مرد اور عورت غروب آفتاب کا منظر

ہرے زخم

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سقوط ڈھاکہ کے تناظر میں بچھڑنے والے بھائی ، بہن کی اردو کہانی

سائرہ نعیم ۔ کراچی

جمیرا کے ساحل پر گھومتے روشنا کی نظر ایک خوبرو اور جاذب نظر شخصیت پر کیا ٹکی وہ مقناطیس کی طرح اس جانب بڑھتی گئی۔ دل میں شناسائی کا احساس تھا پر دماغ کوئی واضح اشارہ نہ دیتا تھا. آخر شور مچاتے خیال کو دبوچ کر ڈولتے یقین کی رسی تھامے دھیمی سی آواز میں قریب ہوکر پکارا:

ہمایوں رحمان؟

اپنا نام غیر مانوس آواز میں سن کر اس شخص نے گردن گھمائی ،چند لمحے اجنبیت سے شناسائی میں بدلے:

“تم۔۔؟ یہاں؟”

برسوں کا سفر لمحوں میں طے ہوا تھا ۔ گویا دل جیت گیا تھا۔

“ہاں میں روشنا رحمان!”

وہ انگ انگ میں پھوٹتی خوشی میں ڈوبتی تیزی سے بولتی چلی گئی

”کتنی جگہوں پر تلاش کیا تمہیں کسی نے کچھ بتایا تو کسی نے کچھ، فرازبھائی نے کیمپ میں بھی ڈھونڈا تھا تمہیں، پچیس سال میں تم بالکل نہیں بدلے ویسے ہی لگتے ہو” ۔

”بدلنے والا خون اور ہوتا ہے عزیز بہن!”

اس کے لہجے میں بلا کی خفت تھی۔ منہ کا ذائقہ کسیلا ہوا پر وہ مسکرا کر اسٹال جانب اشارہ کرتے بولی :

“آؤ یہاں بیٹھ کر کافی پیتے ہیں”۔

سالوں بعد بہن سے ملاقات میں خوشگواری کا کوئی تاثر نہ ابھرا تھا ۔ ہمایوں نے خجل ہوکر اسے دیکھا ، چند لمحے سیل فون پر کچھ ٹائپ کرکے سر ہلایا تو دونوں سامنے سمندر کنارے لگی پر تکلف میز کرسیوں کی طرف بڑھ گئے ۔ جانتی تھی اسے پانی سے عشق تھا ، ہر موسم کی برستی بارش اسے بلاتی اور وہ تمام تر سرزنش و ہدایات کو پس پشت ڈال کر خوب بھیگتا۔

۔”دبئی میں رہتے ہو؟”

روشنا نے چلتے ہوئے سوال کیا۔ نفی میں سر ہلاتے اپنے سیل فون پر نظر جمائے بولا :

“ڈھاکا میں! اور تم؟”

اس نے پہلی بار گفتگو جاری رکھی ۔ روشنا نے ہاتھ کے اشارے سے چہک کر کہا:

”میں یہیں قریب میں رہتی ہوں، گھر چلو گے نا؟”۔

”نہیں!” سپاٹ جواب آیا تھا۔

پانی کے نسبتاً قریب والی کرسیوں پر دونوں بیٹھ گئے تھے ۔ ہر میز کے آس پاس کھجور کے درخت اور کیکٹس کے پودے سجے تھے ۔ سمندر کنارے لہروں کا رقص ، پیروں تلے گیلی مٹی سے بننے والے نقوش اور ہمایوں کا ساتھ اسے بچپن میں لے گیا جہاں سارے چچا و پھوپھی زاد گھاگر نہر پر ہر ہفتے خوب رونق لگاتے تھے ۔

”ہمیں یاد کرتے ہو ہمایوں؟”

ماحول کے سحر میں ڈوبتے روشنا نے بے ساختہ پوچھا تو لہروں پر نظریں جمائے وہ عام سے لہجے میں بولا : “ ضرورت نہیں پڑی کبھی؟ ”روشنانے اپنے بال سمیٹ کر کلپ میں قید کئے

“ہم تو بھلا ہی نہ سکے تمہیں”۔اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔

”بھلا ہی تو دیا تھا تم نے ورنہ یوں نہ بچھڑتے!” شکستہ لہجے میں یہ جملہ ادا کرتے اس نے تلخی سے بہن کو دیکھا۔

”نہیں نہیں! ایسا نہیں تھا!”

وہ گھٹی گھٹی آواز میں بولی۔

”ہم دو جان ایک قالب۔۔۔”۔

”ہٹاؤ یار کس کی جان اور کون سا قلب؟” وہ جھنجلا گیا۔

اس نے اسکرین بند کرکے سیل فون کوٹ کی جیب میں ڈالا اپنا رخ روشنا کی جانب کرکے سیدھا ہوا.

“ایک ہی باپ کی اولاد ہیں نا ہم؟ پر مجھے زندگی کی بنیاد سے محروم کردیا گیا جبکہ تمہیں ہر طرح کی سہولت دی گئی صرف اس لئے کہ تمہاری ماں اردو بولتی تھی اور میری ماں بنگالی تھی۔” اس کی بڑی اور گہری آنکھوں میں نمی در آئی

“باپ سے چلتا ہے نا سلسلہ نسب؟ ہاں؟” اس کی آواز زیادہ بلند نہ تھی لیکن لہجے کی تلخی عروج پر تھی۔ نمکین پانی سے لبریز آنکھیں جھکی ہوئی تھیں . روشنانے اثبات میں سر ہلایا۔

”باپ نہ رہے تو سلسلہ بھی منقطع ہوجاتا ہے۔ تمہاری ماں تھی نا پر میری تو ماں بھی مر گئی تھی! پھر تم سب ۔۔۔ ہاں روشنا میری سوتیلی بہن!” ہمایوں کا چہرہ بھیگ رہا تھا آواز مترنم تھی ۔۔۔

” تم اپنے اور میرے دادا سمیت کراچی چلے گئے۔ میں جب اسکول سے اپنے گھر واپس آیا تھا نا تو وہاں کوئی نہ تھا”۔

وہ چند لمحے خاموش رہا پھر سر جھٹک کر لمبی سانس لی۔ ”کس جرم کی سزا کاٹی میں نہیں جانتا! پر آج دیکھ لو تم کہاں ہو میں کہاں!۔۔۔ تمہیں تو اپنے گھر کی زمین بھی راس نہ آئی جبکہ میں اسی جگہ ہوں جہاں تم لوگ مجھے چھوڑ کر گئے تھے اور خوب مزے میں ہوں !”، اس نے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا ارد گرد پر نظریں گھمائیں۔ کافی کا مگ اٹھایا اور بولا:

“کافی پیو ٹھنڈی ہوجائے گی!”۔

اس کے لباس چہرے کی تازگی اور دیگر اشیاء سے اس کے فراواں رزق کا بخوبی اندازہ ہوتا تھا۔

روشنا کے دل و زبان ششدر تھے ۔آنسو روکتے بھی تو کیونکر؟ ہمایوں کی باتیں بالکل سچی تھیں پر وہ اپنے پچھتاوے کا یقین کیسے دلائے؟۔پچیس سالوں میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔

”حقیقت یہی ہے میرے ہمایوں ! جو تم نے کہی پر ماضی کی خاطر ہی سہی ہمیں معاف کردو!”۔

ان کہے جذبات شکستہ فریاد مانند لبوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر نکلے تھے۔
”بہتر ہے کہ ماضی بھلا کر آگے بڑھو!” وہ سنجیدہ تھا۔”دکھ اور غم ماضی کے ساتھ رہتے ہیں جبکہ مستقبل کی روشنائی تم ہو ، اس لئے ماضی کے بجائے مستقبل سے رشتہ جوڑو”۔اس نے میز پر کافی کا خالی مگ رکھا۔

”میں اور تم بھی ماضی ہیں!” وہ جانے کے لئے کھڑا ہوا، بیقرار روشنا نے اس کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کی

“پھر کب ملو گے؟”۔ وہ مسکرایا دھیرے سے اس کا ہاتھ ہٹایا اور بولا : “خدا حافظ!”۔
روشنا نے نظروں سے اس کا تعاقب کرنا چاہا لیکن منظر بار بار دھندلا جاتا تھا۔ دنیا کے ہجوم میں وہ ایک بار پھر گم ہوگیا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں