خاتون اور لڑکا گفتگو کر رہے ہیں

مصافحہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نصرت یوسف کا نیا اردو افسانہ

موسم ابر آلود تھا، ایسے میں غیر متوقع مہمانوں کی آمد ہوئی۔

نو دس سالہ بچہ اور اس کی سرو قد ماں، ان کو میری دوست نے بھیجا تھا۔ قریب ہی رہائش تھی، ماں کو بچے کے لیے ٹیوشن کی تلاش تھی۔

سلام دعا کے بعد بچے کے ادارے اور رجحان پر سرسری سی بات ہوئی۔ ریاضی بچے کا پسندیدہ مضمون تھا. اس دوران وہ اٹھ کر بالکونی میں لگی انگور کی بیل دیکھنے لگا جو میں نے حال ہی میں آن لائن منگوائی تھی۔

’آنٹی ! کیا آپ کی مما بھی اتنی بدتمیزی سے بات کرتی تھیں؟ ‘ اس ذہین بچے نے مجھ سے سرگوشی میں پوچھا جسے بڑی دقت سے سنا گیا۔ لمحے بھر قبل ماں معذرت کرتے کال سننے بالکونی جانب گئی تو بچہ میری جانب آکر بولا:

’آپ کی مما تو بہت اچھی ہیں‘ میں نے حیرت  سے اس کی بات سنی۔

‘اچھی ہیں لیکن مجھ سے بدتمیزی سے بات کرتی ہیں، چیخ کر بولتی ہیں، بات نہ مانوں تو مارنے کا بھی کہتی ہیں’

‘میری سمجھ نہیں آتا، آخر میری شادی کب ہوگی؟ ’

اس کی  دوسری بات اتنی غیر متوقع تھی کہ میری بے اختیار ہنسی نکل گئی.

سب سے زیادہ حیران کن میرے لیے اس بچہ کی خوداعتمادی تھی کہ وہ ایک اجنبی جگہ پر اجنبی فرد سے اس طرح بلا جھجھک بات کرتا تھا۔ اس کی مما دو منٹ میں آ گئیں اور ہماری بقیہ گفتگو بھی جلد ہی ختم ہوگئی۔

وہ ایک نرم مزاج عورت تھی، اولاد سے لاڈ اور تربیت دونوں سے اسے آگاہی تھی۔  بچے میں گھر کی تربیت کی جھلک تھی لیکن ماں کی شکایت کرنا ایک عجیب بات تھی۔

’ مجھے آپ سے اپنے بیٹے  کے لیے کچھ اور بھی ڈسکس کرنا تھا لیکن میرے شوہر گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ کام میں ترتیب دیکھنا چاہتے ہیں اور اب سے دس منٹ بعد ان کے ورک پلیس  رائڈر کے ساتھ لنچ بھیجنا ہے۔‘ جلدی جلدی کہتی وہ مضطرب سی کھڑی ہو گئی۔.

اثبات میں سر ہلاتے میں نے بچے سے ہاتھ ملایا اور وہ آگے بڑھ گئی۔

’ آؤ نا ‘ پلٹ کر اس نے غصہ سے بیٹے کو بلایا تو بچہ نے مجھے جتاتی نظروں سے دیکھا اور قدم بھاگتے ہوئے اٹھا لیے.

گھڑی کی سوئیاں اور مزاج کے پیمانے دونوں ہی ایک دوسرے سے مصافحہ کر رہے تھے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں