عمران خان، سابق وزیر اعظم پاکستان، چیئرمین پاکستان تحریک انصاف

عمران خان غیر معمولی سیاسی طاقت سے کیسے محروم ہوئے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبید اللہ عابد

سانحہ 9 مئی کو ایک ماہ اور 2 دن ہوچکے ہیں، اس دوران پاکستان اور تحریک انصاف کے حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں۔ 9 مئی سے پہلے کے پاکستان میں عمران خان کی سیاسی حمایت غیر معمولی طور پر زیادہ تھی لیکن 9 مئی کے بعد، ایک ماہ کے اندر سابق وزیراعظم کی اپنی جماعت اس قدر تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہوئی کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے، اس کے بعد عمران خان دیکھتے ہی دیکھتے شدید ترین مشکلات کے چنگل میں پھنستے چلے گئے۔

عمران خان پولیس کے حصار میں

حالات میں تبدیلی کب اور کیسے رونما ہوئی، گزشتہ ایک ماہ میں ہونے والے واقعات ایک مکمل اور مفصل کہانی بیان کرتے ہیں:

9 مئی: اربوں روپوں کی کرپشن کے الزام میں سابق وزیراعظم عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کرلیے گئے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ آج تک پاکستان کا کوئی بھی وزیراعظم اس قدر بڑی کرپشن کے الزام میں گرفتار نہیں ہوا۔

عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں ان کے حامیوں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں جلاؤ و گھیراؤ شروع کردیا۔ سرکاری اور غیرسرکاری املاک پر حملے کیے اور انہیں نذرآتش کردیا۔ لاہور میں کورکمانڈر ہاؤس اور پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت بھی نذر آتش کردی۔

10 مئی: پاک فوج کے ترجمان نے 9 مئی کے واقعات کو سیاہ باب قرار دیتے ہوئے کہا کہ سازش ناکام بنا دی گئی۔ مزید کہا’ جو کام دشمن 75 برس میں نہ کرسکا، وہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد اقتدار کی ہوس میں مبتلا سیاسی لبادہ اوڑھے گروہ نے کر دکھایا۔ فوجی تنصیبات پر حملوں کے پیچھے پی ٹی آئی کی شرپسند لیڈرشپ تھی۔ حملے مذموم منصوبہ بندی سے ہوئے۔ سیاسی بلوائیوں کی شناخت کرلی، سخت ردعمل دیں گے۔ شرپسند عناصر اب نتائج کے خود ذمہ دار ہوں گے‘۔

11 مئی: تحریک انصاف نے فوج کے ترجمان کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا’ فوج کا اعلامیہ نفرت و انتقام پر مبنی بیانیہ کا مجموعہ ہے۔ ہائیکورٹ سے نیم فوجی دستوں کے ذریعے اغوا پر عوامی ردعمل بہت سے عوامل سے جڑا ہوا ہے‘۔

دوسری طرف عمران خان کی گرفتاری کو غیرقانونی قراردیتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سابق وزیراعظم کو اپنے ’مہمان‘ کا درجہ دیدیا، چیئرمین تحریک انصاف سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان کی پہلی جھلک دیکھتے ہی ’گڈ ٹو سی یو‘ کہا۔ بعدازاں انہیں کہا کہ آپ شب بھر گپ شپ لگائیے، سوجائیے، اگلی صبح عدالت میں پیش ہوجائیے۔‘

عمران خان عدالت میں

جبکہ وفاقی حکومت کے رہنماؤں نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا:‘شہدا کی یادگار، کورکمانڈر کا گھر،آرمی تنصیبات پر حملے ہوئے، کیا عدلیہ کے کان پر جوں رینگی؟‘

12 مئی: عمران خان کو عدلیہ کی طرف سے 9 کیسز سے زائد میں غیر معمولی ریلیف مل گیا، گرفتار نہ کرنے کا حکم دیدیا گیا۔

دوسری طرف حکمران اتحاد پی ڈی ایم نے 15 مئی کو سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کردیا ، سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ کسی نے ہاتھ اٹھایا تو ڈنڈے، تھپڑ اور مکے سے جواب دیا جائے گا۔ جبکہ مریم نوازشریف نے کہا کہ چیف جسٹس وقار کھو چکے ہیں، سیاسی ردعمل کے لیے تیار رہیں۔

13 مئی: وزیراعظم شہباز شریف نے سانحہ 9 مئی کے ذمہ دار شرپسندوں کو 72 گھنٹوں میں گرفتار کرنے کا حکم دیدیا، کہا کہ عمران خان نے منصوبہ بندی کی، حملہ آوروں اور سہولت کاروں پر دہشت گردی کے مقدمات چلائے جائیں۔

14 مئی: جی ایچ کیو اور کورکمانڈرہاؤس پر حملہ کرنے والوں کی شناخت کرلی گئی، پنجاب بھر سے 3500 سے زائد ملزمان گرفتار کرلیے گئے۔

15 مئی: سپریم کورٹ کے سامنے پی ڈی ایم کا دھرنا، رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہتھوڑا گردی قبول نہیں، چیف جسٹس نے سیاست کرنی ہے تو استعفیٰ دے کر گھر جائیں، پھر قوم کٹہرے میں کھڑا کرے گی۔

جبکہ خصوصی کورکمانڈر کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ بلوائیوں پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلیں گے، ملزمان کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کٹہرے میں لایا جائے گا، فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر توڑپھوڑ ذاتی اور سیاسی ایجنڈے کے حصول کے لیے تھی۔

دوسری طرف تحریک انصاف نے جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں سے لاتعلقی ظاہر کرنا شروع کردی۔

16 مئی: قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سیاسی اختلافات کو محاذ آرائی کے بجائے جمہوری اقدار کے مطابق مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ تشدد، شرپسندی کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی جائے گی۔

دوسری طرف وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ شواہد سامنے آچکے ہیں کہ حملہ آوروں نے زمان پارک میں تربیت حاصل کی تھی۔

17 مئی: پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کہا کہ سانحہ 9 مئی کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لائیں گے۔ جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ حساس تنصیبات پر حملے عمران خان کے بیانات کا نتیجہ ہیں، ’ حقیقی آزادی‘ کے نعروں کے ساتھ تشدد پر اکسانے کے لیے گروہ تیار کیا گیا۔ عمران نیازی نے سیاست کو مذہبی رنگ دے کر حق و باطل کی جنگ قرار دیا۔

دوسری طرف سانحہ 9 مئی کی مذمت کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنماؤں اور ارکان اسمبلی نے پارٹی چھوڑنا شروع کردی۔ مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری اور سندھ اسمبلی کے 2 ارکان الگ ہوگئے۔ جبکہ آنے والے عام انتخابات کے امیدواروں نے ٹکٹ واپس کرنا شروع کردیے۔

پنجاب حکومت نے تحریک انصاف کو الٹی میٹم دیا کہ زمان پارک میں چھپے 30 سے 40 دہشت گردوں کو قانون کے حوالے کیا جائے بصورت دیگر آپریشن ہوگا۔

18 مئی: صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے عمران خان سے مطالبہ کیا کہ وہ کھل کر سانحہ 9 مئی کی مذمت کریں اور کہا کہ ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہیے۔

جبکہ وفاقی کابینہ نے قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کی توثیق کردی۔

عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی

20 مئی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ سانحہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں، اکسانے والوں اور عمل کرنے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کردی گئی ۔

مسلم لیگ ن کی سینئر رہنما مریم نواز نے سانحہ 9 مئی کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے فیصلہ کی حمایت کردی۔ دوسری طرف عمران خان نے امریکی رکن کانگریس سے اپیل کی کہ ان کے لیے آواز اٹھائی جائے۔

23 مئی: شیریں مزاری اور فیاض چوہان سمیت تحریک انصاف کے اہم ترین رہنماؤں نے پارٹی چھوڑی دی۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرنے سے منع کیا تھا۔ عمران خان نے فوجی عمارتوں پر حملے کی تربیت دی، زوم میٹنگ میں ترجمانوں کو متحرک کیا جاتا تھا کہ کیسے فوج کے خلاف باتیں کرنا ہیں۔

24 مئی: فواد چوہدری اور اسد عمر سمیت دیگر متعدد رہنماؤں نے تحریک انصاف چھوڑ دی۔ وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے کا امکان ظاہر کردیا۔

25 مئی: انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سانحہ 9 مئی میں حصہ لینے والے 16 ملزمان فوج کے حوالے کردیے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی مرکزی رہنما ملیکہ بخاری نے جیل کی مشکلات سے تنگ آکر پارٹی اور سیاست چھوڑ دی۔

26 مئی: عمران خان نے فوری طورپر حکومت سے بات چیت کی پیشکش کردی، 7 رکنی کمیٹی بھی قائم کردی۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے دیگر اہم رہنماؤں سیف اللہ نیازی، فردوس عاشق اور ابرارالحق نے بھی پارٹی چھوڑ دی۔

27 مئی: عمران خان نے کہا کہ حلف دیتا ہوں کہ کبھی توڑ پھوڑ کرنے کو نہیں کہا۔ تحریک انصاف کے بانی رہنماؤں سمیت متعدد شخصیات پارٹی سے علیحدہ ہوگئے۔ پی ٹی آئی کے سابق مرکزی رہنما جہانگیر ترین نےتحریک انصاف کے رہنماؤں سے رابطے شروع کردیے۔

وفاقی حکومت نے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے 10 سابق وفاقی وزرا شیخ رشید، شاہ محمود، اسد عمر، پرویز خٹک، علی امین، علی محمد،زرتاج گل، اعظم سواتی، فرخ حبیب اور عون عباس کے ڈپلومیٹک پاسپورٹ منسوخ کردئیے۔

28 مئی: عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ طاقت کھو رہی ہے، نظر نہیں آرہا کہ اب عدلیہ طاقتور کے سامنے کھڑے رہنے کے قابل ہے۔ دوسری طرف وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ عمران خان سے مذاکرات تب ہوں گے جب وہ قوم سے معافی مانگیں گے۔

29 مئی: سانحہ 9 مئی کے سلسلہ میں، عمران خان کو جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے طلب کرلیا جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔

جی ایچ کیو پرحملہ کے 8 ملزمان کو ملٹری کورٹ کے حوالے کرنے کی منظوری دیدی گئی۔

30 مئی: وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ عمران خان کے خلاف مقدمہ فوجی عدالت میں چلے گا کیونکہ وہ جلاؤ و گھیراؤ کے ماسٹر مائنڈ ہیں فوجی تنصیبات پر حملے کی منصوبہ بندی اور تیاری گرفتاری سے پہلے کی تھی۔

عمران خان نے کہا کہ جان کو خطرہ ہے، اس لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سامنے نہیں آسکتا۔

پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں کی رہائی اور پھر گرفتاری کا سلسلہ جاری رہا۔ اب تک تحریک انصاف چھوڑنے والوں کی تعداد 100 سے زائد ہوگئی۔

2 جون: تحریک انصاف چھوڑنے والوں کا سلسلہ جاری ہے، سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی علیحدہ ہوگئے۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ تحریک انصاف کے لیڈر ایک ہفتے سے زیادہ جیل نہیں کاٹ سکتے۔

4 جون: انسداد دہشت گردی عدالت نے سانحہ 9 مئی میں ملوث مزید 4 ملزمان کا مقدمہ آرمی ایکٹ چلانے کی منظوری دیدی۔

6 جون: پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا، رہا ہونے کے بعد انہوں نے کہا’ اب انصاف کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہے، عمران خان سے ملوں گا اور کچھ چیزیں ان کے سامنے رکھوں گا‘۔

8 جون: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیرصدارت فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ اب وقت آگیا ہے، سانحہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور ماسٹرمائنڈ پر قانون کی گرفت مضبوط کی جائے۔ بگاڑ پیدا کرنے اور فرضی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیچھے پناہ لینے کی تمام کوششیں بے سود ہیں۔ کثرت سے جمع ناقابل تردید شواہد کو جھٹلایا نہ ہی بگاڑا جاسکتا ہے۔

وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خان نے دعویٰ کیا کہ 9 مئی کا ماسٹر مائنڈ عمران خان ہی ہے، اس کی اپنی آواز میں ایسی شہادتیں موجود ہیں جنہیں عدالت میں پیش کیا گیا تو کہنا پڑے گا کہ سماعت ان کیمرہ کی جائے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ 9 مئی کے بعد حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔اب پنجاب الیکشن کے فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں۔

دوسری طرف ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ملاقات میں تلخی پیدا ہوئی، دونوں کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔

تحریک انصاف کے سابق رہنماؤں نے جہانگیر خان ترین کی قیادت میں نئی جماعت’ استحکام پاکستان پارٹی‘ قائم کرلی۔ تاسیسی اجلاس میں 100 سے زائد رہنما شریک تھے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں