عبدالرشید ترابی، سابق امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر

کشمیر کاز کی خاطر ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کی لیکن حمایت نہ ملی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے سابق امیر عبدالرشید ترابی سے خصوصی انٹرویو

انٹرویو: شبانہ ایاز

گزشتہ دنوں ترکیہ کے دورے پر آئے ایک کشمیری وفد سے مجھے ملاقات کا اتفاق ہوا جس کی قیادت جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے سابق امیر اور سابق رکن قانون ساز اسمبلی عبدالرشید ترابی کر رہے تھے۔ ان کے وفد میں پاکستان ترکیہ یک جہتی فورم کے چیئرمین ڈاکٹر ندیم چوہدری، تحریک کشمیر ترکیہ کے کنوینئر شیخ طلحہ، حریت کانفرنس کے رہنما اعجاز احمد شاہ،انقرہ سے ڈاکٹر کمال ،ڈاکٹر شوکت اور TRT کے نمائندہ فہد شامل تھے ۔

جناب عبدالرشید ترابی سے گفتگو کے دوران میں ان کی ترکیہ آمد کے مقاصد سمیت دیگر مختلف امور زیربحث آئے۔یوں یہ گفتگو ایک انٹرویو کی شکل اختیار کر گئی۔ پہلے جناب عبدالرشید ترابی سے ہونے والی گفتگو کا احوال پڑھ لیں۔
جناب عبدالرشید ترابی سے پہلا سوال تھا کہ آپ ترکیہ میں کس کی نمائندگی کررہے ہیں؟؟
ترابی صاحب کہنے لگے کہ ہم جماعت اسلامی آزاد کشمیر، حکومت آزاد کشمیر، کشمیر کی ساری سیاسی جماعتوں اور کشمیری عوام کے نمائندہ بن کر ترکیہ آئے ہیں۔

آپ کی آمد کے مقاصد کیا ہیں؟ ترابی صاحب کہنے لگے: ‘ہماری آمد کے مقاصد میں شامل سب سے پہلا اور بڑا مقصد تھا، متاثرین زلزلہ ترکیہ کے ساتھ اہل کشمیر کے مظلوم مسلمانوں اور پاکستان کے باشعور مسلمانوں کی طرف سے اظہار یکجہتی کرنا اور یہ پیغام دینا کہ پاکستان کا بچہ بچہ ترک بھائیوں کے غم میں برابر کا شریک ہے اور متاثرین زلزلہ کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال، بھارتی مظالم اور عزائم خصوصاً ڈیموگرافی کی تبدیلی کے حوالے سے ترکیہ حکومت کو آگاہی دینا بھی ہمارے مقاصد میں شامل تھا۔

عبدالرشید ترابی، سابق امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر سے شبانہ ایاز کا انٹرویو

میں نے پوچھا کہ آپ کے دورے کا دورانیہ کتنا ہے؟ ترابی صاحب کہنے لگے:’ ترکیہ میں ہمارا 10دن کا دورہ ہے جس میں ہم نے ترکیہ کی حکمران پارٹی سمیت دیگر سیاسی و اسلامی جماعتوں کے قائدین سے بھی ملاقات کرنی ہے۔ اس کے علاوہ زلزلے کی جگہوں کا دورہ بھی مقصود ہے۔

میں نے پوچھا کہ کیا آپ متاثرین زلزلہ کے لیےکوئی امدادی فنڈز یا سامان بھی لائے ہیں؟ جناب عبدالرشید ترابی نے بتایا کہ کشمیری عوام کی طرف سے فنڈز ‘الخدمت فاؤنڈیشن’ کے ذریعے فوری طور پر زلزلہ زدگان کے لیے بھیجے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار تنویر الیاس کی جانب سے 55 کروڑ روپے کی امداد کا چیک بھی ترکیہ کے سفیر کو اسلام آباد میں دیا جاچکا ہے۔ البتہ زلزلے کی جگہوں پر دورے کے دوران متاثرین میں مقامی این جی او کے ذریعے گرم کپڑوں کی تقسیم کی جائے گی۔

اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے جناب عبدالرشید ترابی سے چند ایسے اہم سوالات پوچھے جو بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں کلبلاتے رہتے ہیں۔ پوچھا کہ آزاد کشمیر کے گزشتہ عام انتخابات میں آپ نے کس حیثیت سے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کیا؟ کیوں اور کس تناظر میں کیا تھا؟

ترابی صاحب نے اس سارے معاملے کا احوال کچھ یوں سنایا:’ انتخابی مفاہمت میں ایک نشست پر حمایت کے بدلے طے پایا تھا کہ تمام جماعتوں، حریت کانفرنس اور بین الاقوامی محاذ پر کام کرنے والے کشمیری رہنماؤں پر مشتمل ایک پلیٹ فارم ہماری رہنمائی میں تشکیل دیا جائے گا جو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ذرائع ابلاغ اور سفارتی حلقوں کو متحرک رکھے گا۔

ہمیں توقع تھی کہ کشمیر کاز کی خاطر جماعت اسلامی اس فیصلے کی تائید کرے گی، یوں ہم تمام کشمیری قیادت اور حریت کانفرنس کی مشاورت سے جامع حکمت عملی تشکیل دیتے۔ حکومت بھی فیصلوں کی پابند ہوتی۔ دنیا کے مختلف مراکز میں بین الاقوامی کانفرنسوں کے انعقاد کے علاوہ مظفرآباد میں ایک بین الاقوامی پارلیمانی کانفرنس بھی زیر تجویز تھی۔

اسی طرح دنیا بھر کے اہل دانش کو مسئلہ کشمیر کی آگاہی کے علاوہ حکومت پاکستان اور اس کے پالیسی ساز اداروں کو اجتماعی دباؤ سے تحریکی مقاصد سے ہم آہنگ رکھنا بھی ایک ہدف تھا لیکن جب جماعت اسلامی نے فیصلے کی توثیق نہ کی اور پابند کیا کہ ایسے کسی پلیٹ فارم کی ضرورت نہیں ہے تو جماعت اسلامی کے فیصلے کے مطابق میں نے نہ فالواپ کیا اور نہ حکومت سے کوئی رابطہ رکھا ورنہ ہم اس تدبیر سے یقیناً کچھ پیش رفت کرتے۔

ترابی صاحب نے بتایا کہ یہ اطلاعات غلط ہیں کہ میں حکومت کا اتحادی ہوں۔ میری کوئی اتحادی حکومت نہیں ہے اور نہ اس حکومت کی کشمیر کے حوالے سے کارکردگی بیان کرنے کی کسی پوزیشن میں ہوں۔

عبدالرشید ترابی، سابق امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر سے شبانہ ایاز کا انٹرویو

ترابی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر ایک نیا فرد ہے جسے زیادہ تجربہ بھی نہیں ہے۔ البتہ وزیر اعظم آزاد کشمیر سید علی گیلانی مرحوم اور جماعت اسلامی کے کردار کی ہمیشہ تحسین کرتے ہیں۔ ان کا آزاد کشمیر یونیورسٹی کو سید علی گیلانی مرحوم کے نام سے موسوم کرنے کا فیصلہ خوش آئند اقدام ہے۔

ترابی صاحب سے میرا آخری سوال تھا کہ اس وقت جماعت اسلامی میں آپ کا کیا اسٹیٹس ہے؟ کہنے لگے کہ میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق صاحب کا مشیر برائے امور کشمیر اور جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی مرکزی شوریٰ کا رکن ہوں۔

عبدالرشید ترابی کی قیادت میں کشمیری وفد کی ترکیہ میں سرگرمیاں

عبدالرشید ترابی کی سربراہی میں کشمیری وفد کی سب سے پہلے ملاقات ‘ترکیہ پاکستان پارلیمانی فرینڈ شپ’ کے چیئرمین اور صدر طیب اردوان کے مشیر علی شاہین اوغلو سے ان کے دفتر میں ہوئی۔ علی شاہین اوغلو نے وفد سے ملاقات کے دوران اپنے بہترین جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘سری نگر کے آنسو ہمارے آنسو ہیں، کشمیر کا مسئلہ ہمارا مسئلہ ہے۔ کشمیر پاکستان اور ترکیہ ایک جسد واحد ہیں۔ ہم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں منزل کے حصول تک ان کے شانہ بشانہ رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صدر طیب اردگان نے بین الاقوامی فورم پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا ہے اور اس کے فوری حل کا تقاضا کیا ہے۔

ترکیہ کی پوری قوم اس برحق جدوجہد میں اہل کشمیر کا ساتھ دینا ملی اور انسانی فریضہ سمجھتی ہے۔” علی شاہین اوغلو نے تشکرانہ طور پر کہا کہ پوری امت اور انسانیت، دکھ کی اس گھڑی میں ہماری مدد کو آئی لیکن اہل پاکستان کے عوام اور حکومت کا کردار تاریخی ہے اور الخدمت کا کام بھی قابل تحسین رہا ہے, ہم آپ کا ( پاکستان کا ) شکریہ ادا کرتے ہیں۔

کشمیری وفد کی اگلی ملاقات مصطفی کمال اکایا، سینئر وائس پریذیڈنٹ سعادت پارٹی ہیں، سے ان کے ہیڈ کوارٹر میں ہوئی۔ ملاقات میں مصطفی کمال آکایا نے بتایا کہ سعادت پارٹی استاذ نجم الدین اربکان کے ایجنڈے کو لے کر چل رہی ہے۔ استاذ اربکان نے ہمیشہ کشمیر و فلسطین کو اپنے جسم کا حصہ قرار دیا ہے، اس لیے سعادت پارٹی کا ہر کارکن مظلوم کشمیریوں کی ترجمانی اور پشتبانی کو اپنا فریضہ سمجھتا ہے۔ سعادت پارٹی اپنی کانفرنسوں اور سیمینارز میں مسئلہ کشمیر کو اپنے ایجنڈے کا مستقل حصہ رکھتی ہے۔

مصطفی کمال اکایا نے وفد کو مزید بتایا کہ سعادت پارٹی نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہمیشہ قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ استاد نجم الدین اربکان نے ترکیہ ہی میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر کشمیر کی ترجمانی کی ہے۔ وفد نے انہیں بتایا کہ بھارت کی مودی حکومت کشمیریوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتی ہے، بھارتی مسلمانوں کو بھی تیسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے۔

مصطفی کمال آکایا نے عبدالرشید ترابی اور ان کے وفد کو تحریک آزادی کشمیر کی لازوال جدوجہد میں شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی بھی دلائی۔

عبدالرشیدترابی نے نیو رفاہ پارٹی کے ہیڈ کوارٹر میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل پروفیسر دوگان ہیکن سے بھی ملاقات کی۔
اس ملاقات میں دوگان ہیکن نے پارٹی کے صدر فاتح اربکان( استاذ اربکان کے صاحب زادے) کی طرف سے شکریہ ادا کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر بھرپور تعاون کا وفد کو یقین دلایا ۔دوگان نے بتایا کہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل کی پشت بانی نیو رفاہ پارٹی کے بنیادی لائحہ عمل کا حصہ ہے۔ استاذ اربکان کے تشنہ ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہی یہ پارٹی تشکیل دی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ امت مسلمہ کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے D 8 یعنی 8 اہم مسلم ممالک کا فورم قائم کیا گیا تھا تاکہ نیوکلیس بنا کر مسلم ممالک کی مشترکہ منڈی اور کرنسی قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کی طاقت کو مجتمع کرکے کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل کو حل کیا جائے۔ استاد اربکان کشمیر کو اپنے جسم کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس مسئلہ کے حل کے لیے زندگی بھر ہر سطح پر کوشش کرتے رہے۔

قاضی حسین احمد کی قیادت میں دنیا کے منظرنامے پر مسئلہ کشمیر اجاگر ہوا تھا اور انھوں نے ترک قوم و حکومت کو کشمیر کی پشت پر لا کھڑا کیا تھا۔ ترک قیادت کے نزدیک کشمیر کی آزادی پوری امت مسلمہ کے لیے چیلنج ہے۔ یہ مسئلہ حل کرنا ان کی ملی اور انسانی ذمہ داری ہے۔

وفد نے استاد نجم الدین اربکان ہی کی قائم کردہ رفاہی تنظیم ‘جانسو’ جو دنیا کے 70 ممالک میں خدمت کا نیٹ ورک رکھتی ہے، کے ممبر پارلیمنٹ پروفیسر مصطفی آکو ٹیلو سے بھی ملاقات کی تھی۔

مصطفی اکو ٹیلو نے وفد سے اظہار خیال کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کو عظیم المیہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلم اور دیگر بین الاقوامی این جی اوز کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بدترین انسانی بحران کا نوٹس لینا چاہیے نیز انسانی حقوق کی بدترین پامالی، لاکھوں متاثرہ خاندانوں کی بحالی میں کردار ادا کرنے کے لیے بین الاقوامی مہم کا آغاز کرنا چاہیے۔

انہوں نے بھارتی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں یتامیٰ اور بے سہارا خاندانوں کی بحالی میں کردار ادا کرنے والے ادارے اور رضاکار بند کیے جا رہے ہیں۔ راحت فراہم کرنے والے ادارے اور بین الاقوامی اداروں کے لیے کشمیر کو نو گو ایریا بنا دیا گیا ہے۔

ترابی صاحب نے ترکیہ میں آنے والے حالیہ زلزلے کی جگہوں کا بھی دورہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ترکیہ زلزلے میں سب سے زیادہ متاثرہ شہر قہرمان ماراش ہے، اسی لیے وفد نے وہاں کا دورہ کیا اور مقامی این جی او کے مرکز میں زلزلہ متاثرین میں گرم ملبوسات تقسیم کیے۔

دورے کے دوران میں انھیں پتہ چلا کہ صرف اس شہر میں ہی 18 ہزار سے زائد اموات ہوئیں۔ اکثر عمارتیں گر گئیں اور انفراسٹراکچر تباہ ہو کے رہ گیا۔ انھوں نے بتایا کہ شہر کی تباہی لرزہ خیز تھی۔ یہاں پر مقامی اور بین الاقوامی این جی اور بھرپور سرگرمی سے بحالی کا کام کر رہی ہیں۔

50ہزار افراد کے لیے بیک وقت سحری و افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہاں پر ترک لوگوں کے پاکستان کے لیے بہت دعائیہ جذبات ہیں خصوصاً الخدمت فاؤنڈیشن اور پاک فوج کے کردار کو انتہائی تحسین کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔

حکومت پاکستان اور سمندر پار پاکستانیوں کے تعاون کی بھی تعریفیں ہیں بالخصوص امریکا میں مقیم گمنام پاکستانی جس نے 30 ملین ڈالر کی خطیر رقم عطیہ کی تھی، اس کا ہر جگہ تذکرہ ہے۔ پیما پاکستان کے میڈیکل مشن کی خدمات کو بھی جگہ جگہ سراہا جا رہا ہے۔

مزید سرگرمیوں کا احوال ترابی صاحب نے کچھ یوں بتایا کہ استنبول میں چیمبر آف کامرس مو سیاد اور بزنس فورم کے چیئرمین ہارون ماجد اور سلیمان اوغلو کی طرف سے افطار ڈنر میں گئے جس میں تر کی کے اہم دانشوروں اور کاروباری ایگزیکٹوز نےشرکت کی تھی۔وہاں کشمیر کی صورت حال پر بریفنگ دیتے ہوئے عالمی سطح پر بھارت کے خلاف تجارتی بائیکاٹ کی مہم کا تقاضا کیا تاکہ بھارت پر سفارتی اور معاشی دباؤ ڈال کے اسے مظالم سے روکا جائے۔

اگر روس یوکرین جنگ میں روس کے خلاف مغربی ممالک پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں تو مسلم ممالک اور بزنس کمیونٹی کیوں کشمیر اور بھارتی مسلمانو ں کا قتل عام رکوانے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالنے میں تاخیر کررہی ہے؟

تاجر رہنماؤں نے یقین دلایا کہ وہ اس تجویز پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پرمشاورت کریں گے۔ مسلم دنیا ایک بہت بڑی کاروباری منڈی ہے جسے باہمی روابط سے مزید فروغ دیا جاسکتا ہے۔ موسیاد کا فورم اس سلسلہ میں اہم کرادار ادا کر رہا ہے۔ ترکیہ کے تاجر رہنماؤں نے کہا کہ بدقسمتی سے مسلم حکمران مغربی آقاؤں کی تابعداری میں اپنی طاقت کماحقہ بروۓ کار لا نے سے قاصر ہیں، امت مسلمہ کو اپنے اپنے ممالک میں حقیقی قیادت سامنے لا نا ہوگی جو امت کے جذبات اور مفادات کی ترجمانی کا حق ادا کرسکے۔ انہوں نے کشمیریوں کی تحریک آزادی سے مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں