محمد عمر

کابل کے مشہور پل سوختہ سے سابقہ امریکی فوجی اڈے تک

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فریحہ حسین

گزشتہ بی بی سی کی ایک رپورٹ نظر سے گزری۔ افغانستان بہت عرصے سے منشیات کا گڑھ رہا ہے۔ طالبان کی موجودہ حکومت کے دور میں بھی یہ کاروبار عروج پر ہے۔ وہی منشیات ڈیلر جو پہلےکرپٹ افغان اہلکاروں کو خفیہ طور پر رشوت دے کر مال فروخت کرتے تھے، اب کھلے عام بازاروں میں بیچنے کے لیے موجود ہیں۔

ان میں سےایک ڈیلر نے مسکراتے ہوئے کہا:’جب سے طالبان نے ملک آزاد کیا ہے، ہم بھی آزاد ہو گئے ہیں۔’

افغانستان میں طالبان کے دوسری بار برسراقتدار آنے کے بعد سے امریکہ سمیت عالمی طاقتوں اور اداروں کی جانب سے امداد روک لی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ملکی معیشت دگرگوں حالت میں ہے۔ ایسے میں یہاں کے کسان پوست کی کاشت کے ذریعے اپنے خاندانوں کی کفالت کی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں۔ دوسری طرف خشک سالی اور پانی کی کمی بھی پوست کی کاشت کی اہم وجہ ہے۔

طالبان کے پہلے دور میں افیون کی کاشت پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے افیون کی کاشت پر ٹیکس لگا کر اسے آمدن کا ذریعہ بنا لیا ہے۔

افغانستان کے بڑے حصے کی معیشت اب منشیات کے کاروبار سے منسلک ہو گئی ہے۔ ہلمند کے قریب گندم ریز نامی چھوٹے دیہاتوں کا ایک سلسلہ ہے جہاں تک پہنچنے کا واحد راستہ ایک کچی سڑک ہے۔اور یہی پسماندہ اور دورافتادہ مقام اس وقت منشیات کاعالمی مرکز ہے۔ یہاں بغیر کسی رکاوٹ کے بازاروں میں افیون کی فروخت ہوتی ہے۔

یہاں ایسے لا تعداد کارخانے موجود ہیں جو افیون سے ہیروئن تیار کرتے ہیں۔ ہر کارخانہ 60-70 مقامی افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ یہاں سے ہیروئن پاکستان، ایران اور یورپ سمیت دنیا کے دیگر علاقوں تک سمگلنگ کے ذریعے پہنچائی جاتی ہے۔

افغانستان میں بننے والی منشیات صرف بر آمد ہی نہیں کی جاتیں بلکہ خود افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد منشیات کی عادی ہوتی جا رہی ہے۔ اکثر اوقات طالبان انہیں اٹھا کر منشیات بحالی سینٹرز پہنچا دیتے ہیں۔

‘میں ایک پُل کے نیچے اس انتظار میں بیٹھا تھا کہ کچھ منشیات حاصل کر سکوں۔ اسی دوران میں نے محسوس کیا کہ ایک ہاتھ نے مجھے پیچھے سے پکڑ لیا۔ مڑ کے دیکھا تو وہ طالبان تھے۔ وہ ہمیں لے جانے کے لیے آئے تھے۔‘

یہ محمد عمر ہیں۔جو اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ کیسے مغربی کابل کے پلِ سوختہ پر سے طالبان کے سپاہی انہیں اٹھا کر لے گئے تھے اور منشیات بحالی سینٹرز میں چھوڑ آئے تھے۔

پچھلے کچھ عرصہ میں طالبان نے پورے دارالحکومت میں پلوں، پارکوں اور پہاڑی چوٹیوں سے منشیات کے عادی سینکڑوں شہریوں کو اٹھایا ہے۔ ان میں سے اکثر کو کابل میں منشیات کے بحالی مرکز میں رکھا جا رہا ہے۔ منشیات بحالی کا یہ عارضی مرکز درحقیقت سابق امریکی فوج کا اڈہ تھا۔

افغانستان دنیا میں ’منشیات کا عادی دارالحکومت‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ‘بیورو آف انٹرنیشنل نارکوٹکس اینڈ لا انفورسمنٹ’ جیسے منشیات کی روک تھام والے ادارے کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 4کروڑ کی آبادی والے ملک افغانستان میں تقریباً 35 لاکھ لوگ کسی نہ کسی نشے کےعادی ہیں’۔

پل سوختہ کے نیچے اکثر سینکڑوں افراد کو کوڑے کے ڈھیر، سرنجوں اور ان افراد کی لاشوں کے درمیان بیٹھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جو ضرورت سے زیادہ نشے کی خوراک لینے کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

ان کی سب سے مقبول منشیات ہیروئن یا میتھامفیٹامین ہیں۔

پل کے نیچے بدبو کا دور دورہ ہے۔ اکثر کتے کوڑے کے ڈھیر میں کھانے کے ٹکڑوں کی تلاش میں گھومتے نظر آتے ہیں۔ اور اس پل کے اوپر ٹریفک اور زندگی رواں دواں ہے، سڑکوں کے اطراف دکانیں لگی ہیں۔ لوگ سامان کی خرید و فروخت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ دوسری طرف مسافر مقامی بس سٹیشن پر بسیں پکڑنے کے لیے دوڑ بھاگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

عمر کہتے ہیں: ’میں وہاں اپنے دوستوں سے ملنے جاتا اور کچھ نشہ کرتا۔ مجھے موت کا ڈر نہیں۔ موت بہرحال خدا کے ہاتھ میں ہے۔‘

طالبان نے ملک پر حالیہ قبضے کے دوران منشیات کے عادی افراد کو سڑکوں سے ہٹانے اور انھیں بحالی مرکز منتقل کرنے کے لیے زیادہ جارحانہ پالیسی اختیار کی ہے۔

عمر کہتے ہیں: ’وہ ہمیں مارتے ہیں اور کوڑے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ میں نے مزاحمت کے دوران اپنی انگلی تڑوا لی کیونکہ میں پل کے نیچے سے نہیں جانا چاہتا تھا۔ پھر بھی انہوں نے ہمیں زبردستی اٹھا لیا‘

عمر کو درجنوں دیگر افراد کے ساتھ بس میں ٹھونس دیا گیا۔

طالبان حکومت کی طرف سے دکھائی جانے والی ایک فوٹیج کے مطابق، ان کے فوجیوں کی جانب سے نشے کے عادی افراد کے علاقے کی صفائی کی گئی۔ زیادہ مقدار میں نشہ آور ادویات لینے سے مر جانے والوں کی بے جان لاشوں کو سیاہ سرمئی شالوں میں لپیٹ کر دفنانے کے لیے منتقل کیا گیا۔ منشیات کی زیادہ مقدار لینے سے بے ہوش ہونے والوں کو سٹریچر پر ڈال کے بحالی مر کز تک لے جایا گیا۔

عمر کو جس بحالی مرکز لے جایا گیا۔ اس میں 1,000 بستر تھے اور اس وقت وہاں 3,000 مریض تھے۔ حالات ناگفتہ بہ تھے۔ اس مرکز میں منشیات کے عادی افراد کوتقریباً 45 دنوں تک رکھا جاتا تھا اور رہائی سے پہلے ایک سخت پروگرام سے گزرا جاتا تھا۔ مگر اس سب کے باوجود اس بات کو یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ پھر سے اس لت کے عادی نہیں ہوں گے۔مگر یہ سلسلہ جاری ہے۔

اگرچہ سڑکوں سے اٹھا کربحالی مرکز میں داخل کرائےجانے والے افراد میں زیادہ تر مرد ہیں لیکن ان میں کچھ خواتین اور بچے بھی ہیں۔

کابل میں مرکز کے کمرے میں موجود باقی نشے کے عادی افراد کی طرح عمر بھی شدید طور پر کمزوری محسوس کرتے تھے۔ حکام نے انہیں جو بھورا لباس فراہم کیا تھا وہ اسے پہننے پر آمادہ نہیں تھے جبکہ ان کے چہرے پر بے رونقی تھی۔

اپنے بستر کے ایک کنارے پر بیٹھے وہ اپنی پرانی زندگی کو یاد کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا: ’میرا ایک دن کا سورج دبئی میں طلوع ہوتا تھا، اگلے دن کا ترکیہ اور پھر ایران میں۔ میں نے کام ایئر کے ساتھ فلائٹ اٹینڈنٹ کے طور پر دنیا کو دیکھا اور اکثر سابق صدور کی طرح وی آئی پی مہمان ہمارے طیارے میں ہوتے تھے۔‘

سقوط کابل کے بعد، بگڑتے ہوئے حالات کی وجہ سے ان کی نوکری چلی گئی۔ معاشی مشکلات اور غیر یقینی مستقبل کے خوف نے انھیں منشیات کی طرف راغب کیا۔

1990 کی دہائی میں جب طالبان اقتدار میں تھے تو انھوں نے پوست کی کاشت پر پابندی عائد کی تھی لیکن اس کے باوجود افغانستان پر امریکی حملے سے پہلے طالبان کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ منشیات کا کاروبار ہی تھا۔

حالیہ دور میں طالبان کے مطابق وہ پوست کی تجارت کو ختم کرنے کی پالیسی نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2021 کے مقابلے 2022 میں پوست کی کاشت میں 32 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔اس کی بنیادی وجہ افغانستان کی معاشی صورتحال ہے۔ بین الاقوامی امداد میں کمی، سالمیت کے خطرات، موسمی شدت سے متعلق مسائل اور افراط زر نے افغانستان میں پوسٹ کی کاروبار کو چمکا دیا ہے۔

بحالی مرکز میں آنے کے بعد سے عمر نے خود کو تبدیل کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔

اب ان کا کہناہے: ’میں شادی کرنا چاہتا ہوں، ایک خاندان بنانا چاہتا ہوں اور ایک عام زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ یہ ڈاکٹر بہت مہربان ہیں۔ وہ ہماری مدد کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔‘

مرکز کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ابتدائی سطح کی کوشش ہے۔ طالبان مزید لوگوں کو مرکز میں لاتے رہتے ہیں اور مرکز کا عملہ ان کے لیے جگہ بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

ایک ڈاکٹر نے محمد عامر کو بتایا: ’ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی برادری نے ہمیں تنہا کر دیا ہےاور ہمیں معاشی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس سب سے ہمارے مسائل مزید بڑھ گئے ہیں ۔‘

’اس گروپ میں بہت سے پیشہ ور افراد ہیں۔ سمارٹ، پڑھے لکھے لوگ جو کبھی اچھی زندگی گزارتے تھے لیکن ہمارے معاشرے میں مشکلات، غربت اور ملازمتوں کی کمی کی وجہ سے وہ راہ فرار کی تلاش میں تھے۔‘

بحالی کے مرکز میں لوگوں کی بھیڑ اور وسائل کی کمی کے باوجود وہاں کے ڈاکٹر نشے کے عادی افراد کو زندگی کی طرف لانے کے لیے ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘اس بات کا کوئی یقین نہیں ہے کہ یہاں سے جانے کے بعد یہ پھر سے اس کے عادی نہ ہوں۔ لیکن ہمیں کوشش کرتے رہنے کی ضرورت ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں انہیں مستقبل کے لیے امید دلانے کی ضرورت ہے۔ لیکن ابھی ایسا نہیں ہے۔‘

،اس سب کچھ کے تناظر میں میرا ایک سوال ہے کہ کیا افغانوں کو منشیات کا عادی بننے اور منشیات کا کاروبار کرنے پر عالمی طاقتیں مجبور نہیں کر رہی ہیں؟ جب آپ امریکا سمیت مغربی طاقتیں افغانستان کے اکائونٹس منجمد کردے گا تو افغانوں کو جینے کا کوئی راستہ تو چاہیے! وہ منشیات فروخت کریں گے، اور جو لوگ ایسا نہ کرسکیں، وہ منشیات استعمال کرکے کچھ ‘سکون’ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

طالبان نے اب دوسری بار افغانستان کا کنٹرول سنبھالا ، انہوں نے دنیا کو واضح اشارے دیے کہ وہ مختلف طالبان ثابت ہوں گے لیکن عالمی طاقتیں چاہتی ہیں کہ وہ پہلے جیسے طالبان ہی رہیں تاکہ مستقبل میں بھی افغانستان میں کوئی کھیل کھیلنے کا موقع ملے تو اس سے فاائدہ اٹھایا جائے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں