پریشان خاتون بیٹھی ہے

بھگتان…

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نصرت یوسف

سنہری شام غروب ہونے کو تھی ، لیکن کام باقی تھا . موبائل وقتاً فوقتاً جرس بجا رہا تھا، بالآخر میز پر رکھی فائل پر اس نے نظر ڈالی اور موبائل اٹھاتا کھڑا ہوگیا. آج شادی کی گیارہویں سالگرہ تھی . ملکہ اس کی بیوی کا صرف نام ہی نہیں تھا، میا‍ں نے اس کو واقعی ملکہ ہی بنا رکھا تھا، سانولی سلونی سی آئی تھی . حسان کے ساتھ دس برسوں نے اسے نمکین گلابی روپ دے دیا تھا.

کچھ پھوہڑ تھی، لیکن شکوہ شکایتیں نہ کرتی . اس کے ماں باپ کا خیال رکھتی سو حسان جالے لگی چھت ، دھبے لگی دیوار، سوراخ ہوا تولیہ، بال آئی پلیٹ کو دیکھ کر کراہیت کے باوجود آرام سے توجہ دلاتا جو کبھی تو کام کر جاتی اور کبھی سب کچھ جوں کا توں رہتا.

دس برس ملکہ نے حسان کے دل پر راج کیا، شادی کی ہر سالگرہ اس راج پر مہر لگاتی لیکن ایسا کیا ہوا کہ گیارہویں برس شادی کی سالگرہ شام جب حسان گھر پہنچا تو کچھ کھویا کھویا سا تھا. تینوں بچوں سے اسی لگاوٹ سے ملا جو اس کا خاصہ تھا.

ملکہ کے پاس بھی وہ مخمور انداز میں آیا، تحفہ بھی دیا، لیکن اس کے لمس کے ایک ایک خلیہ میں جیسے اجنبیت سی تھی ، حسان کی نگاہوں نے جیسے ملکہ کے عکس کو آنکھ کی پتلی پر ٹہرا یا ہی نہیں تھا، یہ وہ جاوداں لمحے ہی نہ تھے جو ہر برس اس شام دونوں کے درمیان اترتے تھے.

” کیا بات ہے حسان؟ "
ملکہ کے لہجے میں والہانہ پن تھا لیکن حسان کی قربت میں فاصلہ… ملکہ لرز گئی
اس نے کہاں یہ سب دیکھا تھا، وہ تو حسان کی شراب طہور تھی لیکن یہ شام…
آہ یہ شام!!

اور پھر اس شام کے بعد ملکہ دس سال بلا تعطل حسان کے دل پر حکومت کا فخر کھو گئی . حسان ملکہ کےلیے وہ حسان ہی نہ رہا جو وہ تھا.

وہ کسی کو کیا بتاتا کہ شادی کی گیارہویں سالگرہ کی شام جب سورج کی آخری کرنیں آفس کے ہرے بھرے پارکنگ ایریا میں جادو سا کر رہی تھیں اس کی نگاہیں گاڑی کا لاک کھولتے اس وجود پر ٹک گئیں.. عمارت کی دوسری منزل پر کام کرنے والی جیا بدر سیاہ لباس میں ملبوس اسی طرف آرہی تھی، باریک سیاہ شیفون کی آستینوں نے اس کے بازوں کو برہنہ بازوقا سے زیادہ دلکش بنا دیا تھا ، چہرے پر سامنے سے آتی کرنوں نے روشنی کے وہ زاویے ڈالے کہ حسان ٹک اسے دیکھتا رہا، قریب آئی تو حسان کا دل چاہا کہ وہ اس کے بازو کا گداز محسوس کرے . یہ خواہش اتنی شدید تھی کہ بہ مشکل وہ رخ موڑ کر گاڑی میں بیٹھ سکا. جیا بدر کے ساتھ تعلق کی خواہش نے اسے اینا کونڈا مانند جکڑ لیا تھا، ملکہ جیسے کہیں خلا میں گم ہو چلی تھی.

ہر درست، غلط جاننے کے باوجود وہ جیا بدر کو محسوس کرنا چاہتا تھا.
نہ جانے یہ کشمکش کب تک چلنی تھی… جیا بدر ہر چیز سے لا علم بدستور اجنبی تھی . ایسی اجنبی جس نے ملکہ کے بادشاہ کو دست جنوں دے کر ملکہ نہ رہنے دیا .

حسان شعور اور کشش دونوں کے درمیان ڈولتا اپنے آپ کو محسوس کرتا تھا، جیا بدر کے لیے شوق اضطراب ، دید کے شعلوں میں لپٹنے کی. کیفیت اور اس پر ملکہ کی آزردگی کا خیال ، سب مل کر اسے الجھا چکے تھے. جو کچھ بھی اس کے اندر ہلچل مچا رہا تھا، اسے ضبط نفس کے فلسفے ، نقطے ، قطعے بٹھا نہیں پا رہے تھے یہاں تک کہ ضبط سے اسے اپنی کنپٹیاں سلگتی لگتیں.

جیا بدر ہر روز سامنے آتی ، ہر دن اس کا سحر ایک نیا رنگ لیے ہوتا ، ہر روز اس کی خوشبو حسان کوغلام کرتی اور وہ رشک سے اس مرد کو دیکھتا جو اس کے ساتھ ہاتھ ملاتا رخصت ہوتا . دل اسے حریف قرار دینے لگا، ملکہ بھی اس نادیدہ کی تلاش میں تھی جس نے اس کی سلطنت میں دراڑیں ڈال دی تھیں ، اس کا شاہ اس کے ساتھ ہوتے بھی اس کا نہ رہا تھا…
شاہ اپنا نہ رہا تھا وہ تو ایک ڈھیر بن چکا تھا جسے الہامی پاپندیوں سے آزاد رویوں نے کہر سا کردیا تھا.

کیا المیہ ہے خوبصورتی بدصورتیوں سے دنیا کو ہر روز بھرتی جارہی ہے، انسان ان بدصورتیوں کا حل خالق سے لینے کے بجائے مخلوق سے لیتا مسائل در مسائل میں گھرتا جارہا ہے.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں