شہباز شریف ، وزیراعظم پاکستان و صدر مسلم لیگ ن

آئی ایم ایف معاہدہ: پاکستانی حکمران قوم سے کیسے جھوٹ بولتے ہیں ؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بادبان / عبید اللہ عابد

گزشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کو شرائط ماننے کا پیغام دیا اور کہا کہ معیشت خراب ہے قوم کو قربانی دینا ہو گی۔ بدقسمتی سے پاکستان کا ہر حکمران معیشت کی خرابی کی بات کرتا ہے اور پھر قوم سے قربانی مانگتا ہے۔ وہ اس ملک کے مافیاز سے قربانی نہیں لینا چاہتا۔

یہی طرز عمل پچھلے حکمران جناب عمران خان کا بھی تھا۔ انھوں نے بھی اپنے عہد اقتدار میں مافیاز کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دی بلکہ انھیں لوٹ مار میں سہولت بھی بہم پہنچائی۔ انھوں نے عوام ہی کی ہڈیاں چچوڑیں اور دھیان نہیں دیا کہ اس قوم کے پاس کچھ قربان کرنے کو باقی بچا ہے یا نہیں؟ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت بھی پوری دیدہ دلیری سے عوام کا کچومر نکال رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لئے اس ملک کے مافیاز سے کیوں قربانی نہیں لیتی؟ کیا آئی ایم ایف کا مطالبہ ہوتا ہے کہ پٹرولیم ، بجلی اور گیس سمیت تمام بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھائی جائیں یا پاکستانی حکومت ازخود قیمتیں بڑھا کر آئی ایم ایف کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے ؟ اور آخر ایسا کیا کام کیا جائے کہ آئی ایم ایف پروگرام کا بوجھ عام آدمی پر نہ پڑے ؟

انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹربیون سے وابستہ صحافی شہباز رانا کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں جس تیزی سے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے ، اس کی مثال پاکستانی تاریخ میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی ۔ اسی طرح شہباز شریف حکومت نے اپنے اب تک کے دور حکومت میں جس قدر زیادہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا ، اس کی بھی پاکستانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

شہباز رانا کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں کس قدر زیادہ مہنگائی ہوگی ، اس کا فوری طور پر اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ اسے اعدادوشمار میں تبدیل ہونے میں وقت لگتا ہے۔ پاکستانی معیشت بہت زیادہ درآمدات پر انحصار کرتی ہے۔ زیادہ تر اشیا بیرون ملک سے آ رہی ہیں۔ جب آپ ایک نئی قیمت پر کوئی چیز درآمد کریں گے ، تو وہ خام مال پہلے فیکٹری میں پہنچے گا ، اس کے بعد جب پراڈکٹ بن کر مارکیٹ میں آئے گی اور پھر کنزیومر کے ہاتھ میں جائے گی ۔ اس طرح اس میں ایک وقت لگتا ہے۔

اس وقت پاکستان میں مہنگائی کی شرح 25 فیصد کے قریب ہے۔ اس شرح میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔ اب ٹیکسوں میں اضافہ ہونے جا رہا ہے ، ان ٹیکسز کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہونے والا ہے۔ اسی طرح مزید کئی شعبوں میں بھی قیمتیں بڑھیں گی۔ اس کی وجہ سے مہنگائی بہت زیادہ دیکھنے کو ملے گی۔

پاکستان کی تاریخ میں اس سے زیادہ خراب صورت حال پہلے نہیں ہوئی تھی۔ اسی طرح پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے آئی ایم ایف کی طرف سے ایسے سخت اقدامات کا مطالبہ بھی نہیں کیا گیا تھا۔ سبب یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور دیگر ممالک جو پاکستان کو بند گلی میں لے کر جانا چاہتے تھے ، وہ لے کر پہنچ چکے ہیں ۔ بلکہ ہم خود بند گلی میں گئے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ کوئی زبردستی پکڑ کر ہمیں بند گلی میں لے گیا ہے ۔

آئی ایم ایف اور دیگر ممالک کو پتہ ہے کہ اب پاکستان کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں تین ارب ڈالر باقی رہ گئے ہیں ۔ اور پاکستان ایک ماہ سے زیادہ ہمارے بغیر نہیں چل سکتا۔ اب ہم پاکستانیوں کی ناک سے لکیریں نکلوائی جائیں گی۔

شہباز رانا کا کہنا ہے کہ ہمارا فوکس تھوڑا سا غلط ہے۔ ہمارا فوکس ٹیکس محصولات بڑھانے پر ہے۔ یقینا ٹیکس محصولات بڑھنے چاہئیں لیکن صرف اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنے اخراجات کم کرنے ہوں گے۔ یہ اخراجات کہاں کہاں سے کم ہو سکتے ہیں ، میں آپ کو تین ، چار چیزیں بتا دیتا ہوں۔

شہباز رانا ، انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹربیون سے وابستہ پاکستانی صحافی

اولا : آئی ایم ایف نے آپ کے گلے پر انگوٹھا رکھ دیا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرو۔ اس کا ایک ، واحد سب سے بڑا فیکٹر وہ سبسڈی ہے جو ہم نے ایکسپورٹرز کو دی ہے۔ پاکستان میں وہ افراد جن کے اپنے پرائیویٹ جہاز ہیں ، وہ ایکسپورٹس کے نام پر سبسڈی لیتے ہیں۔ انھیں جس طریقے سے سبسڈی دی جارہی ہے ، اس کا کم از کم پینتیس فیصد ملک کے اندر استعمال ہوتا ہے ۔ ویسے یہ چاالیس سے پچاس فیصد ہے۔

ایکسپورٹرز کو جو سبسڈی دی جاتی ہے ، وہ گیس اور بجلی کے میٹرز پر دی جاتی ہے ۔ یہ بجلی اور گیس جو کپڑا بنانے میں استعمال ہوتی ہے ، اس پر کہیں یہ نہیں لکھا ہوتا کہ یہ ملک کے اندر پہنا جائے گا یا ملک سے باہر پہنا جائے گا۔ بہ الفاظ دیگر وہ کپڑا پاکستان کے اندر بھی فروخت ہوتا ہے اور باہر بھی جاتا ہے۔ جو کپڑا ملک کے اندر فرخت ہوتا ہے ، اس پر بھی وہ سبسڈی وصول کی جاتی ہے، اس کا سارا فائدہ بڑے سیٹھ کی جیب میں جاتا ہے۔ یہ فائدہ ایک سو اٹھارہ سے ایک سو چالیس ارب روپے ہے۔

ثانیا : اس وقت دس سے پندرہ وزارتیں ایسی ہیں جو وفاق نے اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں لیکن وہ وفاق کی ذمہ داری نہیں ہیں ۔ آپ ان وزارتوں کو فورا بند کریں۔ ایک طرف وفاق رو رہا ہے کہ اس کے پاس پیسہ نہیں ہے ، نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ پر پھر سے مذاکرات کر رہے ہیں ، اور خود وفاق بیالیس فیصد ترقیاتی بجٹ صوبے کو دے دیتا ہے۔ اس ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی ضرورت ہے۔

ثالثا : پاکستان میں قرضوں پر سود کی جو ادائیگی کی جاتی ہے ، ڈیٹ ری سٹرکچرنگ کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت بنکوں کو بٹھائے اور انھیں کہے کہ تم لوگوں نے بہت کھالیا ، سینکڑوں اربوں بنالیے ، ہم نے یہ آپ کا سو ارب روپیہ دینا تھا ، ملک کے حالات اچھے نہیں ہیں ، اب ہم آپ کو چالیس ارب ،تیس ارب دیں گے یا انھیں صاف کہہ دیں کہ یہ سودی رقم کی ادائیگی نہیں کریں گے۔

اس سب کچھ کے نتیجے میں بینکنگ مافیا پر ضرب لگے گی ، اپٹما مافیا کو ضرب لگے گی ، اس میں مختلف سیاسی گروہوں کو ضرب لگے گی کیونکہ انھیں وزارتیں چاہیے ہوتی ہیں ۔ یہ مخلوط حکومت ہے ، اٹھہتر وزرا اور معاونین خصوصی کے بغیر حکومت نہیں چلتی۔ یہ کام ہیں تو مشکل ، یہی وجہ ہے کہ حکومت کے لئے آسان یہی ہے کہ جی ایس ٹی بڑھا دو ، پٹرولیم لیوی بڑھا دو ، بنکوں سے جو لوگ پیسے نکلواتے ہیں ، اس پر ٹیکسز لگادو۔ اس لئے یہ حکومت آسان کام کر رہی ہے ، وہ مشکل کام نہیں کر رہی ہے جس سے تمام سیکٹرز سے قربانی مانگی جائے گی ، اس کی طرٍف حکومت جانے کو تیار نہیں ہے۔

پٹرولیم مصنوعات ، بجلی ، گیس کی قیمتوں میں اضافہ ، کیا آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے؟

ممتاز ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی بنیادی شرط ہے کہ پاکستان کے بجٹ کا خسارہ کم ہو۔ جب ہم آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے لئے جائیں تو اپنا ایک ایجنڈا لے کر جائیں کہ ہم اس طریقے سے اپنا بجٹ خسارہ کم کریں گے۔ تب آئی ایم ایف کو اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ ہم ایجنڈا لے کر ہی نہیں جاتے۔ ایک وزیر خارجہ نے ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ ہمارے لئے بہت آسان ہے کہ ہم آئی ایم ایف کو ذمہ دار ٹھہرا دیں کیونکہ وہ فیصلے ہم اپنے سر نہیں لینا چاہتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلے حکومت پاکستان ہی کے ہیں۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ اس وقت معاملہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ کون سی جماعت حکومت میں ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فیصلہ بیوروکریسی اور فوج نے کرنا ہے۔ یہ دو بڑے ٹکٹ آئٹمز ہیں۔ بیوروکریسی سے زیادہ بڑا آئٹم فوج کا ہے۔ جب تک ہم ان دونوں کے اخراجات کم نہیں کریں گے معاملات درست نہیں ہوسکتے۔ ہم مارجن پر کھیل رہے ہیں لیکن اب مارجن پر کھیلنے کا وقت چلا گیا ۔ ہمیں فوری طور پر ایک بلین روپے کا خرچہ کم کرنا ہے یعنی ایک ہزار ملین روپے۔ اس کے نتیجے میں آئی ایم ایف مطمئن ہوگا ۔ یہ کمی صرف اور صرف بیوروکریسی اور فوج کے اخراجات کم کرنے سے ہوسکتی ہے ، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ آپ چالیس ملین ادھر سے ، پانچ ملین ادھر سے اور پینتیس ملین ادھر سے بچاکر کچھ نہیں کر پائیں گے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی ، پاکستانی ماہر معیشت

حکومت جو قیمتیں بڑھا رہی ہے ، شرح سود بڑھا رہی ہے ، ٹیکسز بڑھا رہی ہے، اس طرح یہ انڈسٹری کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہی ہے ۔ اگر انڈسٹری کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی ، اور وہ بند ہوجائے گی تو برآمدات بھی ختم ہو جائیں گی ۔ اس طرح آپ کا تجارتی خسارہ بڑھ جاتا ہے ۔ پھر مزید قرضوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ہم ایک چکر میں پھنس گئے ہیں ۔ اس چکر سے صرف حکومت ہی نکال سکتی ہے۔ حکومت کا مطلب ہے فوج اور بیوروکریسی۔ یہ کام سیاست دانوں کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ سیاست دان فوج اور بیوروکریسی کے یرغمال ہیں۔

پندرہ سے بیس وزارتیں اور ڈویژنز ایسی ہیں جنھیں ختم کردینا چاہیے۔ سترہ ڈویژنز ختم ہوئے تھے لیکن انھیں پھر بحال کردیا گیا۔ ان سترہ سے کام شروع کریں ۔ اس کے سیکرٹریوں ، ایڈیشنل سیکرٹریوں ، جوائنٹ سیکرٹریوں ، ڈپٹی سیکرٹریوں اور ان کے پورے عملہ کے اخراجات بچ جائیں گے۔

کچھ ایجنسیز ہیں ، وہ بھی بوجھ ہیں۔ مثلا پوسٹ آفس۔ جائزہ لیں کہ ہم نے پچھلے بیس برس سے کتنی بار پوسٹ آفس استعمال کیا۔ کم از کم میں نے نہیں کیا۔ پہلے ایک ڈائریکٹر جنرل ہوتا تھا ، اور ایک ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہوتا تھا۔ اب ایک ڈائریکٹر جنرل ہے اور نو ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ حکومت کے تمام متعلقہ ڈیپارٹمنٹس اور ایجنسیز میں کٹوتی کی ضرورت ہے۔

جہاں تک غیر محارب اخراجات کا معاملہ ہے ، آپ لاہور سے پشاور چلے جائیں ، آپ کو ہر ایک پچیس کلومیٹر کے بعد ایک چھائونی ملے گی۔ یہ تمام چھائونیاں انیسویں صدی میں بنی تھیں کیونکہ برطانوی سلطنت کو زار روس کی طرف سے مداخلت کا خطرہ تھا۔ اب ماسکو تک ہمارے دوستانہ تعلقات ہیں۔ میرا خیال ہے کہ چار ، پانچ چھائونیوں کے علاوہ سب کی سب بند کردینی چاہئیں۔اس سے اخراجات بچیں گے۔ ان کی زمین صوبائی حکومتوں کو دیدیں۔ یہ زمین ویسے بھی صوبائی حکومت کی ہے، انھوں نے لیز پر لے رکھی ہے۔ صوبے اس زمین کو بیچیں ، اس کے نتیجے میں پیسہ آئے گا۔ صوبے کے بجٹ میں پیسے ہوں گے ان کا خسارہ کم ہوگا۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ اسی طرح میں بچت کے دیگر کئی راستے بھی بتا سکتا ہوں۔ ہر ملک میں کوسٹ گارڈز ہوتے ہیں، بھارت میں بھی ہیں۔ لیکن ہم نے ایک ہی کام کے دو ادارے بنا رکھے ہیں۔ کوسٹ گارڈز بھی ہیں اور میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی بھی ہے۔ اس میں سے ایک بند کردیں۔

آئی ایس پی آر کا ڈی جی ، چیف ہوتا تھا ، وہ بریگیڈئیر ہوتا تھا، اب وہ بڑھتے بڑھتے لیفٹیننٹ جنرل تک پہنچ گیا۔ اسے ڈائون گریڈ کریں۔

غیر محارب اخراجات میں کمی کرنے کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔ بعض اخراجات ایسے ہیں ، جنھیں مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ میں زیادہ بات نہیں کرتا۔ یہ دو مثالیں کافی ہیں۔ دو ایجنسیاں نان پروڈکٹو ہیں۔ ایک بیورو کریسی اور دوسری فوج۔ یہ معیشت کو ڈبو رہی ہیں۔ ان کے اخراجات کم کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ سات شعبے ایسے ہیں جنھیں ریاست کی طرف سے خوب مراعات ملتی ہیں۔ ان میں سے ایک شوگر ہے جسے دو مرحلوں میں سب سڈی ملتی ہے۔ پہلے گنا پیدا کرنے والے کو سبسڈی ملتی ہے شوگر ملز کی طرف سے اچھی قیمت کی صورت میں۔ جب اچھی قیمت ملتی ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ گنے کی فصل کاشت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر پروڈکشن سرپلس ہوجاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو شوگر مل والے کہتے ہیں کہ پچھلے سال کی چینی ہمارے گودام میں پڑی ہے ، اس سال ہم گنا نہیں خریدیں گے۔ ایسے میں کاشت کار شور مچاتے ہیں کہ ان کا گنا سڑ جائے گا ، ہم تو مارے جائیں گے۔ پھر حکومت سب کی میٹنگ بلاتی ہے۔ وہاں شوگر مل والے کہتے ہیں کہ ہمیں ایکسپورٹ کی اجازت دیں، تاکہ ہم اپنا گودام خالی کریں ۔ پھر گنا خریدیں اور اسے کرش کریں لیکن چونکہ عالمی سطح پر قیمت کم ہے تو حکومت کو سب سڈی دینا پڑے گی۔ یوں اس انڈسٹری کو حکومت دو بار سبسڈی دیتی ہے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی اور شہباز رانا جیسے ماہرین کی باتوں سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان میں حکومتیں عوام کو اندھیرے میں رکھتی ہیں ، انھیں الو بناتی ہیں ، انھیں لوٹتی ہیں اور پھر اس سارے ظلم و ستم کا الزام آئی ایم ایف پر عائد کردیتی ہیں۔ حالانکہ آئی ایم ایف اپنے قرض کی واپسی کا محفوظ انتظام چاہتا ہے۔ اسے قرض کیسے واپس کریں گے ؟ اگر اس کا اطمینان بخش جواب پاکستانی حکومت دیدی گی تو آئی ایم ایف کو اپنا مشورہ یا پروگرام دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔

اگر حکومت ایسی وزارتیں ، ڈویژنز ، محکمے ختم کردے جو سفید ہاتھی بن چکے ہیں تو یقینا ایک بڑی رقم مستقل بنیادوں پر بچائی جاسکتی ہے۔ ایک بڑے پیمانے پر عوامی بیداری کے ذریعے حکومت کو یہ اخراجات کم کرنے پر مجبور کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر ہمیشہ کی طرح سارے کا سارا بوجھ عوام ہی کو اٹھانا ہوگا۔ یہ بوجھ عوام کو خودکشیوں پر مجبور کرے گا لیکن حکومتوں کو کوئی غرض نہیں ، پاکستانی قوم جیے یا مرے!!۔ بادبان ، عبید اللہ عابد


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں