تاج محل ، آگرہ ، بھارت

ہند میں اجنبی (قسط چہارم )

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر امتیاز عبد القادر ، بارہمولہ
ریسرچ اسکالر کشمیریونیورسٹی ، سرینگر

پہلے یہ پڑھیے
ہند میں اجنبی ( قسط اول )
ہند میں اجنبی ( قسط دوم )
ہند میں اجنبی ( قسط سوم )

سورج کی سُرخ پیشانی مغرب کے اُفق کو چھو رہی تھی اور آگرہ کی پُر رونق فضا آہستہ آہستہ مدہم ہوتی جا رہی تھی۔ تاریکی زینہ بزینہ ہندوستا ن کو اپنے لپیٹ میں لے رہی تھی ، جس کی وجہ سے شہرِ آگرہ میں سناٹا چھانے لگا …… ’تاج محل‘ پہ سناٹا ، درو بام پہ سناٹا ، کاخ و کوُ پہ سناٹا ، خشکی و تری پہ سناٹا …… اس سناٹے کو چیرتی ہوئی ہماری گاڑی زَن سے سڑک پر سُوئے علی گڑھ بہہ رہی تھی……!

رات تقریباً دس بجے ہم یونیورسٹی کے احاطے میں تھے ۔ عشائیہ محترم عبد الحسیب میر ( پی ایچ ڈی اسکالر ) نے تیار کر رکھا تھا ۔ آگرہ سے لوٹتے ہوئے پھلوں کی سوغات ہم ساتھ لائے تھے جو کمرے میں موجود سبھی اسکالرز نے نوش فرمایا ۔ کھانا کھا کے ہم تھکاوٹ سے چور جسم کو آرام دینے کے لیے برادر مزمل صاحب کے کمرے میں دراز ہوئے ۔ برادر مزمل احمد کشمیر کے کلگام علاقے سے ہیں ۔شعبہ پولیٹکل سائنس میں پی۔ ایچ۔ ڈی اسکالر ہیں ۔ ان کی تحقیق کاموضوع’Terrorism and Counter terrorism in pakistan’ہے۔

موصوف نے اول دن ہی سے اپنے کمرے میں تمام مال و منال چھوڑ کر’ بیرونِ خانہ ‘ ہجرت کی تاکہ ہمارے آرام میں دقت اور خلل نہ ہو ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں راقم ایک ہفتہ رہا، ان دنوں رات کی محفل برادر مزمل صاحب کے کمرے میں ہی سجتی تھی اور شب بسری بھی وہیں ہوتی ۔

ان کے کمرے میں تحقیق کے حوالے سے ہندو پاک کے علاوہ امریکہ و برطانیہ کے مصنفین کی کُتب موجود تھیں ۔ مملکتِ خداداد کے حوالے سے بہت سی کتابیں طاق کی زینت بنی ہوئی تھیں ۔ ان کتب میں ’ تفیہم القرآن ‘ نے بھی جگہ بنالی تھی ۔ راقم نماز فجر کے بعد ان کتابوں کی ورق گردانی کرتا تھا ۔ سورج اپنی شعائیں بکھیرتا تو ہم اُس کمرے سے نکل کر صدیق بھائی کے ڈھابے کو’ رونق ‘ بخشتے۔

سرما میں علی گڑھ کی صبح دن کے11 بجے ہوتی ہے۔ اکثر طلباء رات گئے تک گپے مارتے رہتے ہیں ۔ کچھ لیپ ٹاپ اور موبائل کو گود میں لیے اُن بے جان اور رشتہ داروں سے بڑھ کر’ احباب ‘ کا حق ادا کرتے ہیں ۔ موبائل ہمارا جزو لاینفک بن گیا ہے ۔ یونیورسٹی کے احاطے میں بھی دن رات اس ’ محبوب ‘ کی بہت قدر کی جاتی ہے ۔ صبح تین چار بجے اکثر لڑکوں کو یاد آتا ہے کہ آنکھوں ، انگوٹھے ، کمر اور ٹانگوں کا بھی حق ہے ۔۔۔ یا د آتے ہی وہ مسہری پر دراز ہوتے ہیں اور صبح 11 بجے جا کر آنکھ کھلتی ہے۔

ہم بھی صبح کا ناشتہ 11 بجے کے بعد ہی کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ صدیق بھائی کے ڈھابے پر عزیزم شفاعت مقبول صاحب سے بھی ملاقات ہوئی ۔ قبلہ وترگام بارہمولہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کامرس مضمون کے طالب علم ہے اور : ‘Determinants of financial performance
contextualising corporate social responsibility’عنوان کے تحت پی۔ ایچ۔ ڈی مقالہ تیار کر رہے ہیں۔

کچھ سال قبل موصوف کی بہن کا نکاح راقم نے ان کی خواہش پر پڑھایا تھا۔ اُن کی والدہ بہت ہی لذیذ” توشہ “ بناتی ہیں۔ ’ توشہ ‘ کشمیر میں ” تبرک “ کے طور پر سپرد شکم کیا جاتا ہے ۔ کشمیر میں اکثر گھرانے ردِ بلا کے طور بزرگوں کو مدعو کرتے تھے۔ بزرگ حضرات مختلف کلمات کا ورد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھوں سے ” توشہ “ کی بناتے تھے جسے ہمسائیوں اور رشتہ داروں میں بڑے عقیدت سے تقسیم کیا جاتا تھا۔

توشہ ، شمالی کشمیر کی مٹھائی

رفتہ رفتہ یہ سلسلہ اب ختم ہو رہا ہے۔ گھر گھر میں آج دین کی تعلیمات سے لوگ واقف ہو رہے ہیں۔ البتہ کچھ نفوس اب لذتِ کام و دہن کے لئے شوقیہ’ توشہ‘ از خود گھروں میں بناتے ہیں ۔ شفاعت مقبول صاحب کی والدہ محترمہ بھی اُن میں سے ایک ہیں۔ ایک بار کشمیر یونیورسٹی کے ہاسٹل محبوب العالم کے کمرہ نمبر104 میں انھوں نے راقم کو اس کا ذائقہ چکھایا۔ بہت ہی لذیذ شے تھی۔ ماں کی مامتا اُس میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ تب سے تادمِ تحریر راقم مکرّر اُن کے ہاتھ سے بنا ہوا ’ توشہ ‘ کھانے کا متمنی ہے لیکن شفاعت صاحب سنی ان سنی کر دیتے ہیں اور ٹس سے مس نہیں ہو رہے ۔۔۔

خیر موصوف نے ہمیں ظہرانے پر دعوت کی تو وہی یونیورسٹی کے باہر ایک ڈھابے پر اُن کی فرمائش کو شرفِ قبولیت بخش کر ہم نے ما حاضر تناول کیا ۔ چچیرے بھائی کے لیے کمرے کی تلاش تھی وسیم مکائی صاحب ، عبدالحسیب میرصاحب اور شفاعت مقبول صاحب بھی راقم کے ہم رکاب تھے ۔

ہر ممکن کوشش کے بعد دودھ پور روڈ پر ایک مکان ملا جس میں جگہ دستیاب تھی تو اُسے حاصل کیا ۔ چند دن مزید چمن ِ سرسید ؔمیں گھومے پھرے ۔ شعبہئ اُردو، دفتر ماہنامہ تہذیب الاخلاق و سہ ماہی فکر و نظر ، شعبہ اسلامک اسٹیڈیز وغیرہ بھی گئے۔

سر سید احمد خان اور علی گڑھ یونیورسٹی

’اسٹریچی ہال‘ کی زیارت باہر سے ہی نصیب ہوئی کیونکہ دروازہ مقفل تھا ۔ سرسید احمد خانؔ مرحوم کے گھر بھی گئے جہاں آج کل اُن کی یادیں ہی بستی ہیں ۔ اُن کا عصا جس کا سہارا لے کر وہ فقیروں کی طرح علی گڑھ سے پنجاب تک کا سفر طے کر کے گھر گھر جا کر برصغیر کے مسلمانوں کے تابناک مستقبل کے لیے جھولی پھیلاتے تھے ، گھڑی جسے دیکھ کر وقت کے ڈھایے ستموں کو یادکرکے وہ اس سے نکلنے کی راہ تلاش رہے تھے ۔

شال، کرسی اور میز جس پر بیٹھ کر وہ کام کرتے تھے ۔ چکور صوفہ جس پر وہ اپنے رفقاء کے ساتھ جلوہ افروز ہو کر مسلمانوں کے مستقبل کے منصوبے بناتے ہوں گے ، کی زیارت بھی کی۔ وہی قریب ہی اعلیٰ اور خوبصورت مسجد تعمیر کی گئی ہے ، نمازظہر وہاں ادا کی۔ شمشاد مارکیٹ میں ’ پان ‘ کا لطف بھی اُٹھایا جو کہ طبیعت کو ناگوار گزرا۔ غرض ایک ہفتہ وہاں گزار کر واپسی کاسفر باندھا اور سبھی سے رخصت لے کر دہلی کی راہ لی۔

عصر کے بعد ہی گاڑی تھی۔ چچیرے بھائی سمیع اللہ سے رخصتی چاہی تو وہ جذبات پر قابو نہ پاسکے۔ اشک اُن کے پلکوں کا بند توڑ کر رخسار پر بہہ رہے تھے ۔ وسیم مکائی صاحب ساتھ تھے تو انھوں نے ہم دونوں کو سنبھالا ۔ راقم کی آنکھیں بھی نم تھیں ۔ وہاں سے سیدھے ڈاکٹر عبد الرؤف صاحب کے عارضی دولت کدے پر پہنچے اور ظہرانہ وہی تناول کرکے سُوئے منزل چل دیے۔

وسیم مکائی صاحب بس اڈے تک ساتھ ہی تھے ۔ رفاقت کے ساتھ ساتھ بڑی عقیدت سے ’ حمال ‘ بن کر میرا بیگ اُٹھائے پھر رہے تھے ۔ الوداعی سلام دعا کے بعد گاڑی میں سوار ہوا اور چمنِ سرسیدؔ، اس چمن میں تحصیل ِ علم میں مشغول میرے رفقاء و عزیز، صدیق بھائی کا ڈھابہ ، شمشاد مارکیٹ ، زکریا اور دودھ پور روڈ ، سرسید مرحوم کی آخری آرام گاہ، اترپردیش کی آبادی ، گندگی اور کوڑا کرکٹ …… غرض سب کو پیچھے چھوڑ کر ہندوستان کے دار السلطنت کی طرف ہماری گاڑی بڑی تیزی سے بہہ رہی تھی ؎

دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

ہم رہنے والے ہیں اُسی اجڑے دیار کے (میرؔ)

میرؔ سے لے کر غالبؔ تک ، ابراہیم ذوقؔ سے لے کر دیوان سنگھ مفتونؔ تک ، بہادر شاہ ظفر ؔسے لے کر ماونٹ بیٹنؔ تک اور نہرو ؔسے لے کر آنجہانی واجپائی ؔتک ہندوستان کی نابغہ روزگار شخصیات اس شہر میں جلوہ افروز رہی ہیں۔

میرتقی میر ؔ مذکورہ بالاشعر کہہ کر دہلی سے ہجرت کر کے لکھنؤ جا بسے اور پھر واپس نہ آئے لیکن غالبؔ نے اپنا شہر آگرہ چھوڑ کر دہلی کو ہی اپنا مستقل مستقر بنایا۔

دہلی پر ان کا رنگ اتنا پختہ اور واضح ہے کہ ’ چاندنی چوک ‘ اور اس سے ذرا پرے ’ کوچہ قاسم جان ‘ میں اب بھی وہ رنگ دکھائی دیتا ہے ، جہاں چچا غالبؔ کا وہ مکان ایک یادگار کی صورت میں موجود ہے ۔ دہلی میں تاریخ کی ایک کشش ہے جو آپ کو وہاں کھینچتی ہے۔ یہ شہر ایک زمانے میں علم و ادب، فن و ثقافت، آزادی کی تحریکوں اور علاقائی سازشوں کا مرکز رہا ہے۔ ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں