کس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے ؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد عامر خاکوانی
ایک اخبارنویس اور کالم لکھنے والے کی حیثیت سے ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ تصویر کے دونوں رخ دیکھے جائیں اور کسی بھی معاملے پر اگرایک سے زائد آرا موجود ہیں تو انہیں ضرور پڑھا، سنا، سمجھا جائے۔ ہر سوچنے، سمجھنے، لکھنے والے کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ مختلف اسباب کی بنیاد پر وہ سوچ بنتی ہے، خاندانی پس منظر، تعلیم، اساتذہ، طبعی میلان،نوجوانی میں ایام کس حلقہ فکر میں گزرے؟ پسندیدہ ادیب، شاعر، مفکر اور ان سے بڑھ کر زندگی میں حاصل ہونے والے تجربات، مشاہدات اور احساسات۔آپ کے والدین کی سیاسی سوچ کیا تھی، یہ فیکٹربڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔

والد بھٹو کے جیالے تھے، بچپن ہی سے بھٹو فیملی کی تصویریں دیکھیں، جلسے اٹینڈ کئے توغیر محسوس انداز میں ایک خاص قسم کی رومانویت آمیز سیاسی تعلق جڑ گیا۔ جماعت اسلامی سے وابستہ گھرانے کے بچے عموماً اسی طرف جاتے ہیں۔ روایتی مذہبی گھرانوں کی اولاد عام طور سے اپنے مسلک سے وابستہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ مولوی بیزار گھرانوں میں عام طور سے قدرے سیکولر،لبرل یا ترقی پسند خیالات کا غلبہ رہتا ہے، اگر تعلق پشتون ، بلوچ خطے سے ہے توپھر قوم پرست جماعتیں فطری انتخاب بن جاتی ہیں۔ مسلم لیگی گھرانوں کے لوگ مسلم لیگ یا پھر رائیٹ کی جماعتوں کے طرف چلے جاتے ہیں۔یہ فارمولا الٹ بھی ہوجاتا ہے،بیشتر ردعمل کی وجہ سے۔مذہبی گھرانے اگر زیادہ سخت گیر یا جبر رکھتے ہیں تو بچے الٹ ہوجائیں گے،اسی طرح دوسری جگہوں پر بھی نتیجہ مختلف ہوسکتا ہے۔

دوسرا بڑا فیکٹر زمانہ تعلیم کے دوست، طالب علم اور استاد ہیں۔ بعض شخصیات طاقتور اور اثر چھوڑ دینے والی ہوتی ہیں۔ ایسے اساتذہ کے شاگرد ان کے افکار اور سوچ کی پیروی کرتے ہیں۔ ترقی پسند نقطہ نظر رکھنے والوں کی بڑی تعداد یہی راستہ طے کر کے ادھر گئی۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی دوست یا ساتھی طالب علم کی کوشش سے اسلامی جمعیت طلبہ یا کسی ترقی پسند سوچ رکھنے والی طلبہ تنظیم کی طرف میلان ہوگیا یا بعض کیسز میں ڈاکٹر اسرار، غامدی سکول آف تھاٹ،ہاشمی سسٹرز کا حلقہ یا کبھی حزب التحریر جیسی شدت پسند جماعتوں کی طرف بھی رجحان بن جاتاہے۔کچھ خوش نصیب اپنے متنوع مطالعہ اور تجربات سے اپنے لئے راستہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ مختلف نقطہ نظر پڑھتے اور جو طبیعت کے زیادہ قریب لگے، اس طرف کھنچے چلے جاتے ہیں، اگر مایوسی ہوتو پلٹ بھی آتے ہیں۔

سوچ کی تشکیل میں تیسرا بڑا فیکٹر یہ ہے کہ زندگی نے آپ کے ساتھ کیا برتاﺅ کیا؟ تلخ وشیریں تجربات، مشاہدات سوچنے کا پیٹرن بدل دیتے ہیں۔ ہم نے ایک وقت کے انتہائی لبرل لوگوں کو رائٹسٹ بنتے اور رائٹ کے لوگوں کو سیکولر بنتے دیکھا۔ویسے بھی نوجوانی سے نکلنے کے بعد رومانویت پسندی اور جذباتیت کم ہوجاتی ہے تو پھر سوچ سمجھ کر رائے اپنانا آسان ہوجاتا ہے۔ ایسا بھی بہت بار ہوتا ہے کہ نوجوانی کے انقلابی وقت گزرنے کے بعد عملیت پسند بلکہ موقعہ پرست بن جاتے ہیں۔ انہیں سمجھ آ جاتی ہے کہ اس انقلاب کی جدوجہد میں کچھ نہیں ملا، ردعمل کی کسی کیفیت میں وہ اپنی زندگی ”بنانے“کا سوچتے ہیں اور پھراپنے تمام پرانے نظریے، آدرش خواب بھلا دیتے ہیں۔ تب حب جاہ اور حب زر ہی ان کی رہنما ہوتی ہے۔

کئی لوگوں کو دیکھا کہ کسی خاص دور میں انہوں نے حیران کن عزیمت کا مظاہرہ کیا، جیلیں کاٹیں، بدترین تشدد برداشت کئے ، اس سے اگلے دور میں ان کا رویہ انتہائی مختلف رہا۔ اب انہوں نے جدوجہد اور مزاحمت کے بجائے مفادات اٹھانا مناسب سمجھا۔ شائد حالات کے جبر نے پریکٹیکل بنا دیا یا پھر صعوبت بھرے ایام نے ہمت توڑ ڈالی۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اپنے اصولوں کے ساتھ جڑے رہے، بظاہر انہوں نے گھاٹے کا سودا کیا، مگر وہ خود مطمئن، طمانیت سے پر مسرور زندگی گزارتے رہے۔نظریاتی حلقوں میں ایسی بہت مثالیں ملیں گی۔ رائٹسٹوں میں کچھ زیادہ ، شائد اس لئے بھی کہ ان میں مذہب اور ایمان کے حوالے سے یکسوئی اور اطمینان ہوتا ہے،لیفٹ کے لوگوں اور الٹرا لبرل سیکولر حلقوں میں کہیں کہیں اس حوالے سے بے یقینی،تشکیک، گلٹ والا معاملہ تنگ کرتا رہتا ہے۔

بات لمبی ہوگئی، کسی اور طرف بھی نکل گئی۔ کالم کبھی سرکش گھوڑے والا رویہ اختیار کرتا ہے، آپ لاکھ لگام کھینچیں، رفتار سست کرنے کی کوشش کریں یا کسی خاص سمت میں موڑیں، وہ اپنے پسندیدہ راستے پر سرپٹ دوڑتا رہتا ہے۔کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ کسی بھی معاملے میں اپنی رائے رکھنا قطعی طور پر غلط نہیں،البتہ اس کے حصار میں مقید نہیں ہوجانا چاہیے۔ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے سے مختلف سوچ رکھنے والے لوگوں کی بات سنی، ان کا نقطہ نظر پڑھا ، سمجھا جائے۔

اب یہ کرپشن، احتساب والا معاملہ ہی دیکھ لیجئے۔ دو واضح نقطہ نظر اس بارے میں موجود ہیں۔ایک حلقہ وہ ہے جس کے خیال میں عمران خان کو اپنے وعدوں کے مطابق بے رحمانہ احتساب کرتے ہوئے کرپٹ لوگوں کو جیلوں میں بھیجنا چاہیے،ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے اور ایسی نئی روایات قائم ہوں جن سے لوٹ مار کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ دوسرا حلقہ وہ ہے جس کے خیال میں موجودہ حکومت کو معیشت سنبھالنے کی طرف توجہ دینی چاہیے، احتساب سے افراتفری پھیلے گی، سرمایہ کار خوفزدہ ہو کر سرمایہ نکال لیں گے، رہا سہا کاروبار ختم ہوجائے گا اور معیشت مزید بیٹھ جائے گی۔ ایسی رائے رکھنے والوں پر شک نہیں کرنا چاہیے، ایک معقول تعداد ان لوگوں کی ہے، جنہوں نے پوری سنجیدگی اور دیانت داری سے یہ رائے اپنائی ہے،

سیاسی پسند نا پسند یا مفادات اس کی وجہ نہیں۔ایک بڑی تعدا د لیکن ایسے لوگوں کی بھی ہے جو سیاسی وابستگی کی وجہ سے یہ سوچ رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ ن کے کارکن اور ووٹر ہیں اور وہ اپنی قیادت کو بے گناہ اور معصوم سمجھتے ہیں، جن کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی مخالفین پروپیگنڈہ کرتے رہے ہیں۔بعض ایسے لوگ بھی اس صف میں شامل ہیں،جن کے مفادات بھی ماضی کے حکمرانوں سے جڑے ہوئے ہیں، ساتھ مل کر انہوں نے بھی کچھ مال بنایا یا عہدے حاصل کئے اور مستقبل میں بھی فائدے پہنچنے کی امید موجود ہے۔دیگر فیکٹرز بھی ساتھ شامل ہوجاتے ہیں۔ بعض لوگ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ رکھتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ عسکری حلقے کیا سوچ رہے ہیں اور پھر بڑے اطمینان کے ساتھ اس کا الٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ایک نسبتاً چھوٹا حلقہ فکر ان لوگوں کا بھی ہے جنہیں کرپشن یا کرپٹ لوگوں سے کوئی ہمدردی نہیں، مگر انہیں لگ رہا ہے کہ اس وقت ادارے بعض شخصیات یا جماعتوں کو رگڑا لگا رہے ہیں، کچھ اوور ڈوئنگ(Over Doing)ہور ہی ہے، جس کے باعث وہ اس احتساب کی مخالفت کر رہے ہیں۔

دلچسپ بات ہے کہ احتساب کے حامی حلقہ میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں یہ بات کھٹک رہی ہے، مگر ان کا استدلال یہ ہے کہ چونکہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ ہی کی حمایت اور سرپرستی سے یہ لوگ سیاسی مافیاز کی صورت اختیار کر گئے، اس لئے اگر آج اسٹیبلشمنٹ کی بھی وجہ سے انہیں کٹ ٹو سائز کرنا چاہتی ہے تو اس میں کیا حرج ہے،مافیاز تو اس بہانے ختم یا کمزور ہوجائیں گے۔

کرپشن یا احتساب کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی مختلف آرا پڑھنے کے باوجود سچی بات یہ ہے کہ میں ان لوگوں سے متفق نہیں ہوسکا جو کرپشن کے حوالے سے زیادہ ”حساس“نہیں اور چاہتے ہیں کہ سیاسی عمل آگے بڑھتا رہے۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ اس بارمعاملہ صرف سیاست، سیاستدانوں یا سسٹم کے چلتے رہنے کا نہیں، سوال یہ ہے کہ کرپشن کے نام پر جو مجرمانہ کھیل کھیلا جا رہا ہے، اسے ختم ہونا چاہیے یا نہیں؟ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم لوٹنے والے کریمنلز کے ساتھ ہیں یا پھر ملک کو اس گند سے صاف کرنا چاہتے ہیں؟سوال تو یہ بھی ہے کہ معیشت ویسے ہی تباہ ہوچکی ہے، قرضے لے لے کر دیوالیہ ہونے والی حالت ہوچکی، اگر یوں لوٹ مار جاری رہی اور ہر ادارے کو تباہ کیا جاتا رہا تو پھر ہم ویسے ہی زیادہ خون بہہ جانے والے مریض کی طرح بے حال ہو کر گر جائیں گے، قرضوں کی شکل میں خون کی بوتلیں بھی اب زیادہ نہیں لگ سکتیں، ہمارے حصے کا بلڈ بینک بھی خالی ہوچکا۔اب DO or Dieوالا معاملہ ہے۔ یہ سب کچھ اس طرح چلتا رہے گا یا پھر اسے ختم کر دینا چاہیے اور ملکی دولت لوٹنے والوں کا بے رحمانہ احتساب کیا جائے۔دراصل جو کچھ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں سامنے آیا، اسے صرف کرپشن نہیں کہہ سکتے ۔

زرداری ، اومنی گروپ اور ملک ریاض کے گٹھ جوڑ کی جو تباہ کاری اب ہر ایک کے سامنے آ چکی ہے، اسے دیکھ کر تو کس طرح آنکھیں بند کی جا سکتی ہیں؟جے آئی ٹی رپورٹ کی تفصیل دینے کی ضرورت نہیں، بہت کچھ میڈیا میں آ چکا ہے۔ کوئی بھی موقف اپنانے سے پہلے وہ پڑھ لیجئے، پھر فیصلہ کریں کہ کس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے ؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں