محمد عثمان جامعی شاعر،مزاح نگار، کالم نگار

کُھل کھیلتا کھلاڑی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد عثمان جامعی

مزاح نگاری کو نہایت دشوار صنف تصور کیا جاتا ہے، لیکن ایک مزاح نگار کی اصل دقت کہنا نہیں، کہنے سے خود کو روکے رکھنا ہے۔ اقبال ہاشمی کی کتاب ”تماشا“ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ وہ اس مشکل مرحلے سے بھی ہنستے کھیلتے گزر گئے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ کُھل کھیلتے گزرے ہیں۔ کہیں کہیں تو وہ اتنا کُھل گئے ہیں کہ ہم اس مشکل میں پڑگئے کہ اس کتاب کے مصنف اقبال ہاشمی ہیں یا بولی وڈ والے عمران ہاشمی، پھر سرورق دیکھ کر شک دور کیا۔

ہمارا شک تو دور ہوگیا لیکن، اس کتاب کے پہلے ہی مضمون بہ عنوان”ہمارے انتقال پُرملال پر نقصِ امن کا خطرہ ہے“ میں جس شک کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہ لاعلاج ہے، اور یہ مضمون پڑھ کر اس شک کے قابل علاج ہونے پر ہم جیسے شوہروں کو جو شک تھا وہ بھی رفع ہوگیا۔

تحریر کیا ہے صاحب شوہروں کا نوحہ ہے، ان کی ترجمانی ہے اور گھر گھر کی کہانی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ اگر کوئی خاوند یہ دعویٰ کرے کہ وہ اہلیہ کی نظر میں مشکوک نہیں تو حسد کرنے کے بہ جائے اسے حکیم کا پتا بتایا جاتا ہے۔ زیرتبصرہ مضمون کی ابتدا اس فقرے سے ہوتی ہے:

”ہماری بیگم اچھی ہی نہیں بلکہ بہت اچھی ہیں“

اور جب وہ آگے لکھتے ہیں کہ ان کی تیمارداری میں جُت کر وہ”ٹی وی کے ڈراموں کی قسطیں بھی قضا کردیتی ہیں“ تو خاتون کے بہت اچھا ہونے پر یقین کرنے میں کوئی امر مانع نہیں رہتا۔ یہاں ہم یہ بتا اور جتا کر اقبال صاحب کی دل شکنی نہیں کرنا چاہیں گے کہ حضور! ڈراموں کی قسطیں یوٹیوب پر مل جاتی ہیں۔

”تماشا“ کی تحریروں سے منکشف ہوا کہ وجود زن صاحب کتاب کا خاص موضوع ہے۔ لیکن یہاں معاملہ ”آہ، بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار“ کا نہیں، اس کے برعکس خواتین کا تذکرہ یوں کرتے ہیں جیسے کوئی مظلوم فلسطینی اسرائیل کا ذکر کرے یا پی ٹی آئی والے کی زبان پر ن لیگ کا قصہ ہو۔ اس باب میں اِن کی انتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ یہ حُسنِ زن کے بارے میں بھی ذرا حُسن ظن نہیں رکھتے، چناں چہ لکھتے ہیں:

”آئینہ دیکھ کر پہلی مرتبہ خواتین کو احساس ہوا کہ وہ مردوں کے لحاظ سے خاصی بدصورت ہیں۔“ صرف اس جملے پر ہی تنہا ان کے خلاف عورت مارچ واجب ہوجاتا ہے، مگر جواباً یہ کہہ سکتے ہیں میری تحریر میری مرضی۔

ایک اور مضمون میں پتھر کے دور میں خواتین خوری کا ذکر یوں مزے لے لے کر کرتے ہیں کہ اچھا بھلا آدم زاد قاری ”بنتِ آدم خوری“ کی طرف مائل ہونے لگتا ہے۔ ایک جگہ کہتے ہیں،”آج کی خواتین پتھر کے دور کے مردوں کی طرح ظالم نہیں ہیں بلکہ ان سے زیادہ ظالم ہیں۔“ ہم مصنف سے عرض کریں گے کہ بھیا! ہر بات کہنے کی تھوڑی ہوتی ہے۔ خواتین سے متعلق اقبال صاحب کے خیالات پڑھ کر ہمیں اپنے خلیل الرحمٰن قمر حقوق نسواں کے چیمپئین نظر آنے لگے، اور بی بیاں یہ تحریریں پڑھ لیں تو انھیں طالبان مہربان لگنے لگیں گے۔ یہ فقرہ پڑھ کر آپ بھی ہم سے متفق ہوجائیں گے، فرماتے ہیں:

”دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسی شادہ شدہ خاتون ڈھونڈی جائے جو زندگی سے خوش ہو۔“،

ایک اور جملہ بلکہ حَملہ ملاحظہ فرمائیے،”انسان کی بائیں پسلی اسے تکلیف دیتی تھی، اس لیے آپریشن کرکے اسے علیحدہ کردیا گیا۔ یہ دنیا کا واحد آپریشن ہے جس میں علیحدہ کردیا جانے والا حصہ آدمی کو آج بھی تکلیف دیتا ہے اور آدمی کو نہ اُگلتے بنتی ہے نہ نگلتے۔“

یقین مانیے ہم نے بچپن میں کچھ کتابیں والدین سے چُھپ کر پڑھی تھیں، اور اب یہ واحد کتاب ہے جو بیگم سے چُھپ کر پڑھنا پڑی۔ ہماری تجویز ہے کہ جس طرح خواتین کے رسائل کے صفحات میں ایک خانے پر ”صرف بہنوں کے لیے“درج ہوتا ہے، اسی طرح اس کتاب کی اگلی اشاعت کے سرورق پر ”صرف بھائیوں کے لیے“ تحریر کردیا جائے۔ کتاب کیا ہے لفظوں کا مردمارچ ہے اور صاحب کتاب پورے ”مرد قوم پرست“ہیں۔

مصنف کی معلومات قابل رشک ہیں، اور کیوں نہ ہوں انھیں بچپن ہی سے معلومات حاصل کرنے کا شوق تھا۔ انھوں نے بہ قلم خود اپنے معلومات کے ذرائع تحریر کیے ہیں۔ ”بچے پیڑ پر اُگتے ہیں“ کی سُرخی تلے لکھتے ہیں،”خواتین ہمیں بچہ سمجھ کر آزادانہ اپنی باتوں میں محو رہتی تھیں جب کہ ان کی توقع کے برخلاف ہم کھیلتے ہوئے ان کی باتیں بہت دھیان سے کان لگا کر سُنا کرتے تھے۔“

اپنے والد سے ”سوال ہی پیدا نہیں ہوتا“ کا محاورہ سن کر ان کے ذہن میں اس سوال کی فوری پیدائش ہوجاتی تھی کہ جب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو بچہ کیسے پیدا ہوتا ہے۔ اُن اقبال کو نالوں کے جواب افلاک سے آتے تھے، لیکن اِن اقبال کو سوالوں کے جواب زمین ہی سے مل گئے۔ لکھتے ہیں، ”وہ تو بھلا ہو ہمارے پانچویں جماعت کے ایک دوست کا، جس نے ہمیں آرام سے بٹھا کر سب کچھ تفصیل سے سمجھا دیا، جسے سُن کر ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے کان کی لویں تک سُرخ ہوگئیں اور ہم پر گھڑوں پانی پڑگیا۔ اللہ معاف کرے بزرگوں کے بارے میں بُرے بُرے خیالات بھی آئے۔“ گویا اُٹھتے ہیں حجاب آخر۔ یوں ہاشمی صاحب کے علم کے ساتھ بلوغت میں بھی جس تیزرفتاری سے اضافہ ہوا ہوگا اس کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔

”مَرے تھے جن کے لیے“ اس کتاب کی خاصے کی چیز ہے۔ یہ تحریر جلاوطنی کی زندگی گزارنے والی ایک نام ور سیاسی شخصیت کا خواب بیان کرتی ہے ، اس خواب میں ہم صاحب خواب ”بھائی“ کو عالم ارواح میں قائداعظم اور علامہ اقبال سے لے کر شیخ مجیب ، نوازشریف ، آصف زرداری ، عمران خان تک کتنے ہی سیاست دانوں اور غیر سیاسی شخصیات کی دید کرتے دیکھتے ہیں۔

یہ تحریر اپنے اندر کمال کا طنز و مزاح سمیٹے ہوئے ہے ۔ ہماری پوری سیاست ، حالات ، ماضی اور حال اور شخصیات کو جس طرح فرداً فرداً چند لفظوں کے کوزے میں بند کیا گیا ہے وہ اقبال ہاشمی صاحب کی پاکستان کے سیاسی روز و شب سے گہری واقفیت ، لفظوں پر دسترس اور غضب کا مزاح نگار ہونے کا ثبوت ہے۔

تاہم اس مضمون میں بنگالیوں کے بارے میں فرشتوں سے کہلوایا جانے والا یہ فقرہ طبیعت پر گراں گزرا کہ ”اپنے آپ کو بنگالی کہتے ہیں اور بنگالی کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ دماغ کی ایک بیماری کا نام ہے جو کہ زیادہ مچھلی کھانے سے پیدا ہوتی ہے۔“ اس مضمون میں بنگالیوں سے متعلق فرشتوں کے جملے پڑھ کر لگتا ہے کہ ہم عالم ارواح کا نہیں اکہتر کے آپریشن کا نظارہ کر رہے ہیں ، اور یہ تبصرے اور رائے زنی وہ کر رہے ہیں جنھیں ہمارے سامنے فرشتہ بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔

اسی طرح اہل پنجاب سے متلعق تحریر”مُنڈیا سیال کوٹیا“ کے متعلق میرا تاثر یہ ہے، جو غلط بھی ہوسکتا ہے کہ اس میں مزاح مذاق اُڑانے کا اور توہین آمیز رنگ اختیار کرلیتا ہے۔ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا ایک مزاح نگار کی اصل مشکل خود کو کہنے سے روکے رکھنا ہے۔ بہت سے لفظ اور فقرے ہمارے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں، لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ادب سے بندھے ہاتھ کُھل کر پڑھنے اور سُننے والے کو طمانچہ بھی مار سکتے ہیں۔

فکاہیہ نثرونظم سمیت ادب کی کسی بھی صنف کو انسانی برادریوں میں نفرت پھیلانے اور کسی لسانی ومذہبی گروہ کی تحقیر کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ یقیناً اس کتاب کے مصنف کی ایسی کوئی نیت نہیں ہوگی، مگر بات یہ ہے کہ مزاح نگاری بھی اس شیشہ گری کی طرح ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے”لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام۔“

اداکارہ دپیکا کو لکھا گیا خط بھی کتاب کی ایک نہایت چُلبلی اور منفرد تحریر ہے۔ خط سے چھلکتی اپنائیت سے لگتا ہے کہ یہ واقعی خط ہے، جسے بھابھی کی نظروں میں آنے کے بعد بہ امر مجبوری مضمون کا نام دے کر شائع کرنا پڑا۔ یہ مسئلہ نثرنگار شوہروں کو درپیش آتا ہے، لیکن ہمارے جیسے شاعری بھی کرنے والوں کو یہ آسانی ہے کہ رومانوی نظم کسی کے لیے بھی لکھی ہو بیوی پڑھ لے تو اُسی کے لیے قرار پاتی ہے۔

اقبال ہاشمی کا مزاح ان کے وسیع مطالعے کا پرتو بھی ہے اور ان کے گہرے سماجی ، سیاسی اور تاریخی شعور کا آئینہ دار بھی۔ شگفتگی میں پِرو کر وہ ماضی و حال کے بہت سے چشم کشا حقائق بڑی روانی اور سہولت سے سامنے لے آتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں جا بہ جا ہمیں سائنسی انکشافات اور معیشت کے رموز سے سابقہ پڑتا ہے۔ کہیں کہیں تو مزاح کی پھلجڑیاں چھوڑتے چھوڑتے وہ یکایک پوری سنجیدگی سے آگاہی کے دیے جلانے لگتے ہیں۔

وہ صنفی مساوات کا معاملہ ہو، گوروں کی گھٹتی آبادی کا مسئلہ یا مغرب میں مسلم ممالک کے مہاجرین کی پناہ گزینی کو مغربی ممالک کی رحم دلی سمجھنے کی غلط فہمی مصنف اپنا زاویہ نظر مدلل انداز میں اور پڑھنے والے کے ذہنوں پر بھاری لفظوں کا بوجھ ڈالے بغیر پیش کرتے ہیں۔ اس طرح وہ بڑی دھیرج سے اور ہنستے مسکراتے بہت سی نقابیں اُلٹتے چلے جاتے ہیں۔

اس کتاب کے ذریعے ہم نے یہ بھی جانا کہ اقبال ہاشمی صاحب کا فوج سے تعلق رہا ہے۔ ویسے تو فوج سے کوئی بھی لاتعلق نہیں رہ سکتا، یہاں ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ اس ادارے کا زندگی کے ہر شعبے سے تعلق ہے یا جس طرف آنکھ اٹھاﺅں تری تصویراں ہے۔

ہم بس اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ یہ ہماری فوج ہے تو ہم اس سے لاتعلق کیسے رہ سکتے ہیں، اور اقبال صاحب تو فوج ہی میں رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہماری فوج نے بہت اچھے مزاح نگار پیدا کیے ہیں، چاہے مذاق کیسا بھی کیا ہو۔ یہ سارے مزاح نویس اس اعلیٰ معیار کے ہیں کہ ان کے نام کے ساتھ عسکری کا سابقہ لگانے کی ضرورت پیش نہیں آئی اور انھوں نے سابق ہونے کے بعد بھی عزت پائی۔

اقبال ہاشمی صاحب کی ”تماشا“ ہمارے فکاہیہ ادب میں ایک خوب صورت اضافہ ہے۔ ان کے کئی مضامین میں تازہ واقعات کی جھلک بتاتی ہے کہ ان کی مزاح نگاری کا سفر شروع ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا، لیکن ان کی پہلی کتاب ہی قاری کو اپنی گرفت میں لینے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ تازہ کاری، برجستگی، منفرد موضوعات اور روانی سمیت اچھی فکاہیہ تحریر کی ہر خصوصیت اس کتاب کی سطرسطر میں موجود ہے۔

یہاں میں اپنے استاد محترم سلیم مغل کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جن کی علم دوستی اور نشرواشاعت کے شعبے میں پیشہ ورانہ مہارت کے سبب یہ کتاب دیدہ زیب اور بہ معنی سرورق اور خوب صورت طباعت کے ساتھ ہمارے ہاتھ میں آئی، اور کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے پروف کی غلطیاں جھیلنے کی کوفت سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔

امید ہے کہ اقبال ہاشمی چٹکی لیتے اور مسکراتے ان لفظوں کا سفر جاری رکھیں گے اور ہمیں کتابوں کی صورت طنز و مزاح کے دریچے سے زندگی کے تماشے دکھاتے رہیں گے، کیوں کہ ان جیسے مزاح نگار کے پاس لفظوں کی کمی ہے نہ اس ملک میں تماشوں کی۔

(اقبال ہاشمی کی کتاب ”تماشا“ کی کراچی پریس کلب میں منعقدہ تقریب تعارف میں پڑھا گیا مضمون)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں