عبدالصمد بنگالی جو اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے، محبت کی ایک کہانی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابا جی نے ایک روز اعلان کیا آج سے گھر کا سودا سلف عبدالصمد بنگالی کے ہاں سے آئے گا۔ وہ عجیب زمانہ تھا۔ ہمارے بزرگ بات بات پر جذباتی ہوتے، مشرقی پاکستان کے ذکر پر آنسو بہاتے اور اُس دیار سے کسی کے آنے کی خبر ملتی تو اس کی راہ میں پلکیں بچھا دیتے۔ بھٹو صاحب کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر موجود تھا، بھارت کی قید سے رہائی کے بعد بہاریوں اور محب وطن بنگالیوں کی پاکستان آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ اس مقصد کے لیے سرگوداھا میں سلانوالی روڈ پر گلشن کالونی بسائی گئی اور اُس کے باسیوں کی گزر بسر کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا جس کے سبب دیکھتے دیکھتے ہی باغ جناح کے مرکز ی راستے پر کھوکھوں کا بازار وجود میں آگیا۔ ابا جی کے فیصلے کا سبب سمجھ میں آیا تو اس بنگالی کی زیارت کی خاطر میں بھی باغ جناح جا پہنچا جہاں ناٹے قد کا ایک سانو لا سا شخص اجنبی لہجے میں باتیں کرتا، کنستر سے گھی نکال کر تولتا یا پلٹ کر پیچھے دیکھتا اور اپنے بچوں کو کوئی ہدایت جاری کرتا، یہ عبدالصمد تھے۔

ہم پاکستانیوں کا معاملہ بھی عجیب ہے جلدی جذباتی ہوجاتے ہیں اور جس قدر جلد جذباتی ہوجاتے ہیں، اسی تیزی کے ساتھ جذبات کا طوفان اتر بھی جاتا ہے۔ گلشن کالونی کا حشر بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور کمپنی باغ میں تخلیق پانے والے بازار کا بھی۔ بلد یہ سرگودھا، جس نے یہ بازار قائم کیا تھا، خود اسی نے اسے تجاوزات قرار دے کر مسمار کر ڈالا۔ بازار تو ختم ہوگیا لیکن عبدالصمد بنگالی اس کے باوجود نظر آتے رہے۔ کبھی وہ ابا جی کے مطب پر تشریف لاتے اور دیر تک باتیں کرتے۔ کبھی وہ حکیم عبدالرحمان ہاشمی کے دارالرحمت کی محفلوں میں دکھائی دیتے اور کبھی کہیں آتے جاتے۔ صمد صاحب کو دیکھ کر میں اگرچہ مایوس ہوا تھا لیکن جب ان سے ملنے کے مواقع بار بار ملے اور انھیں اپنے بزرگوں کی قربت میں دیکھا تو میری دلچسپی ان میں بڑھنے لگی۔ صمد صاحب مشرقی پاکستان کے ضلع رنگ پورکے ایک گائوں چپلاہاٹی کے درمیانے درجے کے زمین دار اور تاجر تھے۔ زمین زرخیز تھی، اس لیے حویلی میں دھان اور پٹ سن کے ڈھیر لگے رہتے۔ محنت کی عادت تھی، اس لیے باقی وقت آڑھت میں گزرتا یا پھر تیستا نودی (ندی) سے بہہ کر آنے والے پتھروں کے کاروبار میں۔ گزر بسر اچھا ہورہا تھا کہ یکایک حالات بدلے اور پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش بنانے کی باتیں ہونے لگیں۔ اسی دوران میں ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک ایسا واقعہ ہوگیا جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے اس خوش حال خاندان کے حالات بدل گئے۔ چیلا ہاٹی مشرقی پاکستان کا آخری قصبہ تھا۔ یہ قصبہ بھارت سے اتنا قریب ہے کہ گھر میں جلنے والے چولہے کا دھواں بھی سرحدکے پار دکھائی دیتا ہے۔ اس نازک زمانے میں مکتی باہنی کے غنڈوں نے سرحد ی قربت کا نا جائز فائدہ اٹھایا، ایک شام وہ سرحد عبور کر کے چیلا ہاٹی میں داخل ہوئے اور گلی کوچوں میں چھوٹی موٹی چیزیں بیچ کر روزی کمانے والے حافظ بہاری کو بکرے کی طرح ذبح کر دیا۔ صمد صاحب نے یہ خبر صدمے کے ساتھ سنی اور اعلان کیا چیلا ہاٹی تے آراے ای رقم ہوبے نا (چیلا ہاٹی میں آئندہ ایسا نہ ہو سکے گا)۔

پھر یہ اعلان حقیقت میں بدل گیا حالانکہ مشرقی پاکستان میں ان دونوں مکتی باہنی کے بے لگام غنڈوں نے اودھم مچا رکھا تھا لیکن چیلاہاٹی کی بات دوسری تھی۔ اس گائوں میں عبدالصمد شور کار (سرکار) کو چیلنج کرنا آسان نہ تھا، علاقے میں ان کا رسوخ تھا، خدمت خلق کے کا موں کی وجہ سے مخالفین بھی ان کا احترام کرتے تھے، اسی لیے یہ علاقہ مکتی باہنی کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہا۔ مشرقی پاکستان کے شمال میں یہ واحد علاقہ تھا جہاں بازار معمول کے مطابق کھلتے، گلی کوچوں میں چہل پہل ہوتی، بچے اسکول جاتے، شادی بیاہ کی تقریبات میں میلاد ہوتا اور لڑکیاں بالیاں بھویا گا کر خوشی کا اظہار کرتی۔ لوگ خوش تھے اور صمد صاحب ان سے بھی زیادہ کہ وہ اپنی دانست میں دشمن کو شکست دینے میں کامیاب ہو چکے تھے لیکن اس روز ان کے صدمے کی انتہا نہ رہی جب میجر غلام رسول ساہی نے انھیں ہدایت کی کہ وہ علاقہ چھوڑ دیں۔ اصل میں فوج کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ سید پور کا رخ کرے اور چیلاہاٹی خالی کر دے کیونکہ صوبے کے دیگر حصوں میں مکتبی باہنی کی سرگرمیوں میں بہت اضافہ ہوچکا ہے۔ ایک اطلاع یہ بھی تھی کہ جنوب کے بعض علاقوں میں بھارتی فوج داخل ہو چکی ہے۔ رفتہ رفتہ چیلا ہاٹی کے قرب وجوار کے حالات بھی بگڑ نے لگے یہاں تک کہ مکتی باہنی نے صمد شورکار کے سر کی قیمت مقرر کر دی۔ اعلان کیا گیا کہ جو شخص انھیں قتل کرے گا، اسے مقامی سینما گھر انعام میں دیا جائے گا حالا نکہ جنوب کا یہ واحد علاقہ تھا جہاں حافظ بہاری کے قتل کے بعد خون ریزی کا کوئی ایک واقعہ بھی رونما نہیں ہوا تھا، حتی کہ ہندو تک محفوظ رہے تھے جس کا کھلے عام اعتراف کیا جاتا۔ یہی بات مکتی باہنی کے لیے نا قابل قبول تھی۔

میں اپنا گھر بار چھوڑ کر کہا ں جائوں؟ صمد صاحب نے میجر ساہی سے کہا۔ چیلا ہاٹی ان کے باپ دادا کا شہر تھا، یہی شہر تھا جس میں ان کے والد محی الدین شور کار نے تحریک پا کستان کی قیادت کی تھی اور ان کے بزرگ کچھ بہار کے راجہ کے منیم کی حیثیت سے اس علاقے میں صاحب اختیار رہے تھے۔ ان کے لیے چیلا ہاٹی کو چھوڑنا آسان نہ تھا لیکن جب میجر غلام رسول نے انھیں اونچ نیچ سمجھائی تو وہ خاموش ہو گئے، اندر گئے، بیوی سے کہاکہ اٹھ نیک بخت کوچ کا وقت آن پہنچا اور وہ نیک بخت تین کپڑوں میں ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ گھر سے نکل کر صمد صاحب دو قدم آگے بڑھے، رکے، پھر پلٹ کر دیکھا۔ صدر دروازے کے پاس وہ بانس ابھی تک نصب تھا جس پر دو ماہ قبل انھوں نے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اپنے ہاتھوں سے لہرایا تھا۔ وہ بانس سے یوں لپٹ گئے جیسے کوئی اپنے پیارے سے گلے ملتا ہے، بوسا دیا اور الٹے پیروں چلتے ہوئے واپس لوٹے۔ ایک دم اُن کی آنکھیں بھر آئیں اور ہچکیوں کے سبب بات کر نی مشکل ہوگئی۔ جلدہی یہ قافلہ گھر بار کھلاچھوڑ کر کسی نا معلوم منزل کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔ یہ سفر بڑا کٹھن تھا۔ کبھی فضائی حملے کا سامنا کرنا پڑا اور کبھی مکتی باہنی کا۔ صمدصاحب کے پاس ایک سب مشین گن تھی جو انھوں نے اپنی بیل گاڑی پر نصب کرلی۔ قافلہ سید پور روڈ پر نیلفا ماری کے قریب پہنچا تو مخالف سمت سے آنے والی ایک جیپ نے اس پر گولیوں کی با ڑ ھ ماردی جس پر ان لوگوں کو اپنی بیل گاڑی میں دبک جانا پڑا۔ اوسان بحال ہوئے تو پتہ چلا کہ صمد صاحب کی اہلیہ کی ساڑھی میں کئی سوراخ ہو چکے ہیں، گولیاں بچوں کے سروں کے اوپر سنسناتی ہوئی گرزی تھیں۔ لیکن اللہ تعالی کے فضل سے کسی کا بال تک بیکا نہیں ہوا تھا۔ صمد صاحب سجدہ شکر بجا لائے اور اُن کی اہلیہ کو چند روز قبل گھر آنے والے اس مجذوب کی یادآگئی جو پر اسرار طور پر رات کے پچھلے پہراُن کے گھر آیا، دال بھات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ رنا گھور (باورچی خانہ) میں لٹکی شکیا (چھینکا) میں پڑے دودھ اور مسسپ (نعمت خانہ، وہ چھوٹی الماری جس میں اس زمانے میں کھانے پینے کی چیزیں رکھی جاتی تھیں) میں رکھی بھات (چاول) میں سے اسے حصہ دیا جائے۔ یہ حیران کن بات تھی کیوں کہ عبدالسلام نے یہ بات جب اپنی ماں سے آکر کہی تو اُنھوں نے اس کی تصدیق کی کہ گھر میں یہ چیزیں ایسے ہی رکھی ہیں جیسے بتایا گیا ہے محذوب نے کھانا کھا کر اہل خانہ کو دعا دی، صاحب خانہ کو طلب کر کے حالات کی خرابی کی خبردی پھر اُنھیں سات تعویز دیے اور ہدایت کی کہ گھر کہ فردکے گلے میں ایک تعویز ڈال دیا جائے۔ صمد صاحب نے بیوی کی بات سُنی تو ایک بار پھر سجدے میں گر گئے۔ چیلا ہاٹی سے سید پور کا سفر لگ بھگ ۶۰ کلو میٹر کا ہے جو سات روز میں طے ہوا۔ قافلہ منزل سے ابھی دور ہی تھا کہ آسمان پر بھارتی ہیلی کا پٹر نظر آئے، مشہور تھا کہ فضائی جائزے کے بعد فوج ضرور حملہ کرتی ہے، صمد صا حب نے آئو دیکھنا نہ تائو، بیل گاڑی سے کود کر دھان کے کھیت میں گھس گئے اور بچوں سے کہا کہ وہ پودوں سے انھیں ڈھک دیں، بچوں نے اپنا کام کیا اور صمد صاحب نے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ شروع کر دی۔ اس کسمپری میں بھی دفاع وطن کے لیے ان کا جذبہ عروج پر تھا۔ قافلے کے سید پور پہنچنے پر سے پہلے ہی بارہ دسمبر کا بے مہر دن گزر چکا تھا یہ لوگ سید پور چھائونی پہنچے تو فوج کے افسروں اور جوانوں کے ساتھ ساتھ اس خاندان کو بھی جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ سید پور چھائونی میں قیامت کا منظر تھا پاک فوج کے جوانوں کے لیے ہتھیار ڈالنے کی خبر ناقابل یقین اور ناقابل عمل تھی فوجیوں کو پریڈ گراونڈ میں جا کر ہتھیار ڈالنے کا حکم ملا تو کئی غیرت مند جوانوں نے دیکھتے ہی دیکھتے بندوق کی نالی کنپٹی پر رکھ کر جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ دل دماغ میں ہل چل مچا دنیے والے یہ مناظر صمد صاحب اور ان کے بچوں نے اپنے انکھوں سے دیکھے۔

دو برس بھارت کی قید میں گزارنے کے بعد یہ خاندان پاکستان پہنچا جہاں حکومت نے دیگر خاندانوں کی طرح اسے بھی سرگودھا میں گیارہ ہزار روپے کے آسان قرضے کے عوض تین مرلے کا چھوٹا سا مکان فراہم کیا۔ صمد صاحب اور ان کے کنہے نے آٹھ برس یہی گزارے زمین داروں کے اس ممتاز خاندان کا ان حالات میں گزارا مشکل تھا۔ صمد صاحب کو چلاہاٹی اس شہر میں اپنی وسیع و عریض حویلی اور دھان کے کھیتوں کی یاد ستانے لگی اور انھوں نے مشرقی پاکستان واپسی کا فیصلہ کر لیا۔ جو اب بنگلہ دیش کہلاتا تھا گیارہ ہزار روپے میں ملنے والا گھر انہوں نے پندرہ ہزار میں بیچا اور واپسی کی راہ لی۔ آٹھ برسوں کے دوران دنیا بدل چکی تھی ان کی حویلی میں کالج قائم ہو چکا تھا حویلی کا صدر دروازہ اگرچہ اوہی تھا اس کے ساتھ نصب بانس بھی اپنی جگہ موجود تھا لیکن اس پر اب ان کا محبوب جھنڈا نہی لہراتا تھا۔ صمد صاحب نے نظر اٹھا کر ایک بار دیکھنے کی کوشش کی پھر سر جھکا کر اپنے والد کے گھر داخل ہوگئے۔ اپنے مرحوم باپ کے بستر پر وہ کئی روز تک منہ لپٹیے پڑے رہے. ایک روز ہمت کر گھر سے نکلے تو شریر بچوں کی ٹولی نے ان کا پیچھا کرتے ہوے نعرہ لگایا :خانیردالال . کچھ دن یہ تماشا رہا پھر لوگ اس کے عادی ہوگئے اس کے بعد صمد صاحب جب گھر کے کام کاج سے فارغ ہو جاتے تو قصبے کے کسی چائے خانے میں جا بیٹھتے اور اس زمانے کی باتیں کیا کرتے جب چیلا ہاٹی پاکستان کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ لڑکوں بالوں کو نیا مشغلہ مل گیا اب وہ ان کے ارد گرد بیٹھ جاتے اور مطالبہ کرتے چاچا آ مار چاء کھاوائو (یعنی چاچا ہمیں چائے پلائو)۔ صمد صاحب بچوں کے شرارت بھرے چہروں پر ایک نظر ڈال کر مسکراتے اور چائے کا آڈر کر دیتے جس پر بچے ایک اور مطالبہ کرتے چاچا آرپاکستانیر گولپوشنائو(چاچا ہمیں پاکستان کے بارے میں بتائو) اس مطالبے پر وہ خوش ہو جاتے اور اپنے محبوب کے تذکرے میں ڈوب جاتے چیلا ہاٹی کے چائے خانوں میں برس ہابرس تک پاکستان کا تذکرہ زندہ رکھنے والی یہ آواز ۱۱ مئی ۲۰۱۳ء کو ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔

عبدالصمد صاحب نے عجب قسمت پائی تھی، پاکستان کی خاطر وطن چھوڑا لیکن پاکستان میں جڑ نہ پکڑسکے واپسی کا کشٹ انھوں نے ضرور اٹھایا لیکن اپنے گھر میں پنہچ کر بھی بے وطن ہی رہے۔

(جناب فاروق عادل کی کتاب "جو صورت نظر آئی” سے انتخاب)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں