شبانہ ایاز ، پاکستان اور ترکیہ کے پرچم

پاکستان ترکیہ دوستی مسائل سے دوچار ہو رہی ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شبانہ ایاز

گزشتہ روز ترکیہ استنبول میں حکمران آق پارٹی کی مقامی نمائندہ خاتون نوری موسلو نے مجھے اپنے گھر چائے کی دعوت پر بلایا ۔یہ میری ان سے دوسری ملاقات تھی۔میں ان کے عمدہ اخلاق اور رکھ رکھاؤ سے بے حد متاثر تھی۔

ہمارے درمیان ہونے والی گفتگو میں جہاں دیگر امور پر بات چیت ہوئی ، وہیں پاکستانیوں کو ترکیہ میں رہائش کے حوالے سے درپیش مسائل پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی۔

نوری موسلو نے بتایا کہ افغان شہریوں کی مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے ترکیہ کے لوگ غیر ملکیوں کا یہاں رہنا سخت نا پسند کرنے لگے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر طیب اردوان کے حامی عوام پاکستان سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ وہ یہ ضرب المثل استعمال کرتے ہیں کہ "جب پاکستان کا نام لیا جاتا ہے تو بہتا پانی رک جاتا ہے۔”( یعنی پاکستان کا نام آنے کے بعد سب کچھ بے معنی ہو جاتا ہے ۔)

نوری موسلو کے ساتھ مضمون نگار محو گفتگو

ترکیہ کی موجودہ قیادت نے اپنی عوام کو یہ باور کروایا ہے کہ ترکیہ کی جنگ آزادی میں پاکستانیوں نے ان کی دل کھول کر مدد کی تھی یہاں تک کہ خواتین نے اپنے زیورات تک ترکوں پر لٹا دیے تھے۔ نوری موسلو نے اظہار تشکر کے لہجے میں مجھے بتایا کہ ہم پاکستان کے اس قربانی کے جذبے کو آج تک نہیں بھولے۔

یہاں پر یہ بتاتی چلوں کہ
ترکیہ میں غیرملکیوں کی رہائش کے لیے دو اہم طریقہ کار ہیں۔ جو لوگ یہاں سکونت اختیار کرنا چاہتے ہیں ان میں سے ایک طریقہ رہائشی اجازت نامے کا حصول ہے جسے کملک یا TRC ( temporary resident card)
کہا جاتا ہے۔

دوسرا طریقہ ترک شہریت کا حصول ہے۔
شہریت کے حصول کے لیے 2022 کے اوائل تک 250000 ڈالر کی پراپرٹی لینے کا قانون تھا۔ تیرہ اپریل دو ہزار بائیس کو ترک کابینہ کے اجلاس کے فیصلے کے مطابق ترک شہریت ڈھائی لاکھ ڈالر سے بڑھا کر چار لاکھ ڈالر تک کردی گئی ہے۔ یہ پراپرٹی ترکیہ کے قانون کے مطابق تین سال تک فروخت نہیں کی جاسکتی۔

سرمایہ کاری کی اس رقم کو تین سال کے لیے ترک لیرا کے ذخائر اور ترکی لیرا سے منسوب سرکاری قرض کے آلات میں رکھا جاتا ہے اور اس سے متعلق معاملات کا تعین مرکزی بینک کرتا ہے۔ شہریت کے عمل کی نگرانی کے لیے سٹیزن شپ سپر ویژن کمیشن کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہے۔

ترکیہ کے اعداد و شمار کے انسٹی ٹیوٹ Turk stat کی ایک تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ ترکیہ میں تقریبا دو ملین غیر ملکی گھر خرید کر رہ رہے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد کے ساتھ اب ترک شہریت کا حصول ایک انتہائی کٹھن مرحلہ بن چکا ہے۔

شہریت کے علاوہ ترکیہ میں قانونی طور پر رہنے کے لئے رہائشی اجازت نامے( کملک) کا اجراء ضروری ہے۔ اس کے بغیر غیر ملکی ترکیہ میں مقیم نہیں رہ سکتے۔ چند سال قبل کرائے کے گھر میں مقیم غیر ملکیوں کو دو سال تک رہنے کا اجازت نامہ( کملک) مل جاتا تھا ۔ جب وہ دو سال پورے ہو جاتے تو پھر اگلے دو برسوں کے لئے کارڈ کا اجراء کردیا جاتا تھا۔ لیکن اب یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔ اب کرائے کے گھروں میں رہنے والے غیر ملکیوں کو کملک کارڈ نہیں دیئے جارہے ہیں۔

کرائے کے گھروں میں رہنے والے غیر ملکی واپس اپنے ملکوں میں چلے گئے ہیں۔ اب رہائشی اجازت نامے کے لئے غیر ملکیوں کو 75000 ڈالر مالیت کا گھر خریدنا ضروری ہے۔ رہائش کے لیے خریدے گئے گھر کی بنیاد پر گھر کے مالک کو تو دو سال کیلئے کملک ملتا ہے لیکن گھر کے دیگر افراد کو صرف ایک سال یا چھ ماہ کے لئے۔ کملک کارڈ کے حصول کے لیے دی گئی درخواست پر عمل درآمد بہت تاخیر سے ہوتا ہے۔ خصوصا پاکستانیوں کو بہت تاخیر سے کارڈ کا اجراء کیا جاتاہے۔ اس کی وجہ غیر ملکیوں خصوصاً افغانستان اور پاکستان کے شہریوں کا ترکیہ میں ناپسندیدہ ہونا ہے۔

حکومت کے حامی افراد کے علاوہ دیگر عوام غیر ملکیوں کا ترکیہ میں رہنا سخت نا پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امیگریشن آفس میں موجود یہ افراد بالخصوص پاکستان اور دیگر غیر ملکیوں کی فائلوں کو معمولی سی وجہ پر روک کر رکھتے ہیں۔ نہ کوئی معلومات دیتے ہیں اور نہ ہی تعاون کرتے ہیں۔ کارڈ ایکسپائر ہونے سے ایک یا دو ماہ پہلے کارڈ ایشو ہوتا ہے۔ جیسا کہ میرے ساتھ ہوا ۔ میں نے کارڈ دو سال کے لئے اپلائی کیا تھا لیکن مجھے ایک سال کے لئے کارڈ کی منظوری ملی اور آٹھ ماہ بعد کملک کارڈ ملا۔ پاکستان آنے اور دوبارہ اپلائی کرنے کے لئے میرے پاس چار ماہ بچے تھے۔ یاد رہے کہ جب تک کارڈ نہ ملے بیرون ملک سفر نہیں کیا جا سکتا۔

اس ساری سختی اور پابندیوں کے پیچھے بھی کچھ وجوہات ہیں۔

ترکیہ میں چند برسوں سےغیر قانونی تارکین وطن کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ یہ غیر قانونی تارکین وطن زیادہ تر پاکستان ، افغانستان اور ایران سے یورپ میں داخل ہونے کی خواہشات کے ساتھ ترکیہ آتے ہیں۔

افغانستان سے آئے افغانوں کی صرف استنبول میں تعداد چار لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر اغوا برائے تاوان کے گھناؤنے جرم میں ملوث ہیں اور خوفناک بات یہ ہے کہ متاثرین کی طرف سے ان جرائم کا اندراج نہیں کیا جاسکتا کیونکہ متاثرین میں زیادہ تر غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔

ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے کہ اغواء کنندہ کی حراست کے دوران میں ان کے والدین کو خوفناک تشدد کی ویڈیو بھیجی گئیں اور بھاری رقم تاوان کے طور پر وصول کی گئی۔ اغوا کی یہ رقم یونان یا اٹلی میں وصول کی گئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا نیٹ ورک مختلف ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔

ان افغانوں کو یہ پتہ ہے کہ انہیں اگر گرفتار کر بھی لیا گیا تو انہیں سزا نہیں دی جاسکتی۔کیونکہ حکومت ترکیہ کے پاس متاثرین (تارکین وطن) کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں اور نہ ہی وہ پولیس کو ان کے خلاف شکایت درج کروا سکتے ہیں۔ اس لئے تاوان کی رقمیں وصول کرتے کرتے یہ بڑے مافیا بن گئے ہیں۔ اور مختلف ممالک میں جرائم کا نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔

چار لاکھ سے زائد مجرمانہ ذہنیت کے حامل،منشیات کے تاجر اور اسلحہ کے حامل افغان جن کا دنیا بھر میں وسیع نیٹ ورک ہو وہ ترکیہ میں دندناتے پھر رہے ہوں ۔ یہ چیز ترکیہ کے عوام کے لئے سخت ناپسندیدہ اور خوفناک ہے۔ اسی بنا پر ترک لوگ اپنی حکومت سے انتہائی ناراض ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان افراد کو ملک میں کسی صورت نہ آنے دیا جائے اور نہ رہنے دیا جائے ۔

دوسری جانب گزشتہ برس 2022 کے اوائل میں پاکستانی نوجوانوں نے بے ہودہ حرکتوں سے پاکستان کا نام بدنام کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ان اوباش نوجوانوں نے ترک لڑکیوں کی بلا اجازت غیر اخلاقی ویڈیوز بنائیں اور ان پر بے ہودہ ریمارکس دیتے ہوئے ان ویڈیوز کو ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا سائیٹس پر اپ لوڈ کیا ۔

اس سے پاکستان اور ترک دوستی کو اپنی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھنے والی قوتوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف ٹویٹر پر ٹرینڈ چلایا : "پاکستانی گیٹ آوٹ” جو کافی دنوں تک چلتا رہا ۔ اس دوران میں چند پاکستانیوں کی جانب سے دو نیپالی باشندوں کے اغوا کی خبر کو بڑے نمایاں انداز میں میڈیا پر پیش کیا گیا۔ اس مہم کا مقصد ترکیہ میں دشمن عناصر کی طرف سے انتشار پیدا کرنا، کینہ، نفرت اور اشتعال انگیزی پھیلانا تاکہ 2023 کے انتخابات پر اثرانداز ہوا جا سکے۔

ترکیہ کی ایک سیاسی جماعت ظفر پارٹی نے پاکستانی باشندوں کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ شدت سے شروع کر دیا تھا جسے پاکستان دشمن میڈیا نے نمایاں کوریج دی تھی۔ یہی عناصر شامی پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کی بھی مہم چلا چکے ہیں۔

صدر طیب اردوان کی مخالف سیاسی پارٹیاں غیر ملکیوں کو ترکیہ میں رہائش دینے کے اقدام کی مخالفت عوام میں پھیلا چکی ہیں۔ اسی لیے غیر ملکیوں کے لیے شدید ناپسندیدگی دیکھنے کو ملتی ہے خصوصاً افغانستان، شام اور پاکستان۔

ترک حکومت 2023 کے انتخابات میں عوام کے غم وغصہ سے بچنے کے لیے ، ان کا مطالبہ مانتے ہوئے غیر ملکیوں کے خلاف سخت اقدامات کررہی ہے،اسی طرح غیر قانونی طور پر ترکیہ میں آنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی تیزی سے ہورہا ہے۔

ترکیہ کے ڈائریکٹوریٹ آف مائیگریشن مینجمنٹ کی ہفتہ وار غیر قانونی امیگریشن رپورٹ کے مطابق 1789 غیر قانونی تارکین وطن کو پکڑا گیا اور 1987 غیر قانونی تارکین وطن کو 17 سے 23 فروری 2023 کے درمیان ترکیہ سے ملک بدر کیا گیا۔ نئے سال سے 23 فروری 2023 تک 16,729 غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے ممالک بھیجا گیا، جن میں سے 5,488 کا تعلق افغانستان سے، 1155 کا پاکستان اور 10,086 کا دیگر قومیتوں سے تھا۔

اس سب کے باوجود صدر طیب اردگان کے حامی عوام آج بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوری موسلو نے مجھے بہ حیثیت پاکستانی بہت محبت اور عزت سے نوازا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں