علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مرکزی جامع مسجد

ہند میں اجنبی (قسط دوم )

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر امتیاز عبد القادر ، بارہمولہ
[email protected]

پہلے یہ پڑھیے
ہند میں اجنبی(قسط اول )

وسیم مکائی صاحب اولڈ ٹاﺅن بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے متنوع صلاحیتوں کے حامل میرے عزیزوں میں سے ہیں۔گزشتہ سال ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے انگریزی شعبہ میں پی ایچ ڈی کے لئے امتحان کوالیفائی کیا۔”World War 2,poetry”پرتحقیق کر رہے ہیں۔ موصوف کم عمری ہی سے بسیار نویس ہیں۔ اکثر و بیشتر وادی کے موقر روزناموں’ کشمیرعظمٰی‘ اور’ گریٹرکشمیر‘ میں ان کے مضامین باصرہ نواز ہوتے ہیں ۔ چند انگریزی کتابوں کے تراجم بھی کئے ہیں جو کہ شائع بھی ہوئے۔ تحریر کے ساتھ ساتھ قبلہ تقریری صلاحیت میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔

عبدالحسیب میر صاحب بھی بارہمولہ خواجہ باغ علاقے سے تعلق رکھنے والے مرنجان مرنج قسم کے حامل اسکالر ہیں۔ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں”An Analysis of social and political Developments in Jammu and Kashmir from 1963 to 1975″عنوان کے تحت پی ایچ ڈی کا مقالہ تیار کر رہے ہیں۔ موصوف کے علمی ، تحقیقی اور تنقیدی مضامین وادی کے مختلف انگریزی اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ دونوں نے عقیدت سے میزبانی کا حق ادا کیا ۔

علی گڑھ تحریک ہندوستان میں مسلمانوں کی نشاة الثانیہ کی تحریک تھی۔ سرسید مسلمان ہند کے لئے ایک معالج اور مصلح تھے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ بر عظیم کے انتہائی دقیا نوسی مسلمانوں میں جدید ترین انگریزی اور سائنسی تعلیم کے فروغ کے سلسلہ میں ہے ۔ بقول مختار مسعود کے ’سرسید دو شخصیتوں کا نام اور دو مخالفتوں کا عنوان ہے۔ ایک سر سید تعلیم والا ہے اور دوسرا تفسیر والا ہے۔‘ ( حرف ِ شوق ۔ص258)

تفسیر والے سرسید سے اختلاف بجا لیکن تعلیم کو فروغ دینے والا سرسید واقعتاً انیسویں صدی میں مسلمانوں کا محسن تھا۔ اس صدی نے ہندوستان میں موصوف کے مثل کوئی محسنِ ملت نہیں پیدا کیا۔ وسیع النظر اور ہمہ صفت درد مند ، انجمنوں اور اداروں کا بانی و منتظم ، پرانی عمارتوں کا قدر شناس اور نئی عمارتوں کا معمار۔ دن میں در در جا کر مسلمانوں کے مستقبل کے لئے جھولی پھیلانے والا اور رات کے اندھیرے میں اُٹھ کر مسلمانوں کے زوال پر آنسو بہانے والا ۔

سر سید احمد خان اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

مختار مسعود ماضی کے البم سے ایک تصویر ہمارے سامنے پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’ رات کے دو بجے محسن الملک ، سرسید احمد خان کے پاس گئے تو انہوں نے سرسید کو بستر پر نہ پایا ۔ تلاش میں کمرے سے نکلے دیکھا کہ سرسید برآمد ے میں ٹہل رہے ہیں اور زار و قطار رو رہے ہیں ۔ وجہ دریافت کرنے پر فرمایا اس سے زیادہ مصیبت اور کیا ہو سکتی ہے کہ مسلمان بگڑ گئے ہیں اور بگڑ تے جا تے ہیں۔ کوئی صورت ان کی بھلائی کی نظر نہیں آتی۔ سرسید کی بے چینی حق بجانب تھی ۔ اُس زمانے میں جدید تعلیم حاصل کرنے والے مسلمانوں کو ڈھونڈنے کے لئے خردبین کی ضرورت پڑتی ہے۔ 1852ءسے 1868ءتک دو سو چالیس ہندوستانیوں نے بیرسٹر ایٹ لاء کا امتیاز حاصل کیا اور ان میں صرف ایک مسلمان تھا۔ 1869ء میں ایک سو چار طلبہ نے طب کے لائسنس کا امتحان پاس کیا ، اُن میں بھی صرف ایک مسلمان تھا۔

871ءمیں بنگال میں کل جریدی عہدہ دار 2111 تھے۔ ان میں مسلمان کی تعداد صرف92 تھی ۔ لاہور ہائی کورٹ کے پہلے اکیاسی سال (1947ء ۔ 1866ئ) میں صرف سات مسلمان جج کے عہدہ پر فائز تھے۔ انیسویں صدی کے اواخر تک سند یافتہ مسلمان انجینیر صرف تین تھے۔‘ یہ اعداد و شمار دیکھ کر ذی حس و ذی شعور افراد کے دلوں میں گھبراہٹ طاری ہوتی ہے اور سرسید اس ملت کے محسن تھے، جنہوں نے اپنی زندگی اس ملت کی بہتری کے لئے صدقے میں دے دی۔

وہ از خود فقیروں کی طرح گھر گھر ، در در پھرے ، ہر دروازے پر دستک دی اور کالج کی تعمیر کے لئے جو کچھ ملا اُسے اپنے کشکول میں رکھ لیا۔ عورتیں بھی انفاق کے جذبے سے لبریز تھیں۔ انہوں نے ہاتھوں کی چوڑیاں اور کانوں کی بالیاںتک اُتار کر چندے میں دے دیں۔ ایک شخص نے ایک عمر صرف کر کے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے جو رقم جمع کی تھی وہ ساری کی ساری اس قومی کام کے لئے دے دی ۔

سرسید کی 1885ءکی اپیل پر لبیک کہنے والوں میں پنجاب کا ایک اسکول ماسٹر اُٹھتا ہے، جس نے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے پانچ سو روپیے جمع کیے تھے ۔ وہ اپنی جمع پونجی ” اسٹریچی ہال“ کی تعمیر کے لئے چندے میں دے دیتا ہے۔’ اسٹریچی ہال‘ کے متعلق مختار مسعود رقم طراز ہیں کہ ” اسٹریچی ہال عقلیت اور جدیدیت کی ادب گاہ ہے۔ تحریک علی گڑھ کا گہوارہ ہے۔ تحریک پاکستان کی رزم گاہ ہے۔ برطانوی ہند کے مسلمانوں کے مسائل کے تجزیے ، حل کی تلاش اور دور رس نتائج کی حامل قراردادوں اور تجاویز کی تصدیق اور تصویب کا مقام ہے۔ یہ برعظم کے مسلمانوں کے زوال سے عروج کی جانبِ سفر کی داستان ہے، جو سنگ و خشت میں رقم کی گئی ہے۔ “(حرف شوق ص 21)
علی گڑھ کی تعمیر میں بیش بہا قربانیاں لگی ہیں۔ اسے تعمیر کرنے والے محسن تو مرکر مٹی میں پنہاں ہوئے لیکن اُن محسنوں کا لگایا ہوا یہ پودا آج تناور درخت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جس کے سائے میں رنگ و نسل ، ذات پات، مذہب و مسلک کی تفریق کے بنا ہندوستان کا ہر طالب اپنی پیاس بُجھانے کے لئے اس چمن کا رُخ کرتا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

یہ تناور درخت ، فی الوقت 46706 ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا ہے۔ جس کے سائے تلے تیس ہزار تشنگانِ علم اپنی علم کی پیاس بُجھا نے میں مصروف ہیں ۔ کیمپس احاطے میں لاتعداد وسیع ہاسٹلز موجود ہیں اور جگہ جگہ خوبصورت و دل کش مساجد تعمیر کی گئی ہیں ۔ صبح و شام کیمپس کی فضا ’ اللہ اکبر‘کی ندائے جان فزا سے گونجتی ہیں۔ مبالغہ نہیں بلکہ حق ہے کہ اتنی مساجد ہندوستان کے کسی مذہبی دارالعلوم میں بھی نہیں جتنی چمنِ سرسید کے احاطے میں ہیں۔

جامعہ مسجد کے صحن میں ہی ہندوستانی مسلمانوں کے محسن سر سید احمد خان اپنے بچوں کی معیت میں آسودہ خاک ہیں

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے
(غالب)

سر سید احمد خان کی قبر

ایک دن عصرکے وقت عبدالحسیب صاحب ، وسیم مکائی صاحب اور محمد سمیع صاحب کی معیت میں اس محسن کے مقبرے پر گئے جس نے برصغیر کو بیدار کیا اور خود تا حکم ِ ثانی وہاں آرام فرما ہیں ۔ دعائے مغفرت کے بعد وہیں قریب کی جامعہ مسجد میں نمازِ عصر ادا کی ۔ مسجدکی چھت دل کش نقش و نگار سے مزّین ہے ۔ مسجد کافی وسیع اور خوبصورت ہے ۔ قرآن کریم کا ایک لمبا اور چوڑا نسخہ بھی وہاں دیکھنے کو ملا۔ اس سے قبل ایسا مصحف راقم کی نظروں سے نہیں گزرا ہے۔

خیر کچھ دن کیمپس کے طول و عرض کی گرد چھانی ۔ کیمپس کے باہر کبھی ’ شمشاد ‘ مارکیٹ کی سیر تو کبھی’ زکریا ‘ کی دھول کو مَس کیا اور کبھی میڈیکل روڈ کو چھان مارا۔ جمال پور میں جماعت اسلامی ہند کا ایک تحقیقی سینٹر ’ ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی ‘ کا دورہ بھی کیا ۔ وہاں کشمیر سے تعلق رکھنے والے اسکالر محترم مجتبٰی فاروق صاحب سے ملاقات کرنا مطلوب تھا۔

موصوف کئی برسوں سے مذکورہ ادارہ میں بطور سینئر ریسرچ اسکالر کے پرورشِ لوح وقلم میں مشغول ہیں۔ قومی و بین الاقوامی رسائل و جرائد میں موصوف کے تحقیقی مقالات شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ روزنامہ ’ کشمیرعظمٰی ‘ میں بھی اکثر و بیشتر ان کے مضامین چھپتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے کام سے ہمیں متعارف کرایا اور چائے سے ہماری خاطر تواضع کی۔
علی گڑھ یونیورسٹی کے اندر اور باہر صبح و شام لڑکوں کے جمِ غفیر عارضی ڈھابوں پر دیکھنے کو ملتے ہیں ، جہاں چائے کی چسکیاں لیتے آپ طلباء و اسکالرز کو ہر لمحہ دیکھیں گے۔ علمی ، قومی و بین الاقوامی مسائل زیر بحث ہوتے ہیں۔ مکھیاں بھی اپنا حصہ چوسنے سے اعراض نہیں برتتیں ۔

مصنف ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر

ہم کیمپس کے باہر ناشتے کے لئے پرانی چنگی پر واقع صدیق بھائی کے ہاتھ کی بنی ذائقے دار چائے نوش کیا کرتے تھے اور ساتھ میں عابد بھائی کے مشہور پراٹھے سُپرد شکم کرتے۔ بھارت کی کثیر آبادی اتر پردیش میں ملتی ہے ، اس لیے گاڑی والے، رکشا والے ، ’ بیٹری ‘ چلانے والے، آﺅ دیکھتے ہیں نہ تاﺅ ، دیکھی ان دیکھی کر کے سڑک اور گلیوں میں تیز رفتاری سے اپنی سواری کو چلاتے ہیں۔ جس کی زد میں کبھی کبھار اُتر پردیش کی کثیر آبادی بھی آجاتی ہے۔

کون جی رہا ہے ، کون مر رہا ہے ، اس تیز رفتار زندگی میں کسی کو فرصت نہیں کہ وہ دوسروں کے بارے میں سوچے ۔ ہرشخص دوڑ میں لگا ہوا ہے ، ایک ایسی شاہراہ پر جس کی منزل دھندلی ہے ۔ ہندوستان کی کسی بھی ریاست میں آپ جائیں ، آپ محسوس کریں گے کہ آپ غیروں کے بیچ ہیں۔ تہذیب و تمدن کا فرق ، زبان و اخلاق ، عادات و اطوار اور رسوم و روایات میں فرق ۔ وہاں آپ ( کشمیری ) خود کو اجنبی محسوس کرتے ہیں۔ اس ملک کا آپ ایک ایسا ’ اٹوٹ انگ ‘ ہیں کہ ہر کوئی آپ کوشک کی نگاہ سے ہی دیکھتا ہے۔(جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں