غزہ کے مسلمان شوہر اور بیوی

کیا مسلمان شوہر حاکم ہوتا ہے؟ 3اہم نکات

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عظمی خان

کسی نے ایک مضمون میں لکھا تھا اور درست لکھا تھا۔ جب امت کی ماؤں میں سے دین اٹھا تو امت میں سے دین اٹھ گیا۔

یمین الدین صاحب نے شفاء بنت عبداللہ جو کہ اسلام کی پہلی مارکیٹ کنٹرولر تھیں ، جراح تھیں اور علم و عمل میں بہت فضیلت رکھتی تھیں پر ایک مضمون اپنی وال پر شئیر کیا اور ترغیب دی کہ اسلام میں عورتوں کا کردار بہت diversified ہے۔

ہمارے معاشرے کی طرح صرف چولہا چوکی تک محدود نہیں تو مسلمان عورت کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ ہونی چاہیے اور ان کی صلاحیتوں کے اعتبار سے ان پر تعلیم اور پروفیشنل لائف کے دروازے بند نہیں ہونے چاہیئیں۔

دوسرے مضمون میں انہوں نے امہات المومنین اور مزید صحابیات کا تذکرہ کیا جو علم و فضل میں بہت آگے تھیں اور نبی صلی اللہ و علیہ وسلم سے لے کر صحابہ کرام ان سے مشورے لینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے تھے۔

ان مضامین کی اشاعت کے بعد ایک بحث چھڑ گئی کہ اگر عورتوں کو جدید تعلیم دی جانے لگی اور ان پر ملازمتوں کے، کاروبار کے دروازے کھول دیئے گئے تو وہ باغی ہوجائیں گی۔ مرد کی حاکمیت کو چیلنج کریں گی اور معاشرے کا سکون خراب ہوگا وغیرہ اسی لیے مذہبی طبقہ بالخصوص عورتوں کی جدید تعلیم اور کام کرنے کے سخت خلاف ہے۔

اس ساری بحث میں پہلا نکتہ تو یہ سمجھنے کا ہے کہ تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے اور دوسرا نکتہ کہ عورت مرد کی محکوم ہے یا اس کی رعیت اور تیسرا نکتہ کہ مرد قوام ہیں تو بطور قوام ان کا یہ کردار ذمہ داری سے جڑا ہے یا احسانات سے جڑا ہے۔ اپنے اس مضمون میں میں نے ان ہی نکات کی وضاحت کی کوشش کی ہے۔

پہلا نکتہ :
تعلیم اور تربیت ہے۔ دینی تعلیم بھی اور عصری تعلیم دونوں ہی ضروری ہیں۔ پھر قابل انسان اپنا راستہ بنا ہی لیتا ہے۔ اصل چیز علم ہے۔ برصغیر میں خاص طور پر علم کو عمل اور شخصیت کی تعمیر کے بجائے کمانے کے پہلو سے جوڑ دیا گیا۔ جبکہ دین میں چاہے وہ عصری علوم ہوں یا دینی علوم ان کا تعلق کمانے سے نہیں بلکہ انسانی شخصیت کی تعمیر اور حسن سے ہے۔

اگر انسان کو چاہے مرد ہویا عورت فرشتوں پر کوئی فضیلت تھی تو وہ اس کے علم کی بنیاد پر تھی۔ اسی طرح پہلی وحی اللہ کا پہلا حکم مسلم امت کے لئے "اقرا” تھا "پڑھ” اپنے رب کے نام سے۔ تو پھر تعلیم جس کی بناء پر انسان اشرف المخلوقات ہے جو اللہ کا پہلا حکم ہے اس کے دروازے عورتوں پر بند کرنے کی کوئی دینی دلیل ہے نہ دنیادی دلیل۔

دوسرا نکتہ:
اب یہ بحث چھڑی کہ عورتوں کو تعلیم دی گئی دنیا سے روشناس کرایا گیا تو وہ کمانے نکلیں گی اور کمائیں گی تو باغی ہوجائیں گی۔

سوال ہے بغاوت کس سے اور کیوں؟ مرد سے بغاوت۔ بغاوت وہاں ہوتی ہے جہاں حاکمیت ہو۔ اب سوال یہ کہ کیا مرد حاکم ہے عورت پر؟ قرآن نے دو الفاظ استعمال کیے ہیں ایک تو رعیت کا لفظ ہے اور دوسرا قوام کا۔ پہلے لفظ رعیت کا مطلب سمجھتے ہیں۔

رعیت کا بنیادی مطلب ذمہ داری ہے، فکر ہے۔ رعیت کی مثال احادیث میں ریوڑ سے دی گئی ہے کہ جیسے ایک چرواہے کو اپنے ریوڑ کی فکر ہوتی ہے اسی طرح اپنی رعیت کی فکر کرو ان کے متعلق تم سے سوال کیا جائے گا۔ اب جہاں اللہ کی طرف سے سوال جواب ہے فکر کی ترغیب ہے تو وہ فکر بغیر محبت کے ہوسکتی ہے کیا؟

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ عورت رعیت ہے مرد کی محکوم نہیں۔ رعیت ذمہ داری سے جڑی ہے اور محکومیت حاکمیت سے۔رعیت میں احساسات کی بنیاد عاجزی،محبت اور مودت ہے جبکہ حاکمیت میں انا، تکبر اور غصہ حاوی ہوتا ہے۔ یہ ایک باریک سی لکیر ہے لیکن یہی لکیر اہم ہے رویوں کی وضاحت کے لیے اور اسلامی معاشرے اور غیر اسلامی خصوصا ہندووانہ معاشرت کے فرق کے لیے۔

تیسرا نکتہ
یہ نکتہ قوام سے جڑا ہے اور قوام کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ نے کہا ہے کہ مرد قوام ہیں کیونکہ وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ مطلب یہ ذمہ داری مرد پر اللہ نے ودیعت کی ہے سو اگر مرد عورت کی فناننشل ذمہ داری اٹھا رہا ہے تو یہ اس کا فرض ہے وہ ذمہ داری جو اللہ نے اس پر ودیعت کی۔

سو اب وہ تمام معاملات کا ذمہ دار ہے اور جب ذمہ دار ہے تو اسکی تابعداری بھی کرنی فرض ہے لیکن وہاں جہاں اس کی تابعداری اللہ کی تابعداری سے بڑھ کر نہ ہو۔اسی طرح عورت اپنے رزق کے لیے مرد کی محتاج نہیں مرد ایک وسیلہ ہے ورنہ رازق اللہ کی ذات ہے۔ یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جو گھر کی فنانشل مینجمنٹ کرتے ہوئے اور ادا کرتے ہوئے حضرات اور خواتین دونوں کو یاد رکھنا ہوتا ہے۔

سو اگر مرد بطور قوام عورت کو اپنی رعیت سمجھ کر مالی معاملات کو اپنا فرض جان کر ادا کریں احسان سمجھ کر اور جتا جتا کر نہیں تو عورت کمائے یا نہ کمائے بغاوت کی صورتحال پیدا نہیں ہوگی۔

بغاوت وہاں ہوتی ہے جہاں محبت اور مودت ختم ہوجاتی ہے اور یہ صرف میاں بیوی کے تعلق میں نہیں ہوتا جہاں بھی فرائض احسان سمجھے جائیں گے اور جتائے جائیں گے، وہاں بغاوت پیدا ہوگی پھر چاہے میاں بیوی کا رشتہ ہو یا باپ بیٹی یا بھائی بہن کا۔

سو اس خوف سے کہ عورت کو تعلیم دی گئی اس کی صلاحیتوں کے اعتبار سے اس کو دنیاوی معاملات سونپے گئے تو وہ باغی ہوجائے گی یہ اسلامی سوچ اور فکر نہیں بلکہ خالص غیر اسلامی سوچ اور سرمایہ دارانہ ذہنیت کی عکاس ہے جس میں انسان انسان سمجھ کر نہیں محکوم سمجھے جاتے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں