TEMEL KARAMOLLAOĞLU

ترکیہ کی جماعت اسلامی تاریخ کی کمزور ترین پوزیشن سے دوچار

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ترکیہ میں منعقد ہونے والے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں فضیلت پارٹی کو نہایت برے نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ ڈالے گئے مجموعی ووٹوں کا ایک فیصد بھی حاصل نہیں کرسکی۔ اس کا حال بھی پاکستان کی جماعت اسلامی جیسا ہی ہے، بلکہ اس سے بھی کمزور۔ ’فضیلت پارٹی‘ کے پاکستان کی جماعت اسلامی سے نہایت گہرے تعلقات ہیں۔ اگرچہ صدر طیب اردوان کے بھی جماعت اسلامی سے اچھے تعلقات ہیں تاہم فضیلت پارٹی، جسے سعادت پارٹی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جماعت اسلامی سے زیادہ قرب رکھتی ہے۔

اس وقت سعادت پارٹی ترکیہ میں اس قدر بھی مقبول نہیں جتنی جماعت اسلامی کو پاکستان میں مقبولیت حاصل ہے۔ یاد رہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی پاکستان نے عام انتخابات میں 2.12فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔2018ء میں وہ متحدہ مجلس عمل کا حصہ بنی جس نے 4.85 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ یوں جماعت اسلامی کے ووٹ بنک کا درست طور پر اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔

ترکیہ کی فضیلت پارٹی(سعادت پارٹی) گزشتہ 22برسوں سے طیب اردوان کے مخالف سیاسی اتحاد کا حصہ ہے۔ حالیہ صدارتی انتخابات میں بھی اس نے مصطفیٰ کمال اتاترک کی جماعت ’ری پبلیکن پیپلزپارٹی‘ کے امیدوارکمال اوغلو کو ووٹ دیا ہے۔

سن 2001ء میں طیب اردوان نے فضیلت پارٹی ہی سے راہیں جدا کرکے اے کے پارٹی کے نام سے نئی پارٹی قائم کی تھی۔ طیب اردوان تب سے اب تک ترکیہ کی تاریخ کے سب سے طاقت ور رہنما بنے ہوئے ہیں جبکہ فضیلت پارٹی ہر گزرتے برس اپنی وقعت سے محروم ہوتی جارہی ہے۔

2002ء کے انتخابات میں فضیلت پارٹی کو محض 2اعشاریہ 5فیصد ووٹ ملے تھے نتیجتاً اسے پارلیمان میں کوئی سیٹ بھی نہ مل سکی تھی۔2018ء کے عام انتخابات میں اسے محض ایک اعشاریہ 34فیصد ووٹ ملے جبکہ حالیہ انتخابات میں اس کی کارکردگی اس قدر کمزور رہی ہے کہ اس کا کہیں ذکر بھی نہیں۔ وہ ترکیہ کے چار ضلعوں میں نسبتا بہتر ووٹ بینک رکھتی ہے، اس سے منسلک ہونے والے لوگوں کی شرح بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ اس اعتبار سے ترکیہ کی فضیلت پارٹی اپنی تاریخ کی کمزور ترین پوزیشن سے دوچار ہے۔

ترک اسلام پسند رہنما مرحوم نجم الدین اربکان کے بیٹے فاتح اربکان کی’ نیو رفاہ پارٹی’ نے حالیہ انتخابات میں 15 لاکھ ووٹ حاصل کرکے پارلیمان میں 5 نشستیں حاصل کی ہیں۔ واضح رہے کہ نیو رفاہ پارٹی صدر طیب اردوان کی اتحادی جماعت ہے۔

اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فضیلت پارٹی کے زوال کا سبب کیا ہے۔ لوگ اسے مسلسل چھوڑتے چلے جارہے ہیں۔ وہ شاید نئے حالات کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ یہ حالات کا کیسا جبر ہے کہ ایک اسلامی تحریک اپنے پرانے بدترین مخالف گروہ ری پبلیکن پیپلزپارٹی( مصطفیٰ کمال اتاترک کی جماعت) سے اتحاد کرنے پر مجبور پر ہوچکی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ طیب اردوان کی اتحادی جماعت بنتی!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں