خاتون-کو-ہراساں-کیا-جا-رہا-ہے

گھوریے مت!

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

            پاکستانی معاشرے کی اکثر خواتین یہ سوال پوچھتی ہیں کہ ہمارے ہاں کے مرد آخر خواتین کو گھورتے کیوں ہیں؟ عموماً لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ جہالت ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ سوچ بھی غلط ثابت ہو گئی ہے۔ موجودہ دور میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ  اس معاملے میں ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ بلکہ دن بہ دن اس کی وباء سکول، کالج اور یونیورسٹی کے لڑکوں میں زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ حالانکہ اسلام نے عورتوں کے ساتھ مردوں کو بھی حیاء کی تلقین کی ہے۔

سٹاپ پر کھڑے چند لڑکے قریب کھڑی لڑکیوں کو مسلسل گھور رہے تھے جس کی بناء پر نہ صرف ان لڑکیوں کو وہاں کھڑے ہونے سے کوفت کا احساس ہو رہا تھا بلکہ وہ دل ہی دل میں ان لڑکوں کو بُرا بھلا بھی کہہ رہی تھیں۔ ان کی مجبوری یہ تھی کہ بس کے انتظار میں انہیں بہرحال وہاں کھڑے رہنا تھا۔ جونہی بس آئی، دونوں نے سُکھ کا سانس لیا مگر بس میں بھی سامنے بیٹھا ایک شخص اپنا اولین فرض سمجھتے ہوئےانھیں گھورنے لگا۔ کبھی وہ ایک کی طرف دیکھتا تو کبھی دوسری کی طرف۔

واضح رہے کہ عورتوں، لڑکیوں کو گھورنا ’ہراسانی‘ ہے۔ اور یہ اخلاقی، شرعی جرم ہی نہیں بلکہ ایک قانونی جرم بھی ہے۔ یہ مسئلہ کسی ایک لڑکی کا نہیں بلکہ گھر سے باہر نکلنے والی ہر لڑکی اور عورت کا مشترکہ مسئلہ ہے جس کا تذکرہ وہ اکثر کرتی رہتی ہیں۔

        گھورنے کی وباء عام طور پر ان پڑھ طبقے میں زیادہ پائی جاتی ہے جو گھورنے کے ساتھ ساتھ آوازیں کسنے میں بھی ماہر ہوتے ہیں۔ اس کے لیے وہ انتہائی گھٹیا قسم کی زبان فخر سے استعمال کرتے ہیں۔ عموماً ایسا کرنے کے لیے گانوں کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ آس پاس کے لوگ منع کرنے کی بجائے ان کے اس امر سے محضوظ ہو رہے ہوتے ہیں۔

        یہ کہنا کہ ان پڑھ طبقہ ہی خواتین کو گھورنے جیسی بیماری کا شکار ہے غلط ہے۔ اس کا شکار نہ صرف بہت سے پڑھے لکھے، بظاہر مہذب دکھائی دینے والے نوجوان، درمیانی عمر کے افراد حتی کہ بعض بزرگ بھی ہوتے ہیں۔ خواتین کو ایسے حالات کا سامنا ہر روز کرنا پڑتا ہے چاہے وہ گھریلو خاتون ہو یا پھر کہیں ملازمت کرنے والی خاتون۔ چاہے وہ اپنے آفس، سکول، ہسپتال جا رہی ہو یا پھر اپنے گھریلو کام سے مارکیٹ میں آئی ہو، دونوں کو ایک جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

        یوں لگتا ہے ہمارے معاشرے میں خواتین کو دیکھنا مردوں کا محبوب مشغلہ ہے، اس بری عادت کے شکار بہت حد تک کالج کے لڑکے بھی ہوتے ہیں جو عموماً چھٹی کے وقت گرلز کالج یا سکول کے سامنے ایسی ہی آس لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ اپنی عمر سے بڑی لڑکیاں اور خواتین بھی ان کے عتاب سے محفوظ نہیں رہتیں، وہ اپنی کم عمری کا لحاظ کیے بغیر انہیں بس سٹاپ، بازار، گلی، محلے غرض یہ کہ جہا ں پر خواتین دکھائی دیں، انھیں گھورتے ہوئے پائے جائیں گے۔

        معاشرے میں جس قدر بڑے پیمانے پر خواتین کو ہراساں کیا جارہا ہے، اس صورتحال کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ موجودہ زمانے میں لوگ صرف اپنی بہن، بیٹی، ماں اور بیوی کا احترام ہی کرتے ہیں جبکہ گھر سے نکلتے ہی بعض مرد ان تمام رشتوں کو پس پشت ڈال کر دیگرتمام خواتین کو محض ایک عورت، ایک شو پیس سمجھ کر دیکھنے لگتے ہیں۔ انھیں اپنے اس فعل پر ذرا بھر بھی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی۔

خواتین کو یوں ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا بہت سے ایسے لڑکوں کا بھی پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے جو بظاہر اچھے خاصے مہذب دکھائی دیتے ہیں۔

اس ضمن میں یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ ایک دن یونیورسٹی گراؤنڈ میں اُس کی ساری کلاس اکٹھی ہوئی۔ اُس کے سامنے بیٹھے اس کے دو کلاس فیلوز کی نگاہیں سڑک پر ادھر اُدھر بھٹک رہی تھیں۔ یہ دونوں لڑکے کلاس میں خاصے شریف خیال کیے جاتے ہیں اور بقول ان کے وہ اپنی کلاس فیلوز کو بہنوں کی طرح سمجھتے ہیں۔ اس بناء پر بہت سی لڑکیاں ان دونوں کے ساتھ بڑی سہولت سے بات کر لیتی ہیں مگر ایک دم جب یہ دونوں بیٹھے بیٹھے ایک دوسرے کے کان میں کھسر پھسر کر کے ہاتھوں میں ہاتھ مار کر ہنسے تو میری توجہ ان کی جانب ہوئی۔ میں نے ان کی نظروں کے تعاقب میں پیچھے مُڑ کر دیکھا تو وہاں سے دوسرے ڈیپارٹمنٹ کی دو لڑکیاں گزر رہی تھیں جنہیں یہ گھورنے میں مشغول تھے۔ مجھ سے یہ سب برداشت نہ ہوا۔ میں نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ’تم دونوں کو شرم نہیں آتی یوں لڑکیوں کو گھورتے ہوئے!‘ ان میں سے ایک بولا ’ لو اب لڑکیاں نہ دیکھیں تو کیا کریں، یونیورسٹی میں آئے کس لیے ہیں‘ ؟

        مجھے شدید غصہ آیا۔ میں نے کہا ’کتنی گندی سوچ ہے تم دونوں کی!‘، دوسرا بولا ’یہ سوچ بس دوسرے ڈیپارٹمنٹ کی لڑکیوں کے لیے ہے، تم لوگوں کے لیے نہیں‘۔ یہ سن کر مجھے انتہائی دکھ ہوا۔ میں یہ سوچنے لگی کہ کیا گھر کی بہن بیٹی ہی قابل احترام ہے، باہر کی عورت قابل احترام نہیں ہے۔

 خواتین کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اضافی حس ہوتی ہے جس کی بدولت انہیں بہت جلد اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ کوئی انہیں کس نظر سے گھور رہا ہے۔ خواتین کی بدقسمتی کہیے کہ انھیں گھورنے کے علاوہ بھی بہت سے دیگر پیچیدہ قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

سڑک پر راہگیروں کی غضب ناک نگاہیں خواتین کے لیے وبالِ جان بنی ہوتی ہیں جبکہ ویگنوں کے ذریعے سفر کرنے والی خواتین کے لیے ڈرائیور اور کنڈیکٹر کسی عذاب سے کم نہیں ہوتے۔ بلکہ بعض خواتین کو ان کے دفاتر میں ایسے ماحول سے سابقہ پڑتا ہے جس کے ہاتھوں وہ سخت تنگ ہوتی ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے مرد ساتھی ان کا جینا مشکل کر دیتے ہیں۔ اگرچہ تمام دفاتر کا ماحول خواتین کے لیے ایک سا نہیں ہے لیکن اس بات میں بھی سچائی ہے کہ کئی ایک دفاتر میں انہیں ایسے سنگین حالات سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے یوں خواتین کو دیکھنے کو گناہ قرار دیا ہے مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں گناہ اور ثواب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بہت سے لوگ ہر وہ عمل کر گزرتے ہیں جو صرف اور صرف ان کے اپنے من کی تسکین کے لیے ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ہماری ایک دوست نے بڑا دلچسپ واقعہ سنایا۔

اُس کا چھوٹا بھائی لڑکیوں کو گھورنے کی وباء میں بُری طرح مبتلا ہو چکا تھا۔ اکثر اوقات اس کی حرکات ہمارے کانوں تک پہنچتی رہتی تھیں۔ ایک دن محلے کے ایک انکل نے شکایت کی تو ہمیں شدید شرمندگی ہوئی۔ والد صاحب نے اس کی اچھی طرح پٹائی کی کہ تیس سا ل سے اس محلے میں رہ رہے ہیں اور آج تمھاری وجہ سے یہ نوبت آئی ہے کہ لوگ شکایتں لے کر دروازے پر آنے لگے ہیں۔

اس پر میں نے اس بھائی سے کہا کہ تمہیں شرم نہیں آتی ایسی حرکتیں کرتے ہوئے کہ لڑکیوں کو گھورتے ہو۔ تمہیں پتہ ہے کہ  پہلی نظر معاف ہوتی ہے اور  دوسری نظر گناہ۔ اس نے بڑے آرام  سے کندھے  اچکاتے ہوئے مجھے جواب دیا کہ میری پیاری بہنا! یہ ٹھیک ہے کہ اللہ  نے پہلی نظر معاف کی ہے اسی لیے تو میں  ہر ایک لڑکی کو روزانہ ایک ایک نظر ضرور دیکھتا ہوں۔ اپنے بھائی کی یہ بات سن کر میں  حیران رہ گئی۔ اس پر شاید والد صاحب کی مار کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔

ہمارے ہاں نوجوانوں کے یہی عمومی  رویے ہیں۔ وہ اس بات کو خاطر میں نہیں لاتے کہ ان کے لاابالی پن  کی وجہ سے کتنی لڑکیوں کے مستقبل تاریک ہو جاتے ہیں۔ بیٹیوں  کے والدین اپنی  بچیوں کو گھر سے بھیجنے کے بعد ان کی سلامتی کی دعائیں اور انہیں شیطان کے شر سے محفوظ رہنے کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔

اس ضمن میں خواتین  پر بھی ذمہ داری  عائد ہوتی ہے کہ اگر انہیں کوئی شخص مسلسل گھور رہا ہو تو اس سے پوچھ لیا جائے کہ بھائی صاحب! آپ کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔ یقیناً بہت سے ایسے مرد  جو اس بڑی عادت کا شکار ہوتے ہیں، چوکنے ضرور ہو جائیں گے اور ایسا کرتے وقت انہیں یہ خیال ضرور آئے گا کہ بھرے بازار، چوک، ویگن سٹاپ پر کسی عورت  کے ہاتھوں بے عزت ہو سکتے ہیں۔

خواتین عموماً ایسا رویہ اختیار کرنے سے اس لیے بھی کتراتی رہتی ہیں کہ آس پاس کے لوگ ان کے بارے میں نہ جانے کیا سوچیں گے؟ انہیں خیال آئے گا نہ جانے اس شخص نے اس خاتون سے کیا کہہ دیا یا پھر کسی واقف کار نے دیکھ لیا تو کیا سوچے گا؟

        بہر حال ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ کسی بھی صحت مند معاشرے کا وجود اُس وقت ممکن ہے جب ہر ایک انسان اپنے طور پر اپنا احتساب کرے اور یہ سوچے کہ وہ کہاں پر غلط ہے، کہاں اسے اصلاح کی ضرورت ہے اور معاشرے میں اس کا کیا کردار ہے؟ 


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

3 پر “گھوریے مت!” جوابات

  1. جاوید اصغر Avatar
    جاوید اصغر

    ہمیں واقعی اپنے رویوں میں تبدیلی کرنی چاہیے ۔۔۔۔بہت عمدہ۔۔۔۔ موضوع ۔۔۔۔

    1. شمائلہ اقبال Avatar
      شمائلہ اقبال

      بہت شکریہ….. آئندہ بھی اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کرتے رہیےگا

  2. Asif Mahmood Avatar
    Asif Mahmood

    اہم موضوع پہ عمدہ تحریر ہے۔ حیاء مرد اور عورت دونوں کے ایمان کا جز ہے – ہماری ماؤں اور بہنوں کو اپنے گھروں میں اپنےبیٹوں اور بھائیوں کو بھی حکمت کے ساتھ اس طرف توجہ دلانی چاہئے تاکہ دوسروں کی بہنیں اور بیٹیاں محفوظ رہ سکیں –