باحجاب مسلمان ڈاکٹر مریضہ سے گفتگو کرتے ہوئے

2022 ءمیں انسانی صحت کو سب سے بڑے خطرات کیا تھے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پوری دنیا میں کورونا سے خوف اب بھی موجود ، 36 فیصد لوگ اپنی نفسیاتی صحت کی بابت پریشان

سمیرا انور

حال ہی میں ایک رپورٹ منظر عام پر آئی جس میں پوری دنیا کے انسانوں کی صحت کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا گیا ، اور بتایا گیا کہ 2022ءمیں عالمی سطح پر لوگوں کی صحت کو کیا خطرات درپیش رہےہیں ؟ اس جائزہ رپورٹ کے مطابق پانچ میں سے تین لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے ملک میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بہت زیادہ دباﺅ کا سامنا ہے۔

رائے عامہ کے جائزے میں 34 ممالک میں تقریباً 23500 بالغ افراد سے ان کی صحت کے بارے میں سوالات پوچھے گئے اور ان کی صحت کو لاحق خدشات کو جاننے کی کوشش کی گئی۔

گلوبل ہیلتھ سروس مانیٹر کے مطابق کوویڈ 19 دنیا بھر میں لوگوں کی صحت کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے اور اب بھی اسے سنگین ترین مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ سن دو ہزار بائیس میں47 فی صد لوگوں نے اسے سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ۔2021 ءمیں یہ شرح 70 فی صد تھی۔ اہم ترین پہلو یہ ہے کہ سن دو ہزار بائیس میں کورونا سے اموات میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم اس کے باوجود لوگ اس سے سب سے زیادہ خوف زدہ ہیں ۔ جائزے کے مطابق 2022 ء میں بعض ممالک میں کورونا کے نتیجے میں اموات کی شرح صفر فی صد رہی۔

کورونا جیسے وبائی مرض کے بعد لوگوں کو سب سے زیادہ دماغی صحت کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ کوویڈ 19کی وجہ سے دماغی صحت پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ( ڈبلیو ایچ او )کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19کی وجہ سے دماغی صحت کی بحالی میں بھی رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں حکومتوں کو وبائی مرض کے دوران میں اور اس کے بعد زندگی بچانے والے ذہنی صحت کے پروگراموں پر زیادہ سرمایہ کاری کرنا ہوگی ، اس حوالے سے فیصلہ کن انداز میں ، تیزی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق متعدد ممالک نے ذہنی صحت کے لیے زندگی بچانے والی خدمات کی راہ میں موجود بڑی رکاوٹوں کی شناخت کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دماغی صحت کو درپیش خطرات کینسر (34فی صد) کے مسئلے سے بھی زیادہ ہیں یعنی36 فیصد۔ ذہنی دباﺅ کو 26فیصد لوگوں نے سنگین مسئلہ قرار دیا۔ جبکہ 22 فی صد لوگ موٹاپا کی وجہ سے زیادہ پریشان پائے گئے ۔

دنیا بھر میں لوگ اپنے معاشروں میں صحت کی کم ہوتی ہوئی سہولیات کے سبب بھی پریشان پائے گئے ہیں۔ رائے عامہ کے جائزے کے مطابق پوری دنیا میں آدھی آبادی یعنی 50 فیصد لوگوں نے کہا کہ ان کے ملک میں صحت کی سہولیات اچھی ہیں جبکہ 19فیصد نے کہا کہ اس ضمن میں ان کے ملک میں صورت حال خراب یا پھر سخت خراب ہے۔

صحت کی سہولیات کو ’ اچھا ‘ کہنے والوں کی شرح سعودی عرب میں 79 فیصد ، متحدہ عرب امارات میں77 فیصد ، آسٹریلیا اور بلجئیم میں 69 فیصد ، سوئٹزر لینڈ اور نیدرلینڈ میں 68 فیصد ، ملائشیا اور امریکا میں 66 فیصد ، چین میں 64 فیصد ، برطانیہ اور سویڈن میں 63 فیصد ، انڈیا میں 60فیصد ، جنوبی کوریا اور انڈونیشیا میں57 فیصد ، فرانس اور ارجنٹائن میں 55فیصد ، کینیڈا اور جرمنی میں 54 فیصد ، تھائی لینڈ 53 فیصد ، سپین50 فیصد ، جنوبی افریقہ 46فیصد ، آئرلینڈ42 فیصد ، جاپان 41 فیصد ، کولمبیا 38 فیصد ، ترکی 37 فیصد ، چلی35 فیصد ، اٹلی34 فیصد ، میکسیکو ، برازیل 29 فیصد ، پیرو ، رومانیہ 21 فیصد ، ہنگری اور پولینڈ میں14 فیصد ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتوں کو صحت کی سہولتوں کو کم از کم کوویڈ 19 سے پہلے کی سطح تک لانا ہوگا۔ اس ضمن میں صحت کے شعبہ میں افرادی قوت پر بالخصوص سرمایہ کاری کرنا ہوگی، اور مستقبل کے لئے صحت کے بنیادی ڈھانچے کے لیے فنڈز میں اضافہ کرنا ہوگا۔ حالیہ کورونا وبا کے دوران میں جو کچھ ہم نے سیکھا ہے ، اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ کورونا بحران کے دوران میں صحت مراکز میں سٹاف کی کمی دیکھنے کو ملی جس کی وجہ سے لوگوں کو صحت کی بنیادی ضروریات حاصل کرنے کے لئے اپنی باری کا طویل انتظار کرنا پڑا۔

سن 2018ءمیں دنیا بھر میں 40 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیکی صحت مراکز میں سٹاف کی کمی ہے اور انھیں بنیادی علاج معالجے کے لئے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔2020ءمیں بھی یہ شرح برقرار رہی ، 2021ءمیں 41 فیصد ہوئی جبکہ 2022ءمیں 42 فیصد ہوگئی۔2018ءکی نسبت 2022ء میں ان لوگوں کی شرح میں اضافہ ہوا جو سمجھتے ہیں کہ حکومتیں بیماریوں سے بچاﺅ کے شعبے پر کم اخراجات کر رہی ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کی شرح میں بھی اضافہ ہوا جو کہتے ہیں کہ حکومتوں نے صحت کے شعبے کے لئے ، بحیثیت مجموعی کمی کردی ہے۔ البتہ ان لوگوں کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے ، جو سمجھتے ہیں کہ انھیں معیاری علاج معالجہ نہیں مل رہا۔2018ءمیں ایسے لوگ 21 فیصد تھے ، جو 2022ءمیں17فیصد رہ گئے۔

کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے ہاں صحت کے شعبے میں معاملات بہتر ہوجائیں گے؟
دنیا بھر میں اس سوال کا جواب ایک تہائی افراد نے ’ ہاں ‘ میں دیا یعنی وہ پرامید ہیں جبکہ 20 فیصد کا کہنا ہے کہ حالات ابتر ہوں گے ۔اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی حکومتوں کے اقدامات سے مایوس ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ماہرین کا خیال ہے کہ صحت کے شعبے کے لئے فنڈنگ بڑھانے کی راہ میں مہنگائی اور سیاسی دباﺅ سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ تاہم حکومتوں کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ شعبہ صحت کے بجٹ میں کسی بھی حال میں کمی نہ کریں۔

مختلف رپورٹس کے مطابق ترقی پزیر ممالک میں صحت کا بجٹ بہت کم ہے جس کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اس لئے حکومتوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ ایسے اقدامات کی فہرست مرتب کریں جو صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بہتر بنائیں اور اقوام کو مستقبل کے بحرانوں کے لیے تیار رہنے میں مدد کریں۔ ان اقدامات کی فہرست زیادہ سے زیادہ طویل ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ادویات اور ویکسی نیشن کے باب میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر فنڈنگ کو بحال ہونا چاہیے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت سے متعلق معمول کے اخراجات کو الگ رکھنا چاہیے اور صحت کی ان کوششوں کے لئے اخراجات کو الگ جو بیماریوں ، وباﺅں کو سست رفتار بناتی ہیں یا پھر انھیں روک دیتی ہیں۔ وباﺅں کے خطرات کی تشخیص اور ان کے علاج کے معاملات پر صاف اور شفاف ہونا چاہیے ۔ حکومتوں کو اس شفافیت کو برقرار رکھنے کے لئے بہتر حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتوں کو اپنے لوگوں کی نفسیاتی صحت بہتر کرنے کے لئے مدد کرنی چاہیے، کیونکہ دنیا بھر میں 36فیصد لوگ اپنی نفسیاتی صحت کی بابت زیادہ پریشان دکھائی دئیے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ نفسیاتی صحت کو درپیش خطرات کو دور کرنے کے لے موزوں انفراسٹرکچر بنائیں۔

اس ضمن میں جہاں حکومتوں کے فرائض ہیں ، وہاں نجی شعبے میں آجروں کو چاہیے کہ وہ اپنے ملازمین کی ذہنی صحت بحال کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔ تاکہ آنے والے وقت میں دنیا بھر کے معاشرے اچھی نفسیاتی صحت کے ساتھ زندگی بسر کریں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں