خوبصورت باحجاب مسلمان خاتون کتاب چہرے پر رکھ کر دیکھ رہی ہے

ناری شکتی کی جے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سمیرا امام

دنیا بھر میں ہاہاکار مچی ہے۔ عورتیں فرماتی ہیں کہ ہم کیوں ڈوئی رسوئی فرمالیں، اب وقت ہے کہ مرد حضرات بھی باورچی خانے کا دیدار فرمائیں۔ بیگمات کے دل سے ہوتے ہوئے معدے پہ پہنچ جائیں کہ بہ حیثیت انسان ان کا بھی جی چاہتا ہے ٹھاٹھ سے بیٹھ کے دوسروں کے ہاتھ کا لذیذ کھانا کھانے کا ۔

لیکن بہنو ! جب سب کے نصیب نیلی روشنائی سے لکھے جارہے تھے تو ہمارے والے کو خطرے کی گھنٹی والے لال رنگ سے لکھا گیا۔

آج سے پینتیس برس قبل والدِ محترم کے ہاں منتوں مرادوں سے مانگی گئی اولاد پیدا ہوئی جسے بے تحاشا لاڈ پیار کیا گیا اور ابا نے بیٹی کے لیے جو خواب دیکھے ان میں کاغذ اور قلم کے سوا باقی کسی شے کی گنجائش نہ تھی۔ کون سا باورچی خانہ، کیسا کھانا پکانا، وہ صاف صاف تحریکی بن گئے کہ

ناری شکتی زندہ باد

میری بیٹی پائندہ باد

کھانا بنائیں اس کے دشمن ! بیٹی نے خوب دل لگا کر پڑھا۔ اور کئی مرتبہ تو اس قدر شدید دل لگایا کہ کتابوں میں ناول رکھ رکھ کر حفظ فرمائے۔ نصاب سے جی اچاٹ ہوگیا تھا، وہ سب باتیں اب بچگانہ لگتیں لہذا لاڈلی بیٹی نے غیر نصابی کتابوں کو خوب چاٹا۔

جہاں ابا پڑھائی کے حمایتی تھے وہاں ناولوں کے معاملے میں ان کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ ناول کو خرافات سمجھ کر اس کے خلاف جہاد کو جہادِ اصغر سے کچھ اوپر کا درجہ عنایت فرماتے تھے۔

بیٹی کا بچپنا گیا اور ابا بھی راہ عدم سدھارے۔ لیکن کچھ ابا کی دعائیں اور زیادہ بیٹی کے کرتوت کہ ابا حضور کو داماد بھی وہ ملے جنھوں نے ان کی لاڈلی کو ان ہی کی طرح ہتھیلی کا چھالا بنا کے رکھا۔

ہر شے کی زیادتی جان لیوا ہوتی ہے لہذا لاڈ کا یہ امرت بھی جان لیوا ثابت ہوسکتا تھا۔ لہذا ہم نےبغاوت کی ٹھان لی۔

ارے ! کھانا تو کوئی بھی بنا سکتا ہے، آپ اپنا ریسرچ ورک کیجیے ۔

گھر کا کیا ہے، کام تو کوئی بھی دیکھ لے گا، آپ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا سوچیے۔

روٹی نہیں بنانی آتی تو کیا ہوا، میں بازار سے لے آیا کروں گا۔

بس! آپ پڑھیں اور پڑھائیں۔ دنیا تو گزر ہی جانی ہے آخرت سنور جانی چاہیے۔

جی چاہتا ہے امام صاحب کو ابو کہہ کے بلایا کروں لیکن سنا ہے نکاح کو زک پہنچنے کا خطرہ ہے۔

بیگم ! تحریر لکھتے ہوئے موبائل فون کی بجائے لیپ ٹاپ کا استعمال کیجیے۔

بیگم تو ابا سے بھی چونچیں لڑاتی، ان کو کیونکر بخش دیتیں۔

نہیں! مجھے لیپ ٹاپ پہ لکھنے میں مزہ نہیں آتا۔

آج کل کا شدید نعرہ یہ ہے کہ بیگم ! جلدی سوجایا کریں، آپ کی طبیعت بگڑ جاتی ہے۔

بھئی جب نیند ہی نہ آوے تو کیسے سو جائیں اور کیونکر سو جائیں۔

آج بھی حسب معمول طبیعت خراب ہی تھی اور دل بہت زمانوں بعد کسی ناول میں اٹکا ہوا تھا لیکن اگر کمرے کی بتی جلائیں تو صاحب بہادر کے جاگنے کا اندیشہ اور اگر موبائل کا ٹارچ جلائیں تو میاں صاحب کو بیگم کی نظر کے غم سے دل کا دورہ پڑ جانے کا اندیشہ۔

الٰہی ! تیرے آزادبندوں کی نہ یہ بتی نہ وہ بتی

یہاں جلنے پہ پابندی وہاں جلانے پہ پابندی

نہایت تفکر وتدبر کے بعد جو نکتہ سمجھ آیا تو دل میں آبی نرگس کے پھول کھل گئے۔

سرتاج ! اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو آپ آرام فرمائیں، بندی برآمدے میں بیٹھ کر کتب بینی فرمانا چاہتی ہیں۔

کیا آپ صبح مطالعہ نہیں کر سکتیں؟

( لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا ) جی ! لیکن صبح تو پریزینٹیشن ہے نا ( ناول میں سیکھ کر ہیروئن کی طرِ ح زلف لہرانے اور آنکھیں پٹپٹانے کی بھئی ۔ )

اوہ ! تو چلیے آپ اندر ہی پڑھ لیجیے میں انتظار کر لیتا ہوں۔

(سبحان اللہ ! بندہ پوچھے پڑھاتی تو آپ کچھ اور ہیں یہ ہاتھ میں کیا ہے تو کس منہ سے جواب دیں گے کہ شرم ہم کومگر نہیں آتی )

ارے نہیں ! مجھے تنہائی اور یکسوئی درکار ہے۔ کسی کی بھی موجودگی سے ذہنی رو بھٹک جاتی ہے۔

( بیوی نثر نگار اور شوہر شاعر ہو تو آمد اور خیال کی گرفت سمجھانے میں کس قدر آسانی ہوتی ہے اس شبھ گھڑی سمجھ آگیا )

جی بہتر ! آپ اپنا وقت لیجیے۔

اور ہم ڈگڈگی بجاتے جھومتے لہراتے باہر جا کے صوفے پہ ڈھیر ہوئے۔ گندے مندے چپس کے پیکٹ پاس رکھے۔ جان لیوا مٹھاس سے بھرے مشروب کا ٹن کھولا، پاؤں پسارے، ناول پھیلایا اور خود کو دور دیس کی راج کمہاری سمجھ کر نوجوانی کی یادیں تازہ کرنا شروع کیں۔

ٹھیک آدھے گھنٹے بعد ساس صاحبہ نے باہر آکے مشکوک نگاہوں سےگھورا۔ ہم نے مسکراہٹ کو صدقہ سمجھ کر اچھالا اور دوبارہ مصروف۔

دس منٹ تک انھوں نے صبرفرمایا ہوگا، اس کے بعد نہایت ادب سے گویا ہوئیں۔

بیٹا ! سب ٹھیک ہے نا؟

جی امی! اب سب بالکل ٹھیک ہے۔

معصوم خاتون اپنے بیٹے کی خیریت کی دعائیں مانگتی ہوئی دوبارہ تشریف لے گئیں۔

اور مکمل آدھے گھنٹے بعد میاں صاحب آنکھیں ملتے ہوئے آئے، ہم نے کمال ہوشیاری سے ( بچپن کی پریکٹس ) ناول چھپایا۔ میاں کو گھور کے دیکھا کہ ہمارے خیال میں مخل ہوئے۔ وہ ارتکاز توڑنے پہ معذرت کرتے ہوئے چراغ کے جن کی طرح غائب ہوئے اور ہم اپنی فتح کا جشن منا رہے ہیں۔

بھلا کوئی بتائے کیا تمام عمر اب ہم ابا اور میاں کی خاطر سنجیدہ کتابیں پڑھا کریں گے؟؟

یہ بھلا کوئی انصاف کی بات ہے؟؟

انیائے ہے سرکار انیائے

ناری شکتی کی جے

آپ کی پڑھی لکھی باجی

سمیرا امام


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں