نوجوان مسلمان باحجاب خاتون نماز میں سجدہ کرتے ہوئے

سمجھوتہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سائرہ ارم

رات کی سیاہی میں سپیدی صبح کی باریک سی لکیر نمایاں ہوتی اور آفاقی سچائی کی گواہی باآواز گونجنے لگتی تو عابد حسین کے گھر میں زندگی کے آثار شروع ہوجاتے۔ عبادات و مناجات کے بعد راضیہ باورچی خانے کا رخ کرتی جب اماں قرآن لے کر سلائی والی چوکی پر بیٹھتیں اور ابا اپنی واکر کے سہارے چلتے صحن کے کونے میں بیرونی دروازے کے پاس دھری کرسی سنبھال لیتے۔ فوزیہ تیار ہوتے ہوئے باورچی خانے میں بھی جھانک لیتی اور سلیمان دوبارہ بستر پر دراز ہوجاتا۔

”میں کہتی ہوں فوزیہ ناشتے کی باری لگا لیا کر اسے بھی تو تیار ہونا ہوتا ہے” اماں راضیہ کو اکیلے کام کرتے دیکھ کر فوزیہ کو گھرکتیں۔

”اماں باجی منع کردیتی ہے میں کیا کروں؟” فوزیہ منہ بناتی۔

”اور تو فوراً باجی کی بات مان جاتی ہے؟”۔ اماں تپ ہی تو جاتیں۔

”فوزی ! یہ رکھو میز پر”راضیہ اس کو کہتی تیزی سے کمرے کا رخ کرتی ۔ دس منٹ میں دونوں بہنیں اسکول کے لئے نکل جاتیں، ماں باپ سلیمان کے ساتھ ناشتہ کرتے ۔

ماسٹرز کرنے تک ٹیوشنز پڑھاتے اسکول کی نوکری کرتے راضیہ ذمہ داری کی تجوری میں اپنی امنگیں اور خواب مقفل کر چکی تھی سو اب ضرورت گویا آئینہ تھا جس کے تحت صورت گری کی جاتی ۔

اسکول کے داخلی دروازے پر پرنسپل مسز عامر عرف شاہینہ بھابھی اپنے تیکھے نقوش کے ساتھ ہر آنے والے کا استقبال کرنے کھڑی ہوتیں ، سو وقت کی پابندی پر سختی سے عمل ہوتا ۔ ہنسی مذاق کرتے الٹے قدموں یا ایک پاؤں پر اچھل اچھل کر چلتے بچے انھیں دیکھ کر شرافت کی قبا اوڑھ لیتے اور ان کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہی اپنی ڈھپ پر آجاتے ۔

بھلا کسی کو دھمکا کر بھی تربیت کی جاتی ہے؟ راضیہ بچوں کے اس طرز پر مسکراتی ۔ فوزیہ انھیں دوذخ کا پہرے دار کہتی ۔

اسکول میں سارا دن مغز ماری کرکے فوزیہ جب تھک جاتی تو شاہینہ بھابھی اسے موٹیویشنل لیکچر دیتیں . وہ ہر نڈھال ٹیچر کو ایسے ہی تازہ دم کرتیں ، کچھ مرعوب تو کچھ بددل ہوجاتیں ۔ پر بھابھی بلا غرض اپنی روش پر قائم رہتیں۔

اسکول کا مالک سیٹھ عامر شفیق بڑی تقریبات اور سہہ ماہی جائزہ میٹنگ کا ضروری عنصرتھا ۔ دھیمے لہجے میں سامنے والے سےنظریں جھکا کر بات کرتا تو خواتین اسٹاف ایک حفاظتی حصار محسوس کرتیں اور اپنے مسائل باآسانی حل کرواتیں ۔

وہ ایک درمیانی عمر کا جہاندیدہ شخص تھا جس نے شاہینہ جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ ، خوبصورت اور زیرک خاتون کو اپنے تابع کر رکھا تھا ۔ جانے کون سی فرمانبرداری کی قسم کھائی تھی کہ وہ اللہ کی بندی ہر بات میں شوہر کی ہم زبان ہوتی ۔ بہرحال تین عدد بچوں کے ساتھ ان کا خاندان عافیت کدہ تھا۔

“ایکسکیوز می مس عابد!” اسکول کی ایک میٹنگ کے اختتام پر عامر شفیق نے اسے مخاطب کیا جب ٹیچرز بیرونی دروازے کی طرف تیزی سے رواں تھیں۔ وہ پلٹی “جی سر!”۔”آپ طالبات کی پسندیدہ شخصیت میں سے ہیں اس لئے میں نے اگلے سیشن کے لئے آپ کو اسٹودنٹ ایڈوائزر مقرر کیا ہے۔

از اٹ اوکے فار یو؟” وہ پوچھ رہا تھا یا جتا رہا تھا۔

”سر ! میرے خیال سے مسز فرخ یہ کام مجھ سے کہیں بہتر انداز میں کررہی ہیں” راضیہ نے ادب سے جواب دیا۔”ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی!” اس نے کندھے اچکائے، پھر اس نے اپنے سامنے رجسٹر کے نیچے سے ایک خوش رنگ سرورق کی کتاب نکالی “یہ آپ کے لئے!” وہ مسکرایا۔

راضیہ کے کان سے دھواں نکلنے لگا بدقت اس نے کتاب تھامی اور “شکریہ سر” کہہ کر تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔”یہ شرافت کا ڈھونگ کسی دن چوراہے پر منکشف ہوگا!” وہ دل ہی دل میں بڑبڑائی۔

گیٹ پر فوزیہ ، مسز فرخ اور دو تین ٹیچرز کھڑی تھیں، سب کو گھر جلدی پہنچنے کی فکر تھی۔”اس کتاب کا مطالعہ کرلیجئے گا، سر نے دی ہے”۔ اس نے مسز فرخ کو کتاب پکڑائی اور فوزیہ کو نظروں سے چلنے کا اشارہ کیا۔

شعبان کی کسی تاریخ کو عامر اور شاہینہ بھابھی راضیہ کے گھر اس کی نسبت لینے آئے تو اماں سمیت سب ہی حیران ہوئے۔

“معیار زندگی کا اس قدر فرق کچھ مناسب نہیں ہے”۔اس ملاقات میں ابا نے دھیرے سے کہا تو گرے شلوار سوٹ پر چرمی چپل پہنے ہلکی سی خوشبو لگائے دھیمے لہجے میں بولتے سیٹھ عامر شفیق مسکرائے ”میری نظر میں انسان کی شرافت اصل معیار ہے عابد صاحب ! مجھے رب نے ہر طرح کی سہولت سے نوازا ہے جو ایک انسان تمنا کرتا ہے ، میری اس درخواست کا مقصد صرف آپ کی مدد کرنا ہے یقین کیجئے”۔ ابا نے ایک اچٹتی نظراس عورت پر ڈالی جو اپنے شوہر کے لئے رشتہ مانگنے ساتھ آئی تھی ، اماں سے باتیں کرتے وہ بہت مسکرا رہی تھی۔”کچھ اوجھل ہے” ابا نے نظریں گھمالیں ۔ راضیہ کے ہاتھوں چائے لیتے اس نے اس کاروباری خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا جو وہ اسکول کی خاص تقریبات میں کرتی تھی۔

”آپ سے جلد ملاقات ہوگی”۔جاتے وقت تپاک سے ملتے عامر شفیق بولے تو ابا سر ہلا کر رہ گئے۔ “میرا خیال ہے باجی اس کی سائکو تھیراپی کا کورس مکمل ہوچکا ہے” ان کے جانے کے بعد فوزیہ جل کر بولی “سو اب وہ ایک سائیکو ہے”۔لیکن راضیہ کے وجود پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔”باجی!” فوزیہ نے سنجیدہ ہو کر اس کے ہاتھ تھامے۔“فوزی! وہ کب سے گھات لگائے تھا مجھے پتا ہی نہ چلا” ۔راضیہ دھیرے سے بولی اس کا رنگ سفید پڑا تھا۔

سلیمان کو اس رشتے میں روشن مستقبل جبکہ ابا کو خدشات گھیرے تھے . اماں بیٹے کی ہم نوا تھیں کہ دوسری بیٹی کے فرض کو بھی ادا کرنا تھا ۔”میری بہن بڑی بھاگوان ہے ، گو کہ عامر صاحب کی عمر بڑی ہے پر بڑی کامیابی کے لئے کہیں سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے”۔ سلیمان امی ابو کے ساتھ بیٹھا بات کررہا تھا جب راضیہ نے بچوں کو پڑھاتے اس کی آواز سنی ۔ اس نے تلخی سے سر جھٹکا اور اپنی توجہ چلتے ہوئے منظر پر مرکوز کرلی۔

”نکاح ثانی کوئی جرم نہیں ہے پر تمہاری رضامندی ضروری ہے”۔ ابا راضیہ کے پاس آکر بیٹھے تھے۔

”میری طبیعت سے آپ واقف ہیں ابا!” اس نے کتابیں ایک طرف کرکے گہری سانس لی “پر حالات کا تقاضا بہت کٹھن ہے۔۔۔آپ مطمئن ہیں تو یہی کافی ہے”اس نے خالی نظروں سے ابا کو دیکھا تو وہاں اسے ایک مجبور و کمزور باپ دکھائی دیا جس کی آنکھوں میں محبت کی روشنی تو تھی پر کوئی عزم نہ تھا۔ اس نے سر جھکا لیا۔

معاشرے کے کمزور طبقے کو مصلحت کی چادر تان کر سفید علَم بلند کرتے ہی بنتی ہے پھر نہ عمر کا حساب رکھا جاتا ہے نہ رتبے کا بس آسودگی کی آرزو سے سمجھوتہ ہوتا ہے۔”اصل جرم غریب ہونا نہیں بلکہ کم ہمت ہونا ہے” راضیہ اکثر سوچتی ۔ اپنی زندگی میں اس نے ہمت سے کام لے کر بہت سے مسائل پر قابو پایا تھا لیکن کہیں نہ کہیں رشتوں کی ایسی مضبوط زنجیر پیروں میں آکر پھنس جاتی کہ وہ بے بس ہوجاتی۔

“ٹیچر شیطان صرف رمضان ہی میں کیوں قید ہوتا ہے باقی مہینوں میں نہیں ہوسکتا؟”۔نویں جماعت کی ایک طالبہ نے لیکچر کے بعد سوال اٹھایا۔

”بالکل ہوسکتا ہے” راضیہ بولی تو پوری کلاس ہمہ تن گوش ہوگئی “آپ باقی مہینے بھی رمضان کی طرز پر گزاریں، غیر ضروری کام چھوڑ کر صرف اللہ کی رضا کو فوکس کریں تو آپ کے شیطان کو قید با مشقت ہوجائے گی”۔طالبات مسکرا اٹھیں اور اگلی کلاس کی گھنٹی بج گئی۔

اسکول میں امتحان شروع ہوئے اور نتیجہ دینے تک بے پناہ ذہنی و جسمانی مصروفیت رہی کہ رمضان کا چاند ہوگیا اور راضیہ کو ایک طمانیت کا احساس ہوا۔ ہر دفعہ ماہ مقدس اسے ہر پریشانی و مشکل میں ایسا حوصلہ و توانائی بخشتا کہ اسے حالات سے نمٹنا سہل ہوجاتا ۔ سو اب بھی اپنی دعاؤں کی فہرست آنسوؤں سے دھو کررب کے حضور رکھ دی گئی۔

ادھر عید کی تعطیلات شروع ہوئیں ادھر اس کی زرق برق عیدی آموجود ہوئی۔”دیکھو تو باجی کتنے پیارے رنگ کا شیفون سوٹ ہے!” سدا کی شوقین فوزیہ کپڑوں اور دیگر اشیاء پر واری ہوگئی۔”تم ہی پہن لینا فوزی!” راضیہ بولی۔”ہائے کیوں باجی؟ تمہارے لئے بھیجا ہے تو تم پہننا”۔ فوزیہ نے فوراًسینڈل پاؤں سے نکالے ۔”اچھا اب یہ تماشا سمیٹو، میں نے سحری کے پراٹھے بنا لئے ہیں تم بس سالن گرم کر لینا، آج ستائسویں شب ہے نا میرے کچھ نوافل اور صلوۃ تسبیح رہتے ہیں”۔ راضیہ اس کو ہدایت کرتے تلاوت کرنے بیٹھ گئی۔

فوزی نے سامان سمیٹا اور آرام کرنے لیٹ گئی . کچھ دیر بعد وہ اٹھی جلدی جلدی کچھ نوافل پڑھیں اور سحری لگانے کی تیاری کی ۔ اماں ، ابا ، سلیمان ، فوزیہ سب ہی کی سحری ختم پر تھی پر راضیہ کی نماز ختم نہ ہورہی تھی۔

”فوزی جاکر باجی کو بلا لے پانچ منٹ ہی رہتے ہیں اذان میں” اماں بولیں تو فوزیہ جلدی سے اندر بھاگی۔”باجی! جلدی کرو سحری کا وقت ختم ہورہا ہے”۔ پر راضیہ شاید سجدے میں سو گئی تھی چند بار آواز دیتے اس نے راضیہ کو ہلایا تو وہ ایک طرف لڑھک گئی۔ فوزی کی چیخ نکل گئی ”اماں! ابا! باجی چلی گئی”۔

قدر دان رب نے اپنی بندی کو انسانوں کے رحم پر چھوڑنا گوارا نہ کیا تھا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں