خدیجہ سعید

رنگوں سے کھیلتی خدیجہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جویریہ خان

گزشتہ دنوں ایک جرمن خبر رساں ادارے ڈائوچے ویلے سے جنوبی پنجاب جیسے قدامت پسند علاقے کی ایک لڑکی خدیجہ کی کہانی معلوم ہوئی ۔ جنوبی پنجاب پاکستان نے ان علاقوں میں سے ہے جہاں آج بھی لوگ غربت میں رہنا پسند کرتے ہیں لیکن قدامت پسندی کو ترک کرنا پسند نہیں کرتے۔ چنانچہ ایسے علاقوں میں عمومی طور پر خواتین گھر ہی میں زندگی گزارتی ہیں۔انھیں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔

خدیجہ سعید ، اس کی بہنیں اور کزنز

اس کہانی کے مطابق شجاع آباد کے نواحی گائوں اڈہ پیر کی ایک ہونہار لڑکی خدیجہ سعید نے اپنے خوابوں کو ایسا رنگ دیا ہے کہ اب وہ اپنے گائوں میں خواتین کی ترقی کی ایک علامت بن چکی ہیں۔

خدیجہ سعید

خدیجہ سعید نے بتایا کہ اس کے گھر کے حالات ٹھیک نہیں تھے ۔یعنی معاشی طور پر تنگی والی زندگی تھی۔ وہ بہت پریشان تھی کہ زندگی کیسے کٹے گی ! پھر اس نے کچھ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس نے سوچا کہ کچھ ہنر ہوگا تو زندگی بدلے گی ۔ چنانچہ اس نے سلائی سیکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس سے کچھ پیسے آ سکیں۔ لیکن اس سے بھی گزارا نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ پھر خدیجہ نے ڈائی کا کام سیکھ لیا۔ بس ! پھر اس کی اور اس کے گھر والوں کی زندگی بدلنے لگی۔ اب اس سے ان کا اچھا گزارا ہو جاتا ہے۔

خدیجہ سعید

خدیجہ نے اپنے گھر میں ٹائی اینڈ ڈائی کا چھوٹا سا کاروبار شروع کیا ہے۔ ابتدا میں اسے اپنے ہی گھر والوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن خدیجہ نے ہمت نہ ہاری۔ پھر اسے کام کرنے کی اجازت مل گئی۔ وہ بتاتی ہے کہ پہلے پہل وہ
اکیلی کام کرتی تھی لیکن اب اس کے ساتھ اس کی کزنیں ہیں ، اس کی بہنیں وغیرہ بھی ہیں۔

خدیجہ سعید اپنی ٹیم کے ساتھ

آغاز میں اس کی کزنوں کو بھی اجازت نہیں تھی لیکن پھر جب ان کے والدین نے دیکھا کہ یہ سنٹر اچھا ہے ، اور سنٹر والے صحیح طور پر ہنر سکھاتے ہیں تو پھر انھوں نے بھی اپنی بچیوں کو بھیجا۔ خدیجہ نے ڈائی کے کام سے کچھ پیسے جمع کئے ، ان سے کتابیں خریدیں ، اور اپنی تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھانا شروع کردیا ، کیونکہ اسے سکول پڑھنے کا بہت شوق تھا۔

خدیجہ سعید اور اس کے والد سعید احمد

خدیجہ نے اپنی محنت اور کامیابی سے اپنے والد سعید احمد کے خیالات بھی تبدیل کر دئیے، انھیں ہنر اور تعلیم کی اہمیت سے آشنا کیا ہے۔ اس کے والد کا کہنا ہے :

ہمارے ماحول میں بچیوں کو کم پڑھایا جاتا ہے ۔ صرف پرائمری تک تعلیم دی جاتی ہے ۔ میری بیٹی کو شوق تھا کہ میں مزید پڑھوں ۔ پھر جب اس نے سنٹر میں داخلہ لیا ، اس کے بعد کام سیکھا ، اس کے بعد اس نے خود پیسے اکٹھے کئے ، مزید تعلیم کا سلسلہ شروع کیا ، مجھے آج اس پر فخر ہے۔

خدیجہ سعید کا اب اولین مقصد مزید تعلیم کا حصول ہے

اس علاقے میں کسان سہولت مرکز یہاں کی خواتین کی ترقی کی امید اور نئے ہنر سیکھنے کا ذریعہ ہے۔ یہ مرکز اس علاقے میں غربت کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اقصیٰ اکرام ، ویمن ٹرینر ، ڈبلیو ڈبلیو ایف ، کہتی ہیں "کہ ” آغاز میں بچیوں کو یہاں آنے میں بہت مسئلہ ہوتا تھا۔ ان کے والدین کو منانے میں ، علاقے والوں کو راضی کرنے میں بڑی مشکل پیش آتی تھی۔ لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کیں کہ تین ماہ میں ٹریننگ ممکن ہی نہیں ہے لیکن ہم نے ایسا کرکے دکھایا ، بچیوں کو تین ماہ ہی میں ٹریننگ دی ، اب وہ ماشااللہ اچھی کمائی کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہم بچیوں کو کاروباری طریقے بھی بتاتے ہیں کہ وہ کاروبار کی طرف جانا چاہیں تو انھیں علم ہو کہ گاہک کے ساتھ کس طرح لین دین کرنا ہے۔ کس طرح بجٹنگ کرسکتی ہیں ، کس طرح اپنی چیزیں کو مارکیٹ میں لا سکتی ہیں ۔”

اقصیٰ اکرام ، ویمن ٹرینر ، ڈبلیو ڈبلیو ایف

اب گائوں میں خدیجہ ڈائی سنٹر کے نام سے کاروبار کر رہی ہے ، اس طرح خدیجہ نے ثابت کیا کہ قدامت پسند معاشرے میں اگر کوئی ایک لڑکی ہمت اور محنت سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے تو حالات اس کے لئے سازگار ہوسکتے ہیں۔ ( کامیابی کی یہ کہانی شائع کرنے کا مقصد محض پر عزم اور باہمت لوگوں کی کامیابیوں سے معاشرے کو آگاہ کرنا ہے تاکہ مزید لوگ بھی ایسے ہی پرجوش ہوں اور اٹھیں اور اپنی ، اپنے خاندان اور اس ملک کی زندگی بدلیں۔ اگر آپ بھی کامیابی کی ایسی ہی کسی داستان سے واقف ہیں تو ہمیں بتائیے )

ڈبلیو ڈبلیو ایف کا پروگرام

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں