بیڈ ٹچ

بیڈ ٹچ کا عادی کیسے بنایا جاتا ہے ؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نگہت حسین

کچھ عرصہ قبل ایک گھر جس میں ہم کرایہ دار تھے ، وہاں نیچے کے دو پورشن تھے ۔ ایک میں ہم اور دوسرے میں کوئی اور فیملی تھی ۔ اس فیملی کے ایک دادا ابو تھے ۔ یہی کوئی ستر سال کے صحت مند ، تندرست ، بزرگ ٹائپ بالکل فارغ اور بے ضرر سے ۔

اس مکان کے اوپر ایک فیملی تھی جس کی دس گیارہ سال کی معصوم سی بچی تھی جو نکلتے ہوئے قد کی وجہ سے تیرہ ، چودہ سال کی لگتی تھی ۔

گھر کا لان بہت ہی بڑا تھا تو اکثر بچے عام دنوں میں سہ پہر ، شام اور چھٹی کے دنوں میں صبح اور دوپہر کے اوقات میں بھی کھیلنے کے لئے لان کا ہی رخ کرتے تھے ۔ بچوں میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ تھی تو ہم سب ہی بے فکر رہتے تھے ۔ سب سے اچھی بات یہ کہ ایک دادا تھے جو ہمہ وقت بچوں کی نگرانی اور شفقت ، محبت کے لئے کرسی ڈالے بیٹھے ہوتے ۔ مائیں بالکل ہی بے فکر رہتی تھیں۔

ایک دن دوپہر کے تین بجے تھے کہ مجھے پانی کے پائپ کی ضرورت پڑی تو اس سلسلے میں لان جانا پڑا ۔۔۔۔۔

کام کی دھن میں ، میں نلکے تک پہنچی اور پائپ کھول کر جیسے ہی سر اٹھایا تو گھر کی اندرونی سائیڈ والی گلی کے کونے میں بابا جی اور وہ بچی جو کہ دس گیارہ سال کی تھی ، کچھ عجیب و غریب انداز و کیفیت میں نظر آئے ۔ ایک لمحے میں آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا لیکن کیوں کہ مجھے دادا صاحب دیکھ چکے تھے تو انہوں نے نارملی بچی کو چھوڑ کر سیگرٹ کے کش لگانے شروع کردیے اور بچی پھولی سانسوں کے ساتھ دوڑتی ہوئی تیزی سے اوپر والی منزل چلی گئی ۔

میں نے بھی گھبراہٹ اور پریشانی میں اندر آکر اپنے میاں کو یہ صورتحال بتائی ۔ وہ میری حالت دیکھ کر خود ہی پریشان ہوگئے تھے ۔۔۔ ساری بات سن کر انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ یہ بات کسی بھی طریقے سے اس کی ماں تک پہنچائیں ۔
تاہم میں نے شک اور اتنے بڑے بہتان کا فائدہ دیتے ہوئے ایک دفعہ کی بات کو ، اگرچہ وہ بھی بالکل واضح تھی ، نظر انداز کر کے نگاہ رکھنے کا فیصلہ کیا ۔
ایک مہینے کے دوران میں ہی طرح طرح کے مواقع پر طرح طرح کی باتیں سامنے آنے لگیں ۔
۔
ہوتا یہ تھا کہ بچی دیوانوں کی طرح ان صاحب کے گرد منڈلاتی تھی ۔میرے ایک دو بار پیار ، شفقت اور اعتماد دینے، پھر منع کرنے کے باوجود اس نے اس بابا کے اردگرد رہنا اور گھر کی گلیوں کونوں میں گھسنا ترک نہیں کیا ۔

کافی دفعہ میں نے پریشانی میں بچی کی ماں کو اشارتاً بچی کے حوالے سے سمجھانے اور کہنے کی کوشش کی تب بھی وہ بے چاری کچھ سمجھ نہیں سکی ۔
یہ واقعہ جب بھی یاد آتا ہے میرے جسم میں خوف ، کراہت اور غم و غصے کی ایک عجیب سے لہر دوڑا دیتا ہے ۔

اس سے میں نے یہ سیکھا تھا کہ ہم بچوں کو یہ تو بتاتے ہیں کہ گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کیا ہوتا ہے لیکن یہ نہیں بتا پاتے کہ یہ کس کس طرح سے استعمال ہوتا ہے ۔

زینب کیس یا اسی نوعیت کے کسی دوسرے واقعے میں ایک ہی دن معصوم بچی کو پکڑ کر اپنی خباثت پوری کی جاتی ہے تو یہ بات تو سب کو سمجھ آتی ہے ۔

بسااوقات گھر کا کوئی انتہائی نیک پارسا ، چھوٹا لڑکا ، انتہائی بزرگ اور اسی قسم کا کوئی بھی فرد انتہائی چالاکی سے بچے کو بیڈ ٹچ کا لطف دے کر اسے اپنے قریب کرتا ہے ۔ روز اس کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ اسے اپروچ بھی کرتا ہے اور اس بیڈ ٹچ کو یہ کہہ کر کے یہ پیار ہے اس کو عادی بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔بچہ کسکمسائے تو اسے پیار کہہ کر کمفرٹ دینا کہ وہ آہستہ آہستہ اس بے چینی کو محسوس کرنا چھوڑ کر دوسرے رخ پر دھیان دینا شروع کردے اس طریقہ کار کا ایک رخ ہے ۔

جو کہ نسبتا زیادہ آسان طریقہ ہے بچوں کے ساتھ ابیوز کرنے کا کہ اس میں بچہ خود ہی کسی شخصیت کا غیر معمولی دیوانہ بنتا جارہا ہو ۔ پھر گھر والے بھی شک نہیں کرتے ۔

سمجھیے کہ بیڈ ٹچ کیا ہے ۔۔۔؟

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بچے کو اس کا پتہ نہیں ؟
جی نہیں ۔۔ ۔ فطری طور پر معصوم بچے بلکہ ہر عمر و جنس کا فرد بیڈ ٹچ کو فوری طور پر پہچان لیتا ہے ۔اسے بے چینی ، گھبراہٹ ہوتی ہے ، ایسے میں بچے سہم جاتے ہیں ، ہراساں ہو جاتے ہیں بلکہ یہ بیڈ ٹچ تو ایسی چیز ہے کہ اگر ماں باپ بھی کریں گے تو بچہ بے چینی محسوس کرے گا اور دوبارہ اس چیز سے کترائے گا ۔

ایسے مواقع پر ایسا کرنے والا بچے کو مطمئن کرے گا کہ یہ تو پیار ہے ، تم عجیب محسوس نہ کرو تاکہ کچھ ہی دنوں میں اس بیڈ ٹچ سے آگاہ کرنے والا قدرتی الارم بند ہو جائے اور بچہ اس کا عادی ہو جائے ۔

دھیان رکھیے کہ کوئی بھی شریف ، صاحب عزت اور ایمان بچانے والا کسی کی بچی کو جو اس کی رشتے میں محرم نہیں لگتی ، چاہے چھوٹی ہو یا بڑی اپنے سے جسمانی طور پر قریب کرنے کی کوشش نہیں کرے گا ۔ گود میں بٹھانا ، بازو جوڑ کر بیٹھنا ، اندھیرے کمرے میں اکیلے بیٹھنا ، بوسہ لینا ، گالوں کو ہاتھ لگانا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ کوئی بچی کسی محرم رشتے کی محرومی کی وجہ سے کسی مرد کی محبت و شفقت کی وجہ سے اس کے قریب بھی ہوگی تو صاحب ایمان شخص اس کو سمجھا کر دور کرے گا ، بتائے گا کہ یہ مناسب بات نہیں ۔

حیادار گھروں میں تو بہن ، بھائی اور باپ بیٹی کے درمیان بھی ایک تقدس و پاکیزگی کی حد ہوتی ہے جو کراس نہیں کی جاتی ہے۔ یہ فلموں اور اسکرین میں بھائی اور باپ اپنے محرمات سے جو قربت اختیار کرتے ہیں ، وہ ہمارے گھروں کے مناظر نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ اس لئے ہوشیار رہیے ۔

یاد رکھیے یہ سب انتہائی معیوب اور قابل اعتراض عمل ہے ۔ کوئی قریبی رشتے دار بھی ایسا کرتا ہے ( چاہے وہ کتنا ہی محترم ہو ) تو اپنی بچی کے لئے ایسی باتوں ہر احتجاج کریں ۔ چاہے وہ اس بات پر برا مانیں یا ناراض ہوں ۔

بحیثیت والدین بچہ آپ کے پاس ایسی کوئی بات لے کر آئے تو اسے توجہ سے سنیے ، اعتماد دیجیے ، دلاسہ دیجیے اور اس کو اس عمل سے نفرت دلائیے ۔ بتائیے کہ ایک گندی چیز ہے ، اس کو پسند نہیں کرتے اور تم بہت بہادر ہو کہ مجھے یہ بات بتائی ۔

یاد رکھیے جو لوگ بیڈ ٹچ کو پیار کا نام دے کر اپنے سے قریب کر تے ہیں ، وہ دراصل لطف اٹھانے کا عمل ہے جو بچے کو بیڈ ٹچ کا عادی بنانا اور اس عمل میں باہمی رضامندی کے عنصر کو شامل کر کے لوگوں کی نگاہوں میں دھول جھونکنا ہے ۔

۔ اسی لئے سانپ کا پھن پھیلنے سے پہلے کچل دیجیے ۔۔۔۔۔ ایسی کسی بھی کیفیت کے بعد بچے کو سنیے ، اس کی کسی حرکت سے اچانک خوف زدگی کو محسوس کیجیے تو اس کی اچانک نفرت اور دوری سے فہم کشید کیجیے ۔

خاص طور بہت قریبی اور اعتماد کے فرد کے بیڈ ٹچ کو بھی بچہ اچھا محسوس نہیں کرتا اور پہلی دفعہ میں اپنی بے چینی شرمندگی گھبراہٹ و خوف کی حالت کو بالکل درست اور مکمل بیان کرتے ہیں کیوں کہ فطرت انہیں اپنے الارم سے آگاہ کرتی ہے کہ یہ غلط ہے پسندیدہ نہیں ہے۔

بچہ اس ٹچ سے اپنی عزت نفس مجروح کرواتا ہے ، بے عزتی محسوس کرتا ہے اس کا اعتبار مان ٹوٹتا ہے اس کے دل میں اعتماد بھروسے کو ٹھیس لگتی ہے ۔۔۔۔۔۔ایک بہت ہی ٹرامیٹک کیفیت سے دو چار ہوکر آتا ہے اس لئے چاہے وہ وقفے وقفے سے بتاے کہ ایک ہی دفعہ ۔اس پر یقین کر کے جو بھی ضروری اقدامات یوں وہ لازمی کیجیے ۔۔۔۔

اس کام کے لئے بچوں کو سب سے آسان ہدف سمجھا جاتا ہے کہ وہ نا سمجھ ہیں اور خوف زدہ ہوجائیں گے یا ان کی بات کو جھٹلا دیا جائے گا ۔ اس کے علاوہ ان کے لبھانے کے طریقے آسان ہوتے ہیں۔

جیسے کہ پہلے بچے ٹافی اور چاکلیٹ کے لالچ میں اغوا ہوتے تھے اب موبائل کمپیوٹر اور گیمز کی لالچ میں ہوش کھوتے ہیں ۔۔۔۔اس لئے پہلا ہاتھ روک دیجیے ، چاہے آپ کی اپنی جان خطرے میں پڑ جائے ۔۔۔۔
اپنے گھروں کو بچوں کی عزت کے لئے بھی حفاظتی قلعے بنائیے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں