صدر رجب طیب اردوان کے حامی انتخابی نتائج میں ان کی سبقت کی خبریں سن کر پرجوش ہیں

طیب اردوان تیسری بار صدر بن سکیں گے؟ فیصلہ دوسرے راؤنڈ میں ہوگا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی میڈیا کے سارے اندازے، تجزیے غلط ثابت ہوئے کہ ترکیہ کے صدر طیب اردوان اس بار بری طرح ہار جائیں گے اور بڑی اپوزیشن جماعت ری پبلیکن پیپلزپارٹی کے امیدوار کمال اوغلو واضح برتری کے ساتھ جیت جائیں گے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ طیب ایردوان کو ترکیہ میں پہلے جیسی حمایت حاصل نہیں رہی۔ تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے:

14مئی 2023ء کے صدارتی انتخابات کے اب تک کے نتائج کے مطابق صدر طیب اردوان نے 49 اعشاریہ 50 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ جبکہ ان کے سب سے بڑے حریف کمال اوغلو نے 44 اعشاریہ 89فیصد حاصل کیے ہیں۔ ایک تیسرے امیدوار سنان اوگان نے 5اعشاریہ 17فیصد ووٹ حاصل کیے۔ جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں، 99اعشاریہ 87فیصد ووٹوں کی گنتی ہوچکی ہے۔

الیکشن کمیشن نے باقاعدہ صدارتی مقابلے کے لیے دوسری دوڑ کا اعلان کردیا ہے جو 28 مئی کو منعقد ہوگی۔ دوسرے مقابلے میں طیب اردوان کی جیت کے امکانات زیادہ ہیں۔ سبب یہ ہے کہ تیسرے نمبر کا امیدوار سنان اوگان بنیادی طور پر دائیں بازو کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ 2011سے 2017 تک ملی حرکت پارٹی کا حصہ رہے ہیں۔اور ملی حرکت پارٹی دائیں بازو کی نیشنلسٹ جماعت ہے اور یہ جماعت اس وقت صدر اردوان کی اتحادی بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ترکیہ عام انتخابات 2023: صدر طیب اردوان کو پارلیمان میں واضح اکثریت مل گئی

ترکیہ کی جماعت اسلامی تاریخ کی کمزور ترین پوزیشن سے دوچار

غالب امکان ہے کہ دوسری دوڑ میں طیب اردوان کو دائیں بازو کا مزید ووٹ بھی مل جائے گا، پورا نہ سہی، کامیابی کے لیے انہیں آدھے فیصد سے بھی کم ووٹ چاہیے۔

طیب اردوان نے 2018ء کے صدارتی انتخاب میں 52اعشاریہ59فیصد ووٹ حاصل کیے، 2014ء کے صدارتی انتخاب میں 51اعشاریہ79فیصد۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کے ووٹ بنک میں معمولی فرق پڑا ہے۔ تاہم یہ فرق صدارتی دوڑ میں ان کی جیت کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔

طیب اردوان کے مخالف امیدواروں کی گزشتہ 9سالہ کہانی میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔2014ء میں اکمل الدین اوغلو(کراس پارٹی) نے 38اعشاریہ44فیصد ووٹ حاصل کیے، 2018ء میں محرم اِنس (ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار) نے 30اعشاریہ64فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس بار ری پبلیکن پیپلزپارٹی ہی کے امیدوار کمال اوغلو نے45فیصد ووٹ حاصل کیے۔ کوئی بھی امیدوار ٹف ٹائم نہ دے سکا۔

2023ء میں پہلی بار اپوزیشن نے صدر اردوان کی جیت میں رکاوٹ ڈالی۔ البتہ وہ پارلیمانی انتخابات میں حکمران جماعت اے کے پارٹی کے ہاتھوں ایک بار پھر شکست سے دوچار ہوئی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں