سینیٹر مشتاق احمد خان ، رہنما جماعت اسلامی پاکستان

کرپٹ اشرافیہ کے خلاف جماعت اسلامی کا کردار

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عظمیٰ پروین

سینٹ اور قومی وصوبائی اسمبلیوں کی کارروائیاں دیکھ کریوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان صرف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریٹوں کا ملک ہے۔ عوام کے ساتھ قیدیوں اورغلاموں سے بھی بدترسلوک کیا جا رہا ہے۔ غریب طبقے کی زبوں حالی دیکھ کر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کے ہندو معاشروں میں شاید شودروں کے ساتھ بھی اس قدر برا رویہ نہیں رکھا گیا ہو گا۔

انتہائی غیرمنصفانہ تقسیم دولت: حال ہی میں ہماری سینٹ میں ایک انتہائی ظالمانہ، متنازع اور شرمناک بل پاس کیا گیا ہے۔ یہ بل اتنی خاموشی اور اتنی جلدی پاس کیا گیا ہے کہ کسی کو اس کی بھنک تک بھی نہیں پڑنے دی گئی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جمہوریت کا نعرہ لگانے والی تمام پارٹیز نے اس بل کی حمایت کی۔ شور بپا ہوا تو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت یہ بل واپس لینے پر مجبور ہوگئی، ورنہ صدر پاکستان کی منظوری کے بعد یہ بل پاکستان کا قانون بن جاتا اور اس معاملے میں عدالت بھی کچھ نہ کرسکتی۔

بل کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا تھا کہ بل کے مطابق تمام سابق، موجودہ اور مستقبل کے چیئرمین سینیٹ اوران کی فیملیز اور بعد از مرگ لواحقین کو ایسی سہولتیں ملتیں کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ مذکورہ بالا لوگوں کے لیے مراعات کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع کردیا جاتا، انھیں تاحیات بارہ ملازم، چھ سیکیورٹی گارڈز اور ہرجگہ وی وی آئی پی پروٹوکول ملتا۔ اندرون اور بیرون ملک سفر کے لیے جب چاہتے مکمل سرکاری خرچ پر ہوائی جہاز لیتے۔ اندرون اور بیرون ملک میڈیکل کی سہولیات بالکل مفت۔ مزید براں ان حضرات کے لیے آٹھ لاکھ روپے کا صوابدیدی فنڈ مقرر کیا جاتا جسے وہ جب چاہتے، بڑھا لیتے اور سینٹ کی فنانس کمیٹی اس کو ادا کرنے کی پابند ہوتی۔ واضح رہے کہ چیئرمین سینٹ کو اب بھی لاکھوں کی تنخواہ اوربھاری بھرکم  الاؤنسز ملتے ہیں۔

یہ بل واپس لینے کا فیصلہ کرلیا گیا لیکن اس طبقہ اشرافیہ کو اب بھی مختلف انداز میں بے تحاشا مراعات اور تنخواہیں ملتی ہیں۔ دوسری طرف ریکارڈ مہنگائی کے اس دور میں عوام کے منہ سے تو نوالہ تک چھین لیا گیا ہے۔

عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے اشرافیہ پر خصوصی نظر کرم بالکل ہی ناقابل فہم ہے۔ یہ ہماری جمہوریت کے کڑوے پھل ہیں۔ غریبوں کے لیے تو سرکاری ہسپتالوں میں دواؤں کی سہولت ختم کردی گئی ہے اور اب پنشنوں کے خاتمے پر بھی غور کیا جا رہا ہے تا کہ سرکاری خزانے سے بوجھ کو گھٹایا جاسکے۔ یعنی غربا کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کی فکر سے بڑھ کر طبقہ امرا کی عیاشیوں کی فکر کی جارہی ہے۔ غریب کا پاکستان الگ اور امیر کا پاکستان الگ بنایا جارہا ہے۔

ان اشرافیہ کے لیے تو ان کی خواہشات ہی مقصد زندگی ہیں جن کی تسکین کی خاطریہ لوگ آئے روز شرمناک قوانین بناتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں سینٹ میں یہ بل بھی پاس کیا گیا ہے کہ پچاس کروڑ روپے کی کرپشن پرنیب ہاتھ نہیں ڈال سکتی۔ ایک جماعت اسلامی کے سوا کسی نے بھی ان ظالمانہ اور غیر منصفانہ بلوں کی مخالفت نہیں کی۔

دکھتے دل اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ کچھ مزید تلخ حقائق بھی عرض کروں گی۔

برطانیہ کی وفاقی حکومت کے لیے گاڑیوں کا ایک پول ہے۔ جسے ان کے وزیراعظم، وزرا، سپیشل ایڈوائزرز اور وفاقی حکومت سے متعلق افراد استعمال کرتے ہیں۔ اتنی مضبوط معیشت رکھنے والی ریاست کی وفاقی حکومت کے زیراستعمال صرف 86 گاڑیاں ہیں لیکن ہاتھوں میں کشکول لیے ڈیفالٹ کے خطرات میں گھرے بے چارے پاکستانی حکمرانوں کے حالات بہت ہی عجیب اور ناقابل یقین ہیں۔

اٹھارھویں ترمیم کے بعد صوبے کافی حد تک آزاد ہو چکے ہیں۔ وفاق کا عمل دخل صوبوں میں بہت کم رہ گیا ہے۔ اس چھوٹی سی وفاقی حکومت کےاستعمال میں نوے ہزار گاڑیاں ہیں اور ان پر پٹرول کا سرکاری خرچ جو پچھلے چار سالوں میں ہوا 220 ارب روپے ہے۔ صرف سندھ کی صوبائی حکومت کے زیر استعمال 25 ہزار گاڑیاں ہیں۔

یہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سہارے چلنے والی پاکستانی حکومت کے ممبران کی شاہ خرچیوں کی دھندلی سی تصویر ہے۔ حکومت کے غیرمنصفانہ، غیر آئینی اقدامات کی مخالفت میں اٹھنے والی واحد آوازجماعت اسلامی کی آواز ہے۔

جماعت اسلامی کاکردار: جماعت اسلامی ہی ملک کی واحد پارٹی ہے جو صحیح معنوں میں عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر جماعت کے اکا دکا ممبران اسمبلی اور سینٹ نہ ہوتے تو ہمیں ان ظالمانہ قوانین اور بلوں کے بارے میں کوئی علم ہی نہ ہوتا۔

قرآن پاک کی چالیسویں سورت میں ہمیں ایک مومن کا ذکر بڑی تفصیل سے ملتا ہے جو فرعون کے دربارمیں تنہا تھا لیکن رب العزت کی نگاہ میں پوری فرعونی پارلیمنٹ میں صرف ایک قابل ذکر فرد ٹھہرا۔ اس نے فرعون کے ظلم اور بربریت کے خلاف بھرے دربار میں اعلانیہ آواز اٹھائی اور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اپنے فریضے کو احسن طور پر ادا کیا۔ رب تعالی کو اس کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ قرآن میں بڑی تفصیل کے ساتھ اس کا تذکرہ فرمایا اورایک سورت ہی مومن آل فرعون کے نام سے منسوب کردی۔

یہی کردارپاکستان کی سینٹ، وفاقی اورصوبائی اسمبلیوں میں جماعت اسلامی کے ارکان ادا کر رہے ہیں۔ میں جب بھی مشتاق احمد خان اور عبدالاکبر چترالی کی مشابہت قرآن میں مذکور مومن آل فرعون کے ساتھ پاتی ہوں تو دل شکر کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے کہ اللہ پاک نے ایسی اجتماعیت کے ساتھ جوڑ دیا جو آج بھی ابراھیمی اسوہ پر گامزن ہے۔

آزری بھلائے گئے اور ابراھیم آج بھی زندہ ہے۔ ابوجہل اور ابولہب دنیا و آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہی سرخرو ٹھہرے۔ یزیدیوں کانام مٹا اور شہدائے کربلا حیات جاوداں سے سرفراز ہوئے۔ میرا ایمان ہے کہ ایسے ہی یہ لوگ جو آج میڈیا پر بہت زیادہ چھائے ہوئے نظر آ رہے ہیں صابن کے جھاگ کی طرح غائب ہو جائیں گے اور جماعت اسلامی کی خدمات کو ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا اور عقیدت سے یاد کیا جائے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں