شاھنواز شریف
ماہ اگست کی بیش بہا خوشیوں کے ساتھ ہی ستمبر میں رونما ہونے والے واقعہ کی یادیں تازہ ہونے لگتی ہیں لیکن لگتا یوں ہے کہ شاید اب ہم آخری لوگ ہیں جنہیں 6 ستمبر، 14 اگست، 23 مارچ کے دنوں سے کوئی تعلق ہو۔ اب تو ہر طرف اور خاص کر سوشل میڈیا پر یہ بات زدعام ہے کہ بٹوارا کیوں ہوا؟ ہم الگ ہی کیوں ہوئے؟ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ملک بنایا ہی کیوں گیا؟
کوئی پڑوسیوں کی ترقی کو ستائشی الفاظ سے بیان کرتا نظر آتا ہے، کوئی ان کی خارجہ پالیسی کی مدحت کررہا ہے۔
اس سب کچھ کے پیچھے جہاں وطن عزیز کی تنزلی کے عوامل کارفرما ہیں مثلاً کرپشن، اقربا پروری، نااہلی، بے ایمانی۔ وہیں ایک بہت بڑا مسئلہ اس نسل کے سامنے اپنی اقدار، اپنی روایات، اپنے وقار کے ہونے کی بجائے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا گیا کہ یہ جو کرپٹ لوگ ہیں یہی ہمارا مقدر ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب ہم قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان کے مطابق کہ
’ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔( خطاب ،اسلامیہ کالج پشاور، 13جنوری 1948ء ) ‘
اگر ہم اس قول سے پھر رہے تھے تو ہمیں اپنی اساس کی طرف پلٹنا چاہیے تھا لیکن ہم نے پاکستان کو اسلامی بنانے کی بجائے اسے دین سے دور کرنا شروع کردیا، یوں رفتہ رفتہ وہ نوجوان نسل جس نے اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنا تھی وہ اس کی محبت سے عاری ہونے لگی۔اور جن قوتوں نے پاکستان کا پاکیزہ وجود کبھی قبول ہی نہیں کیا تھا، نوجوان نسل نے ان کا آلہ کار بن کر اس اسلامی قلعہ کو ہر لحاظ سے غیر مستحکم کرنا شروع کردیا۔ المیہ تو یہ رہا کہ اگر بات صرف معیشت ہی کی ہوتی تو بھی حالات اتنے درگرگوں نہ ہوتے لیکن ان ظالموں نے ہماری اخلاقی، تمدنی، معاشرتی اور دینی اقدار کو بھی تار تار کرنا شروع کردیا۔ آج حال یہ ہے کہ نوجوان نسل بانی پاکستان محمد علی جناح کے فرمودات کے بجائے گاندھی، نہرو اور ابو الکلام کے اقوال بیان کرتی ہے۔ یہ سب کچھ ایک منظم طریقے سے نوجوان نسل کی کچے ذہنوں میں ڈالا گیا ہے اور اس سب کا منبع صرف اور صرف مال و متاع کی محبت ہے۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستانی نوجوان ملک کے مستقبل سے مایوس کیوں ہو رہے ہیں؟
پاکستان میں نئی نسل جلد از جلد اسکرپٹ رائٹر بننا چاہتی ہے
چونکہ پاکستان کی معیشت کو زمین بوس کردیا گیا ہے، اس لیے ہماری نوجوان نسل کو بھارت کی معیشت چھی لگ رہی ہے، بھارتیوں کا چاند پر جانا ہمیں بہت دلفریب لگ رہا ہے حالانکہ انڈیا بھی آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی گہری دلدل میں دھنسا ہوا ہے، لیکن چونکہ ہمارے ذہن اس زہر سے بھر چکے ہیں کہ ہمارا ملک ٹھیک نہیں، اس لیے ہم اغیار کی محبت میں گرفتار ہوچکے ہیں، صحیح اور غلط کی پرواہ کیے بغیر حق اور باطل کی تمیز سے بے بہرا ہوچکے ہیں، صرف اور صرف دنیا کی محبت میں اپنی دنیا بھی اور آخرت بھی خراب کیے جارہے ہیں۔
آج پاکستان کی نوجوان نسل کو نہ صرف جنگ آزادی بلکہ پاکستان بننے کے بعد آنے والے مہاجرین اور پاکستان میں پہلے سے موجود انصار کے متعلق بتانے کی ضرورت ہے۔ کس طرح وطن عزیز کے قیام کے بعد اس کی سالمیت پر حملے کیے جا رہے ہیں اس کا بھی پرچار کرنا ہوگا۔
بھارت میں مسلم اداروں نے گائے کی قربانی کے بارے میں فتویٰ دیا ہے کہ ’انڈیا میں گائے کی قربانی نہیں کرنی چاہیے تاکہ دیس میں بھائی چارے کی فضا قائم رہے‘۔
1945 میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے پوچھا گیا کہ
مسلمان قوم اگر ہندوستان میں گائے کی قربانی کو روک دے تو اسلام کی نگاہ میں کوئی قیامت نہیں آجاتی، خصوصاً جب کہ اس فعل میں نفع کم اور نقصان زیادہ ہے۔ پھر کیوں نہ ایک ہمسایہ قوم کا اتحاد حاصل کرنے کے لیے رعایت سے کام لیا جائے؟ اکبر اعظم، جہانگیر، شاہجہاں اور موجودہ نظام حیدر آباد نے عملی مثالیں اس سلسلے میں قائم کی ہیں۔ :
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جواب دیا:
آپ نے جن بڑے بڑے’’اماموں‘‘ کا نام لیا ہے مجھے ان میں سے کسی کی تقلید کا شرف حاصل نہیں ہے، میرے نزدیک مسلمانوں نے ہندوستان میں ہندوؤں کو راضی کرنے کے لیے اگر گائے کی قربانی ترک کی تو چاہے وہ کائناتی قیامت نہ آجائے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ لیکن ہندوستان کی حد تک اسلام پر واقعی قیامت تو ضرور آجائے گی۔ افسوس یہ ہے کہ آپ لوگوں کا نقطہ نظر اس مسئلہ میں اسلام کے نقطہ نظر کی عین ضد ہے۔ آپ کے نزدیک اہمیت صرف اس امر کی ہے کہ کسی طرح دو قوموں کے درمیان اختلاف و نزاع کے اسباب دور ہوجائیں۔ لیکن اسلام کے نزدیک اصل اہمیت یہ امر رکھتا ہے کہ توحید کا عقیدہ اختیار کرنے والوں کو شرک کے ہر ممکن خطرہ سے بچایا جائے۔
جس ملک میں گائے کی پوجا نہ ہوتی ہو اور گائے کو معبودوں میں شامل نہ کیا گیا ہو اور اس کے تقدس کا بھی عقیدہ نہ پایا جاتا ہو، وہاں تو گائے کی قربانی محض ایک جائز فعل ہے جس کو اگر نہ کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن جہاں گائے معبود ہو اور تقدس کا مقام رکھتی ہو، وہاں تو گائے کی قربانی کا حکم ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا۔ اگر ایسے ملک میں کچھ مدت تک مسلمان مصلحتاً گائے کی قربانی ترک کردیں اور گائے کا گوشت بھی نہ کھائیں تو یہ یقینی خطرہ ہے کہ آگے چل کر اپنی ہمسایہ قوموں کے گاؤں پرستانہ عقائد سے وہ متاثر ہوجائیں گے اور گائے کے تقدس کا اثر ان کے قلوب میں اسی طرح بیٹھ جائے گا جس طرح مصر کی گاؤ پرست آبادی میں رہتے رہتے بنی اسرائیل کا حال ہوا تھا کہ ’’ُاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْل‘‘۔ پھر اس ماحول میں جو ہندو اسلام قبول کریں گے وہ چاہے اسلام کے اور دوسرے عقائد قبول کرلیں،لیکن گائے کی تقدیس ان کے اندر بدستور موجود رہے گی۔ اسی لیے ہندوستان میں گائے کی قربانی کو میں واجب سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ میرے نزدیک کسی نو مسلم ہندو کا اسلام اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک وہ کم از کم ایک مرتبہ گائے کا گوشت نہ کھالے۔ اسی کی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جس میں حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ’’جس نے نماز پڑھی جیسی ہم پڑھتے ہیں اور جس نے اسی قبلہ کو اختیار کیا جو ہمارا ہے اور جس نے ہمارا ذبیحہ کھایا وہ ہم میں سے ہے‘‘۔ یہ’’ہمارا ذبیحہ کھایا‘‘ دوسرے الفاظ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ مسلمانوں میں شامل ہونے کے لیے ان اوہام و قیود اور بندشوں کا توڑنا بھی ضروری ہے جن کا جاہلیت کی حالت میں کوئی شخص پابند رہا ہو۔
( ترجمان القرآن۔ رجب، شعبان64ھ۔ جولائی، اگست45ء)
اسی طرح آج ہمیں آج بھی ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان نسل کو 6 ستمبر1965 کے ظالمانہ حملے کا سبب معلوم ہوسکے۔ جن لوگوں نے ہمارے وطن عزیز کا وجود کبھی تسلیم ہی نہیں کیا وہی لوگ ایک طرف نوجوانوں میں زہر بھر رہے ہیں اور دوسری طرف دین اور ملت سے بیزار غداروں کو پیسہ، مراعات اور عہدے دے کر ان سے وہ سب کام لے رہے ہیں جس سے وطن عزیز کی سالمیت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے درمیان سے انُ کا کی بھیڑوں کی نشاندہی کریں تاکہ انُ کو کیفر کردار تک پہنچا کر وطن عزیز پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکیں اور پاکستان کو واقعتا اسلام کا قلعہ بنا سکیں کیونکہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر اور تفرقے میں نہ پڑ کر ہی ہم اللہ کی خوشنودی رضامندی حاصل کرسکتے ہیں جو نہ صرف ہمیں دنیا میں کامیاب و کامران کرے گی بلکہ جنتوں کا بھی وارث بنائے گی۔ انشاءاللہ۔
ایک تبصرہ برائے “پاکستان کی آزادی اور دفاع۔۔۔ کچھ کرنے کے کام”
جزاک اللہ خیر