جسے دیکھنے کے لئے موسم گرما میں ہزاروں سیاح آتے ہیں ۔ پہاڑ پر جانے کے لیے چئیرلفٹ کا انتظام ہے ۔ بورصہ میں جدید مارکیٹ موجود ہیں جو کسی بھی طرح کسی یورپی مارکیٹ سے کم نہیں ۔ یہاں گرم پانی کے چشمے بھی موجود ہیں جو کئی بیماریوں سے شفا یاب ہونے کا بہترین ذریعہ ہیں۔

٭ عید الاضحی کا خوشگوار تجربہ
عید الاضحی کو ترکی زبان میں ’ قربان بیرام ‘ کہتے ہیں۔ انقرہ میں اجتماعی قربانی اور بکرے کی قربانی کے لئے مختلف چوراہوں پر بینرز لگے دیکھے ۔ اسی طرح مسجدوں کے باہر بھی اشتہارات چپکے دیکھے ۔ جن میں متعلقہ افراد کے فون نمبر درج تھے ۔ ہم نے بھی بیل میں حصہ ڈالا تھا جو کہ پاکستانی روپوں میں ایک لاکھ بنتا ہے ۔ یعنی پانچ لاکھ کا خوب تنومند جانور جس میں قربانی کا خرچہ بھی شامل تھا۔ ان تمام قربانی کے جانوروں کو شہر سے باہر گائوں کے مذبح خانے میں رکھا گیا تھا ۔ اس مذبح خانے میں جانور پالنے اور ذبح کرنے کی تمام سہولیات موجود ہوتی ہیں۔

مجھے بتایا گیا کہ قربانی کے لئے مذبح خانہ جانا ہوگا ۔ صبح نو بجے ہم وہاں موجود تھے ۔ ہمارے ساتھ ترک دوست فیمیلیز کا گروپ موجود تھا ۔ مرد و خواتین جن کا جانور ذبح ہو چکا تھا وہ سب گوشت کی بوٹیاں بنانے میں مصروف تھے۔ اس دوران میں وہاں پر رہنے والی فیملی نے ہمیں ناشتے کی دعوت دی ۔ ناشتے میں وہی لوازمات تھے جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے ۔ پنیر ، زیتون ، مکھن ، شہد ، انڈے اور ترک چائے۔

ناشتے کے بعد ہمارے جانور کی باری تھی ، جانور لایا گیا ، قصائی نے کمال مہارت سے پچھلی ٹانگ مضبوط رسی سے باندھی اور لیور گھما کر جانور کو الٹا لٹکا دیا ۔ پھر آہستہ آہستہ نیچے اتنا لے آیا کہ بیل کی گردن زمین پہ ٹک گئی ۔ اگلی ٹانگ کو بھی رسی سے باندھ دیا گیا اور بلند آواز سے تکبیر پڑھتے ہوئے ایک ہی بار میں گردن پر تیز چھری پھیر دی ۔ جانور الٹا ہونے کے باعث انتہائی تیزی سے سارا خون چند منٹوں میں جسم سے نکل گیا اور جانور کی روح بھی۔

مضمون نگار ترک خواتین کے ساتھ مل کر گوشت کی بوٹیاں بنانے میں مصروف

اس کے بعد جانور کو اونچا کرکے کھال اتارنے اور پھر گوشت اتارنے کا عمل شروع ہوا ۔ جن فیمیلیز کا ہمارے ساتھ حصہ تھا وہ سب دوست ( فاطمہ ، برجیس ، یامورعائشہ اور والدہ محترمہ ) تھے۔اس لئے ان کے ساتھ مل کر گوشت کی بوٹیاں کیں ۔ پھر مردوں نے حصّے بنائے ۔ غرباء کا گوشت تقسیم کرنے کے لئے دے دیا گیا ۔ اور اپنے حصے کا گھر لے آئے ۔

مضمون نگار ترک خواتین کے ساتھ مل کر گوشت کی بوٹیاں بنانے میں مصروف

میں سوچ رہی تھی کہ پاکستان میں بھی مذبح خانے قائم ہوں جہاں جانور کو کنٹرول کرکے ذبح کیا جائے تو جو واقعات ہم دیکھتے ہیں وہ رونما نہ ہوں۔ اناڑی قصائی جان سے جاتے ہیں تو کہیں جانور ان کے ہاتھوں ضائع ہوجاتا ہے ۔ پھر آلائشیں جگہ جگہ پھینکے جانے سے شہر میں آلودگی پھیلتی ہے۔ افسوس کہ پاکستان کے کسی بھی شہر میں ایسا انتظام نہیں اور نہ انتظامیہ اور حکومت کو عوامی مسئلوں سے کوئی سروکار ہے۔

٭ کاپا ڈوشیا کا سحر انگیز سفر
ترکی میں عید الاضحیٰ ( قربان بیرام ) کی ایک ہفتہ چھٹیاں تھیں ۔ ترک دوستوں نے مع فیملی ’ کاپا ڈوشیا ‘ جانے کا پروگرام بنایا۔ کیپا ڈوکیا نیو شہر صوبے میں واقع ہے ۔ یہاں پہنچ کر سب سے پہلے جس جگہ پر نظر پڑی وہ قلعہ اچ حصار تھا۔ ٹکٹ لے کر ہم اس میں داخل ہوئے۔

قلعہ اچ حصار

قلعہ اچ حصار ایک قدرتی طور پر بننے والا قلعہ ہے ۔ ہٹائٹس نے ممکنہ حملوں کے خلاف پہاڑوں کے اس قدرتی ڈھانچے کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا ۔ ساتویں صدی عیسوی میں بازنطینیوں نے اس علاقے میں پناہ لی ۔ علاقے کی نوعیت دفاع کے لئے کافی سازگار نظر آتی ہے ۔ فتح کے بعد مسلمانوں نے اس علاقے کو دفاعی امکانات کے طور پر استعمال کیا ۔ قلعہ اچ حصار60 میٹر اونچا ہے ۔ ایک سلنڈریکل ٹاور کی طرح ۔ اس محل میں ایک ہزار لوگ رہتے تھے ۔ ہم اس کی120 سے زائد سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گئے تو پورا شہر نظر آرہا تھا۔

کاپا ڈوشیا

کاپا ڈوشیا سینٹرل ترکی کا علاقہ ہے ۔ یہ علاقہ تین کروڑ سال پہلے آتش فشاں پھٹنے سے تخلیق ہوا تھا ۔ جس کے باعث زمین پر سینکڑوں کھمبیوں جیسی چمنیاں جو اندر سے کھوکھلی تھیں ، بن گئیں۔ بازنطینیوں پر جب حملے شروع ہوئے تو وہ ان خیمے نما چمنیوں میں دروازے ، کھڑکیاں اور روشن دان بناکر ان قدرتی گھروں میں رہائش پذیر ہوگئے ۔

کاپا ڈوشیا

کاپا ڈوشیا کی زمین بھی چمنیوں کی طرح اندر سے کھوکھلی تھی ۔ ان عیسائیوں ( بازنطینیوں ) نے زیرزمین شہر آباد کر لیے ۔ یہ شہر غاروں کے اندر تھے ۔ کاپا ڈوشیا میں اب تک 36 زیر زمین شہر دریافت ہوچکے ہیں ۔ یہ شہر تین تین ، چار چار منزلہ ہیں ۔ ڈیرین کویو کاپا ڈوشیا کا گہرا ترین شہر ہے جو 278 فٹ گہرائی میں آبادتھا ۔

کاپا ڈوشیا

یہ چار شہر تھے ۔ تازہ ہوا کے لئے 15000 ڈکٹس بنائی گئی تھیں ۔ یہ نالیاں تھیں جو پورے شہر کو تازہ ہوا فراہم کرتی تھیں ۔ اس شہر کے تین دروازے تھے ۔ اسے 1965ء میں سیاحوں کے لیے کھولا گیا ۔ دوسرا شہر کیمکلی ، کاپا ڈوشیا کا وسیع ترین شہر تھا ۔ یہ شہر سو غاروں پر مشتمل تھا ۔ یہ شہر چار منزلہ تھا ۔ گوریمے ، کاپا ڈوشیا کا مرکزی شہر ہے ۔ زمینی خیمہ نما چمنیاں گوریمے کے دائیں بائیں ہیں ۔

ان چمنیوں میں فور سٹار اور فائیو سٹار ہوٹل بن چکے ہیں جہاں سیاح ٹھیرتے ہیں ۔ اور صبح چار بجے غباروں کا سفر کرتے ہیں ۔ غباروں میں سفر کے دوران میں جب طلوع آفتاب کی روشنی میں شہر کا نظارہ دیکھا جائے تو کوہ قاف کی پریوں کے دیس جیسا سحر انگیز منظر دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ایک گھنٹے کی اڑان کا پتہ بھی نہیں چلتا ۔ اور پھر اسی سحر میں گرفتار ہم گاڑیوں میں آ بیٹھے ۔ ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں