چار-آدمی-،-کتاب

چار فرشتہ صفت لوگوں کی کہانی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پیارے قارئین! ہر صاحب دل صاحب علم نہیں ہوتا اور ہر صاحب علم، صاحب قلم نہیں ہوتا لیکن  کتاب ’چار آدمی‘ پڑھنے کے بعد پہلا خیال ذہن میں یہی آتا ہے کہ اللہ رب العزت نے ڈاکٹر امجد ثاقب کو صاحب دل اور صاحب علم ہی نہیں صاحب قلم لوگوں میں بھی سر فہرست رکھا ہے۔ دل ہو یا قلم، اس کے لیے علم ضروری ہے اور علم حساس لوگوں کے در پر ملتا ہے۔ مجھے اس کتاب کے مطالعہ سے پہلے ڈاکٹر امجد ثاقب کا نام صرف ’اخوت‘ کے حوالے سے معلوم تھا اور جب بھی اخبارات میں ’اخوت‘ کے حوالے سے کالم پڑھتی تو دل میں تشکر کا احساس پیدا ہوتا، ان کے لیے بے اختیار دعائیں نکلتیں کہ کلمہ کے نام پر حاصل کی گئی اس دھرتی پر کوئی تو کلمہ کی لاج رکھنے والا موجود ہے جس نے تسبیح پر کلمہ طیبہ کے ورد کو کافی نہیں سمجھا بلکہ غریب کی زندگی کے بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا ہے۔

میں نے  سینکڑوں کتب پر تبصرے کیے ہیں، ان پر کالم لکھے ہیں لیکن بیک وقت ندامت اور تشکر کے احساسات ایسے پیدا نہیں ہوئے جیسے اس کتاب کو پڑھ کر میں اس کتاب کے مطالعہ سے محروم رہتی اگر میں اکادمی ادبیات اطفال  کے زیر اہتمام آٹھویں اہل قلم کانفرنس میں شرکت نہ کرتی۔ یہ کانفرنس فاؤنٹین ہاؤس لاہور میں منعقد ہوئی۔ جناب شعیب مرزا نے اس میں شرکت کے لیے بہت اصرار کیا اور فاؤنٹین ہاؤس میں داخل ہوتے ہی استقبالیہ پر رجسٹریشن کے بعد یہ کتاب منتظمین کی جانب سے تحفے میں ملی۔

’بک کارنر‘ جہلم اور ڈاکٹر امجد ثاقب دونوں ناموں سے معیار اور اعتماد کے حوالے سے آشنائی تھی اس لیے یہ کتاب شکریہ ادا کرنے کے بعد بیگ میں رکھ لی۔

کانفرنس کے آغاز سے قبل ہمیں دعوت دی گئی کہ ہم فاؤنٹین ہاؤس کا دورہ کر سکتے ہیں۔ دیگر اہل قلم خواتین کے ساتھ اس کا جزوی دورہ اور پھر کانفرنس میں اس کے منتظم اعلٰی سید عمران مرتضی صاحب کا خطاب دل و دماغ پر نقش ہوگیا کبھی نہ مٹنے کے لیے۔

خدا اپنی مخلوق کی خدمت کے لیے بہت سے لوگوں کو منتخب کرتا ہے لیکن اس کے بندوں کی ٹھکرائی بلکہ دھتکاری ہوئی مخلوق ( ذہنی مریض جنہیں ہم عرف عام میں پاگل کہہ کر فارغ ہو جاتے ہیں ) کو گلے سے لگانا، ان کے بے کار وجود کو دوبارہ کار گہہ حیات میں کارآمد بنانا، ان کے ناکارہ دماغوں کو ہزار مرحلوں سے گزار کر سوچنے کے قابل بنانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

قدرت اپنے نبیوں اور ولیوں کی طرح اس کے لیے گنتی کے افراد پیدا کرتی ہے، ان کے اندر اس مخلوقِ کے علاج کے لیے مطلوبہ صفات پیدا کرتی ہے، ان کو حالات و واقعات کی بھٹی سے گزارتی ہے، صلے اور تمنا سے بے نیاز کرتی ہے اور خدائے وحدہ لا شریک پر عین الیقین اور حق الیقین کا درجہ عطا فرماتی ہے، تب کہیں وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ جنہیں میں اور آپ پاگل، مست اور کملے کہہ کر نظر انداز کرتے ہیں، وہ انہیں اپنا وقت، صلاحیت اور مال جیسی نعمتوں کا مرکز بنا لیتے ہیں۔

’فاؤنٹین ہاؤس‘ اور ’چار آدمی‘ بھی ایک ہی مرکز کے گرد گھومتے ہیں اور ان چار آدمیوں ( سر گنگا رام، ڈاکٹر رشید چوہدری، ملک معراج خالد، ڈاکٹر امجد ثاقب) کی  یہ کہانی قابل رشک ہے۔ انہوں نے فاؤنٹین ہاؤس کی تعمیر سے پہلے کیا دیکھا، کیا سوچا اور کن رسوم نے انہیں معاشرے میں مسیحا کا مقام عطا کیا ہم سب کو ضرور اس سے آگاہ ہونا چاہیے۔

ایک تنہا انسان پورے معاشرے کے لیے کس طرح تعمیری کام کرتا ہے، اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ کس مشنری جذبے سے کام کرتے ہیں اور مخلوق خدا کے لیے رول ماڈل بنتے ہیں، یہ کتاب اسی کی کتھا پر مشتمل ہے۔

کتاب ان چاروں عظیم ہستیوں کے حالات زندگی پر لکھی گئی ہے لیکن انداز آپ بیتی کی بجائے مکالماتی ہے۔ انداز تحریر دلچسپ اور کمال ادبی پیرائے میں ہے۔ جا بجا اردو فارسی کے اشعار تحریر میں صرف حسن پیدا نہیں کرتے بلکہ جادو کرتے ہیں۔

بڑے لوگ ہی بڑا کام سر انجام دیتے ہیں لیکن یہ بڑائی اور عظمت کیسے ملتی ہے، یہ ہمیں اس کتاب کے اندر ہر دوسرے تیسرے پیراگراف میں دکھائی دیتا ہے۔

کتاب کا پہلا باب فاؤنٹین ہاؤس کے نام سے ہے، برصغیر کی تقسیم سے قبل سر گنگا رام نے یہ عمارت ان بیوہ عورتوں کے لیے بنائی تھی جن سے شوہر کی وفات کے بعد زندہ رہنے کا حق چھین لیا جاتا تھا۔

ہندو بیوہ گھر‘ کے نام سے بننے والی عمارت گنگا رام کی ذہانت اورتعمیراتی  ہنر کا شاہکار ہے۔’

مجھے اس عمارت کو دیکھ کر خیال آیا کہ اس کا دوسرا نام ’پناہ گاہ‘ بھی ہوسکتا ہے۔ اس عمارت میں پناہ لینے والے ہر دور میں ہر طبقے سے متعلق رہے ہیں۔ نفسیاتی امراض صرف کسی ایک خاص طبقے کے لیے مخصوص نہیں۔ اس عمارت نے فلمی ستاروں کھلاڑیوں سے لے کر گلی محلے میں پھرتے آوارہ بچوں تک کو پناہ دی ہے۔

شاعر نے کہا تھا:

میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

یہ عمارت خدا کے بندوں سے پیار کا رہتی دنیا تک منہ بولتا ثبوت ہے۔

باب دوم ڈاکٹر رشید چوہدری کی داستان حیات پر مشتمل ہے جس کا عنوان ہے ’آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے‘۔ سارے ہی ابواب کے عنوانات بہت اعلیٰ ادبی پیرائے میں ہیں۔ ’ڈاکٹر رشید چوہدری کی کہانی ڈاکٹر امجد ثاقب کی زبانی‘ کو پڑھتے ہوئے کہیں رشک سے اشک بہہ نکلتے ہیں تو کہیں ان کی بے لوث خدمتوں پر۔

کتاب بند کرکے بہت دیر تک اسی منظر کا حصہ بننے کو دل چاہتا ہے۔ بلا شبہ یہ مصنف کے قلم کی تاثیر کا جادو ہے جو قاری کو سانس روکے بغیر کتاب مکمل کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ کتاب کے ہر صفحہ پر قاری دل پر ہاتھ رکھتا ہے، دامن دل کو کھینچنے کے لیے بے شمار فقرے، اقوال اور واقعات موجود ہیں۔ لکھتے ہیں:

’‘۔ہجرت صرف سفر کا نام نہیں، یہ آسانیوں کو خیرباد کہنے کا نام بھی ہے

بیماریوں میں سب سے زیادہ خطرناک بیماری جہالت ہے۔ یہ چاروں عظیم المرتبت لوگ معاشرے میں ہر طرح کی جہالت کے خلاف لڑنے کے لیے اٹھے، اپنے اپنے وقت میں یہ سارے ہی مجتہد ثابت ہوئے۔ ایک ہندو اپنے دھرم میں بیوہ عورت کو شوہر کی میت کے ساتھ ستی ہونے کو جہالت سمجھتا ہے۔ وہ شوہروں کے ساتھ نہ جلنے والی عورتوں کی شوہروں کے بعد کی قید بامشقت زندگی کو جہالت سمجھتا ہے تو اس رسم کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے ہندو بیوہ عورتوں کے لیے دوبارہ شادی کرنے کی مہم کا آغاز کیا اور سینکڑوں نہیں ہزاروں بیواؤں کی شادی کی!

کیا سر گنگا رام اپنے وقت کا اپنے دھرم کا مجتہد نہیں تھا؟ ان چاروں کی داستان حیات میں سب کچھ اچھا نہیں ملتا، بلکہ اپنے اخلاص سے انہیں سب کچھ اچھا بنانے کا ملکہ حاصل تھا، ان تھک محنت اور اجر سے بے نیازی ان کی روحانی طاقت بنی۔

’پاگل خانوں‘ جیسے حقارت بھرے لفظوں سے ذہنی امراض کا شفاخانے، تک کا سفر آسان نہیں تھا۔ قدرت ہاتھ تھام کر انہیں ہر اس جگہ لے گئی جہاں مدد کی ضرورت تھی۔ کبھی حیدرآباد کا مینٹل ہاسپٹل اور کبھی گلگت میں ملازمت۔

فاضل مصنف نے کتاب میں ذہنی مریضوں کے بارے میں چشم کشا حقائق بیان کئے ہیں۔ ان کا تجزیہ کیا اور علامتیں بھی بیان کیں تاکہ ہمارے اردگرد اور ہمارے اندر یہ موجود ہیں تو ہم ہوشیار ہو جائیں۔ انسان کس طرح کے حالات میں ہمت ہار جاتا ہے اور ’پاگل‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس سے بھی دکھ کی بات یہ ہے کہ انہیں مینٹل ہاسپٹل کی بجائے پیروں فقیروں اور درگاہوں کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔

ایسے میں ان کو ’ذہنی مریض سمجھ کر فاؤنٹین ہاؤس لانا، ماہر نفسیات سے ان کے سیشن کروانا، ان کے علاج کی تمام تر کوششوں کے بعد ان کو ان کے اندر چھپی صلاحیت کا کھوج لگا کر انہیں مصروف رکھنا بھی عبادت ہے۔

ڈاکٹر رشید چوہدری کی زبانی دنیا کے نقشے میں نیویارک جیسے شہر میں پہلے فاؤنٹین ہاؤس کے قیام سے لے کر سول سیکرٹریٹ کے قرب میں واقع فاؤنٹین ہاؤس کی تاریخ بہت دلچسپ ہے۔ سر گنگا رام کا ’ہندو بیوہ گھر‘ رشید چوہدری کے فاؤنٹین ہاؤس میں کیسے تبدیل ہوا؟ یہ بھی سچے جذبوں کی کہانی ہے۔ لکھتے ہیں:

’مجھے ایک تکون کے کنارے ملتے ہوئے نظر آئے دست ہنر، دست فیض، اور دست شفا، گنگا رام، معراج خالد اور رشید چوہدری‘۔

یہ کہنا برحق ہے کہ رشید چوہدری سے پہلے پاگل پن ایک سزا تھی اور اس سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ ڈاکٹر رشید چوہدری کی پیدائش، نامساعد حالات اور ان کی ماں کا لازوال کردار ہی ان کی عظمت کا پس منظر ہے۔ ڈاکٹر رشید چوہدری کی زبانی بہت سے ایسے واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں جنہیں پڑھنا بھی بڑے دل گردے کا کام ہے، کجا ان کرداروں کو سینے سے لگا کر دوبارہ زندگی کے میدان میں لانا۔!

خواہ وہ ایک کیپٹن ہو یا سندھ ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جج کی بیٹی ان کی کہانیوں میں تاثیر اس طرح سے گھل گئی ہے کہ باقی کہانیاں نمناک  آنکھوں سے ہی پڑھی جاسکتی ہیں۔

اصل میں یہ کتاب ہر اس شخص کے لیے تحریک ہے جو اپنے اندر مخلوق خدا کے لیے بھلائی کا جذبہ رکھتا ہے۔ نیکی میں آگے کیسے بڑھا جا سکتا ہے، یہ کتاب اس کا خوبصورت جواب ہے۔ نیکی کو تلاش کرنا پڑتا ہے، اس کی حفاظت کرنا پڑتی ہے۔ جب یہ نیکی کی تلاش کا احساس ہی نہ رہے تو انسان خدا آخرت سے بے خوف ہو جاتا ہے۔ پھر زمین جائیداد اور نفس خدا بن جاتے ہیں۔

مینٹل ہاسپٹل میں بہت زیادہ مریض ( جنہیں عمران مرتضی صاحب ممبرز کہہ کر ان ذہنی مریضوں کی اور اپنی عزت بڑھاتے ہیں ) اسی نفس پرستی میں مبتلا ہو کر پہنچتے ہیں۔ بے جان مٹی کی محبت، خونی رشتوں کی محبت پر غالب آجاتی ہے اور سگے صحتمند  باپ کو پاگل قرار دے کر پاگل خانے میں داخل کردیا جاتا ہے۔ اپنے پیارے رشتوں کی گردن پر چھری چلادی جاتی ہے۔ اکٹھے نو قریبی عزیز بندوق کی گولی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ داستان عبرت جہاں کتاب میں خون کے آنسو رلاتی ہے، وہیں ڈاکٹر صاحب کا دست مسیحائی اندر تک سکون پہنچاتا ہے۔

نامور شاعرہ جس نے ایرانی سربراہ کی آمد پر اس کا دل بہلانے کے لیے رقص سے انکار کیا، خواب آور گولیاں کھا کر موت کو گلے لگانا چاہا، یہ ڈاکٹر رشید چوہدری کا مشفق کردار تھا جو اسے زندگی کی طرف لے کر آیا۔

کتاب میں عام اور خاص دونوں قسم کے قاریوں کی دلچسپی کا ڈھیروں مواد موجود ہے۔ اس میں ناول کی سی کہانی ہے، افسانوی کردار، جاندار مکالماتی انداز، سونے کے پانی سے لکھے جانے والے صرف اقوال نہیں تجزیے موجود ہیں۔ صفحہ نمبر 81 ’جھوٹ کے شہر میں سچ بولنے والا پاگل‘ کے عنوان سے دیر تک مسحور کرنے والی تحریر بار بار پڑھنے کے قابل ہے۔ ڈاکٹر رشید چوہدری صاحب کی زبانی سنیے:

ایک روز میں فاؤنٹین ہاؤس پہنچا تو دفتر میں عجیب منظر دیکھا۔ فرنیچر ایک طرف تھا، سارے مریض خاموشی سے فرش پہ براجمان۔

ایک مریض تختہ سیاہ کے سامنے استاد بن کر کھڑا تھا تختہ سیاہ پر لکھا تھا

زندگی میں ناکامی کی وجوہات کیا ہیں؟

وہ یہ سوال ہر ایک سے پوچھتا اور جواب رجسٹر پر لکھتا جاتا۔ میں نے رجسٹر دیکھا تو حیران رہ گیا۔ ان تمام جوابات کو اکٹھا کیا جائے، زندگی میں ناکامی کی تمام وجوہات اکھٹی ہوجائیں۔

لکھا تھا:

ہر وقت اعتراض کرنا،

ہر معاملے میں خود کو برتر سمجھنا،

بے مقصد زندگی گزارنا،

سچی بات چھپانا،

تبدیلی سے ڈرنا،

اپنی سوچ کو حتمی سمجھنا،

دوسروں کے بارے میں جھوٹ بولنا،

بدگمانی کا شکار ہونا،

دوسروں کی ناکامی پر خوش ہونا،

یہ ادراک نہ کرنا کہ لوگ کیا چاہتے ہیں،

اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر تھوپنا،

کمزور لوگوں پر برہم ہونا،

دوسروں کے کام نہ آنا،

فقط دولت کمانے کے لیے بھاگ دوڑ کرنا،

دل میں کینہ اور دشمنی رکھنا،

محنت سے جی چرانا اور غیبت کرنا،

قارئین یہ ان لوگوں کی رائے ہے جنہیں ہم پاگل مجنوں اور دیوانہ کہتے ہیں۔ ناکامی کی طرح انہوں نے کامیابی کی بھی چودہ وجوہات دی ہیں جو ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اور مجھے یقین کامل ہے کہ ان پر عمل کی صورت میں دنیا بھر میں شاید ہی کوئی فاؤنٹین ہاؤس باقی رہے۔

یہ وہ باتیں ہیں جنھیں نوجوان نسل ہزاروں روپیہ دے کر موٹیویشنل سپیکر سے سننے جاتی ہے یا لاکھوں روپے خرچ کرکے سیشن اٹینڈ کرتی ہے کہ ذہنی سکون اور کامیابی حاصل کی جا سکے۔

اس کتاب میں لوگوں کے تجربات کی شکل میں حکمت کے خزانے بھرے ہیں۔ پس جس کا جتنا ظرف ہے وہ اتنا ہی حصہ وصول کر پائے گا۔

بہت سے فقرے بے اختیار دل کے تار ہلا دیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے قصے جو زمانے سے لڑے لیکن اپنے آپ سے نہ لڑسکے، معاشرے میں دوغلے پن کو برداشت نہ کرسکے اور بہترین سوچنے والے دماغ بالآخر فاؤنٹین ہاؤس پہنچے۔

عام افراد پاگل کیسے ہوتے ہیں؟ ڈاکٹر رشید چوہدری نے اس کی مختلف علامتیں بیان کی ہیں مثلاً کچھ لوگ ماضی میں رک جاتے ہیں، ماضی کا کوئی لمحہ ان کی زندگی میں ٹہر جاتا ہے، یا عدم توازن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لالچ، طمع، منافقت، جھوٹ، ریا جیسی بیماریاں اچھے بھلے معاشرے کو پاگل کر دیتی ہیں۔

معراج خالد کے بقول جب قدرت ایسے پاگل معاشروں پر مہربان ہوتی ہے تو گنگا رام جیسے افراد بھیج دیتی ہے۔

کتاب جا بجا خوبصورت اقوال سے سجی ہوئی ہے۔

’غم بانٹنے سے کم ہوتے ہیں اور خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں‘

ڈاکٹر رشید چوہدری کی زندگی کا بہت بڑا المیہ بوسنیا میں بے گناہ لوگوں کا وحشیانہ اجتماعی قتل تھا جس کے بعد ان کی سرگرمیوں کی لائن میں تبدیلی آئی۔ وسیع پیمانے پر خلق خدا کی خدمت کے لیے مالی مدد کی درخواست، سربراہان مملکت اور دیگر ذمہ داران کا فاؤنٹین ہاؤس کا دورہ، اس میں مزید بلاکس کا قیام اور اس کی دوسرے شہروں میں شاخیں کھولی گئیں۔ ڈاکٹر رشید چوہدری کی زندگی کے آخری لمحات دل چیر کر رکھ دینے والے ہیں۔

قارئین! ملک معراج خالد ہوں یا سر گنگا رام، ڈاکٹر امجد ثاقب ہوں یا ہارون الرشید یہ سب وہ کردار ہیں جو اپنے اپنے مقام پر معاشرے کی اصلاح کے لیے آئے اور انھوں نے اپنی کوششوں سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ مجھے اس چیز میں مشکل پیش آرہی ہے کہ میں گنگا رام کی اور ڈاکٹر امجد ثاقب کی خدمات کا احاطہ کن الفاظ میں کروں جیسے خدا نے اپنے پیغمبروں کے بارے میں الہامی کتاب میں ان کی زبان سے کہلوایا:

’اور یہ کہ میرا اجر تو میرے رب کے ذمہ ہے جو رب العالمین ہے‘

بلاشبہ یہ انہی کے پیروکار ہیں، یہ وہ عظیم المرتبت لوگ ہیں جنہیں بہت بڑے ایوارڈ کے ساتھ یک مشت پچیس، پچیس لاکھ روپے ان کی خدمات کے صلے میں ملتے ہیں۔ اقوام متحدہ جیسے ادارے میں انہیں دیگر اقوام اور اداروں کی راہنمائی کے لیے بلایا جاتا ہے۔ وہ درویش منش انسان اپنا انعام، اپنا اثاثہ سب کچھ اپنے غریب بھائی بندوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دیتے ہیں کہ صلہ اور اجر دنیا میں نہیں ملتا اور مل بھی نہیں سکتا۔

کیا سمندر کا پانی تولا جاسکتا ہے؟

کیا ان بے لوث بندوں کی خدمات کا معاوضہ دنیا والے دے سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں یہ اس سے بے نیاز ہیں۔

میری درخواست ہے کہ اس کتاب کو اساتذہ، ڈاکٹرز اور ہر سطح کے اداروں کے لیے لازم قرار دیا جائے۔ یہ کتاب سانسوں کی گنتی کو زندگی میں بدلنے کا نام ہے۔ مسیحاؤں کی زندگی کیسی ہوتی ہے، ان کے زندگی کے شب و روز اور عام لوگوں کے شب و روز میں کیا فرق ہوتا ہے؟ یہ سب اخوت کے بانی نے آنے والی نسلوں کو تحریری شکل میں دے کر احسان کیا ہے۔

یہ فرشتوں کی نہیں فرشتہ صفت چار لوگوں کی کہانی ہے جو ہمارے معاشرے میں ہمارے جیسے گھروں میں پیدا ہوئے، قدرت نے انہیں عظیم الشان مقاصد کے لیے چن لیا۔ اخوت کی کہانی ڈاکٹر امجد ثاقب کی زبانی ان شاءاللہ اگلے کسی کالم میں لیکن کتاب خریدیے اور مطالعہ کیجیے تاکہ اس کا فیض ہم سب تک پہنچ سکے۔

نام کتاب: چار آدمی

مصنف: ڈاکٹر امجد ثاقب

ناشر: بک کارنر جہلم

ملنے کا پتہ

اخوت، 19، سوک سینٹر، سیکٹر اے ٹو، ٹاؤن شپ، لاہور

یا آن لائن آرڈر کے لیے

www.amjadsaqib.com


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

4 پر “چار فرشتہ صفت لوگوں کی کہانی” جوابات

  1. روبینہ قریشی Avatar
    روبینہ قریشی

    زبردست.. جزاک اللہ

    1. قانتہ رابعہ Avatar
      قانتہ رابعہ

      بہت شکریہ پیاری

  2. رقیہ اکبر چوہدری Avatar
    رقیہ اکبر چوہدری

    قانتہ بہت عمدہ تبصرہ ہے
    ایک اچھی کتاب پہ رواں تبصرہ لکھا ہے آپ نے لطف آیا پڑھ کر۔

  3. قانتہ رابعہ Avatar
    قانتہ رابعہ

    جزاک اللہ خیرا پیاری رقیہ