حوثیوں-کے-حملے-سے-ایک-بحری-جہاز-کو-آگ-لگی-ہوئی-ہے۔-فوٹو-اے-ایف-پی

حوثیوں نے امریکا اور اسکے اتحادیوں کو طویل جنگ میں پھنسا لیا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

برطانوی نشریاتی ادارے نے ایک طویل رپورٹ شائع کی ہے جس میں اس سوال کا جائزہ لیا گیا ہے کہ آیا یمن کے حوثی جنگجوؤں نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ایک ایسی جنگ میں پھنسا لیا ہے جسے وہ (امریکا اور اس کے اتحادی) جیت نہیں سکتے؟ اور یہ کہ حوثی کس قدر طاقتور ہیں؟ سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کا اس جنگ میں کیا کردار ہے؟ اور کیا واقعی ایران حوثیوں کو اسلحی اور مالی امداد فراہم کر رہا ہے؟ اگر حوثیوں کو شکست نہ دی جاسکی تو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے پاس اگلا آپشن کیا ہوگا؟

یہ رپورٹ بی بی سی سے وابستہ سیلن گیریٹ اور کیٹ فوربز نے تیار کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ یمن میں حوثی اہداف کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھنے والی امریکا، آسٹریلیا، بحرین، کینیڈا اور ہالینڈ کی بین الاقوامی ٹاسک فورس کے لیے فتوحات حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں۔

ایران کی مالی مدد سے حوثیوں کی جانب سے نومبر کے وسط سے لے کر اب تک بحیرہِ احمر میں بین الاقوامی اور تجارتی جہازوں پر 30 سے زیادہ حملے کیے جا چکے ہیں اور ان کے ختم ہونے کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آ رہے۔

گیلیکسی لیڈر نامی بحری جہاز پر یمن اور فلسطین کے پرچم لہرا رہے ہیں۔ ایک اسرائیلی کمپنی کے ملکیتی تجارتی بحری جہاز کو 20 نومبر کو حوثیوں نے ہائی جیک کرلیا تھا۔

23 جنوری کو ایک بریفنگ میں امریکی دفاعی اہلکاروں نے کہا کہ ’ہم بحیرہ احمر اور بین الاقوامی تجارتی راستوں کے استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اور ان حملوں کا جواب دینے کے لیے مزید اقدامات لینے کے لیے تیار ہیں۔‘

ان حملوں سے جہاز رانی کی عالمی صنعت متاثر ہوئی ہے اور اس تشویش میں بھی اضافہ ہوا ہے کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ غیر مستحکم ہو سکتا ہے۔

کیا امریکہ ایک ایسے گروپ کے خلاف فتح حاصل کر سکتا ہے جس کے خلاف سعودی عرب تقریباً ایک دہائی تک لڑتا رہا لیکن ناکام رہا؟

سعودی عرب نے بحیرہ احمر میں ہونے والی ان کارروائیوں پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے جبکہ سعودی عرب کے حوثیوں کے ساتھ امن مذاکرات فی الحال جاری ہیں۔

ان حملوں سے قبل سفارتی کوششوں سے بحیرہِ احمر میں صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔

یمن کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ٹم لینڈرکنگ کا کہنا ہے کہ ’یہ افسوسناک ہے کہ صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی ہے۔‘

یمن کے سب سے زیادہ آبادی والے علاقوں پر قابض حوثیوں کا کہنا ہے کہ ان کے یہ حملے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ہیں کیونکہ اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا۔

تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے ولیم ویچسلر کا ماننا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے پاس طاقت کے بل بوتے پر جواب دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بین الاقوامی تجارت میں آٹھ بنیادی سمندری چوکیاں ہیں، جن میں سے نصف مشرق وسطیٰ میں ہیں۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ توانائی کی فراہمی کے حوالے سے بھی دنیا کا اہم حصہ ہے۔ حوثیوں نے ان سمندری چوکیوں میں سے ایک ( آبنائے باب المندب) کو براہ راست دھمکی دی جو انتہائی غیر معمولی ہے۔‘

’کوئی بھی شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ توانائی کا ہماری روزمرہ کی زندگی کو بہتر بنانے میں کیا کردار ہے، جو کوئی بھی معاشی ترقی کی پرواہ کرتا ہے، اسے ان اہم چوکیوں کی حفاظت کی اہمیت سمجھنی ہو گی۔‘

حوثی جنگجو سعودی عرب کے ساتھ جاری جنگ میں یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ ایک خودمختار ریاست کی فوج کا سامنا کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں، ایرانی حمایت کی بدولت وہ ایک خستہ حال بغاوت سے ایک باقاعدہ تربیت یافتہ لڑاکا فورس میں تبدیل ہو چکے ہیں جن کے پاس جدید جنگی آلات حتٰی کہ ہیلی کاپٹر بھی ہیں۔

اٹلانٹک کونسل کے ولیم ویچسلر کا کہنا ہے کہا ’حوثی مزاحمت کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک ارادہ اور دوسرا صلاحیت ہے۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچ سکتا ہے کہ وہ ان (حوثیوں) کی ہمت کو توڑ سکتے ہیں۔ لیکن ایک خیال یہ ہے کہ ان کی صلاحیتوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔‘

حالانکہ حوثی لمبے عرصے سے ایک بڑے مخالف سے لڑنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن امریکہ اور بین الاقوامی اتحادیوں سے مقابلہ بالکل الگ معاملہ ہے۔ ان کی مشترکہ طاقت، حکمت عملی اور تجربہ سعودیوں سے کہیں زیادہ ہے۔

تجزیہ کاروں کے سامنے اب سوال یہ ہے کہ امریکہ اس جنگ میں کس حد تک ملوث ہونا چاہے گا؟

سٹیون اے کک کونسل برائے بین الاقوامی تعلقات (کونسل آن فارن ریلیشنز) میں اینی اینریکو میٹی چیئر برائے مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے مطالعہ کے سینئر فیلو ہیں۔ انھوں نے ایک میڈیا بریفنگ میں بتایا ’ہمارے پاس بے پناہ طاقت ہے لیکن ہمیں اسے احتیاط کے ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم یمن پر حملہ کرنے، حکومت کو تبدیل کرنے جیسی چیزوں کی بات نہیں کر رہے ہیں جیسا کہ ہم ماضی میں کرتے آئے ہیں۔‘

’میں یہ کہوں گا کہ میں نے حال ہی میں متعدد عرب عہدیداروں سے بات کی جن کا کہنا تھا کہ دیکھیں اگر ایسے آپ حوثیوں کو صرف چھیڑیں گے تو یہ چیزیں رکنے والی نہیں۔ آپ کو ایسی مؤثر فوجی کارروائی کرنا پڑے گی جو حوثیوں کے لیے خلیج میں جہازوں کو ہراساں کرنا اور حملہ کرنا اگر ناممکن نہیں تو کم از کم مشکل بنا دے۔‘

کیا امریکہ اور اس کے اتحادی طویل مدتی علاقائی جنگ میں پھنسنے جا رہے ہیں؟

جیمز گورڈن فوگو امریکی بحریہ کے ایک ریٹائرڈ ایڈمرل ہیں اور اب سینٹر فار میری ٹائم سٹریٹجی سے وابستہ ہیں۔ وہ یورپ اور افریقہ میں امریکی بحری افواج کے سابق کمانڈر بھی رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عین ممکن ہے کہ یہ سارا معاملہ ایرانی اثر و رسوخ کے خلاف ایک بڑی کارروائی میں تبدیل ہو جائے۔ اور یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس پرانتظامیہ اب تک عوامی سطح پر کھل کر بات نہیں کر رہی مگر یقیناً وہ اس کے بارے میں سوچ ضرور رہے ہوں گے۔

انھوں نے اس سلسلے میں خلیج عرب میں 1980 سے 1988 تک ٹینکر جنگوں کے بارے میں حالیہ میڈیا بریفنگ کی یاد دلائی۔ ایران کی جانب سے جہاز رانی والے ٹینکروں پر حملے کے بعد امریکا نے ایرانی بحریہ پر حملہ کر دیا تھا۔ ایڈمرل فوگو نے اس کا موازنہ یو ایس ایس کول پر حملے سے کیا جسے اکتوبر 2000 میں یمن میں دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں 17 امریکی ملاح ہلاک ہو گئے تھے۔

اگرچہ اس حملے کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی تھی، لیکن اس گروپ کے خلاف کوئی فوجی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ’ایک سال بعد کیا ہوا؟ 9/11 (امریکا پر حملے)‘۔

ایڈمرل فوگو شاید اپنے ان جذبات کی عکاسی کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس کے تحت ان کو لگتا ہے اس ضمن میں فوجی کارروائی ضروری ہے۔

سٹیون اے کک اس بات سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ‘نیویگیشن کی آزادی امریکا کا بنیادی مفاد ہے، اور اس طرح کے کسی گروپ کو اس علاقے میں اپنی طاقت قائم کرنے کی اجازت دینا بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔‘

ایران حوثیوں کو اسلحہ اور مالی مدد فراہم ضرور کرتا ہے لیکن ان پر تہران کا براہ راست کنٹرول نہیں ہے۔

رے تاکیہ کونسل برائے مشرقِ وسطی سٹڈیز میں سینیئر فیلو ہیں۔ ان کے مطابق حوثی خود امریکہ دشمنی اور اسرائیل مخالف پالیسیوں پر آئے ہیں۔ انھیں ایرانیوں نے اس سمت میں اکسایا نہیں تھا۔ ’تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ایران کی تخلیق نہیں ہیں۔ یہ ایک طرح کی ہم خیال انجمن ہے۔ یہ واقعی سعودیوں کو نقصان پہنچانے کی ایک موقع پرست کوشش کے طور پر وجود میں آئی ہے۔‘

علی خامنہ ای، سپریم لیڈر ایران

حوثی ایران کے لیے ایک ایسا مؤثر کردار ادا کرتے ہیں جو ایران کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ امریکا کے ذریعے اسرائیل پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔

تاکیہ کا خیال ہے کہ ایران کو امید ہے کہ بین الاقوامی برادری اور امریکہ اس خدشے کے پیشِ نظر کہ یہ تنازع مزید شدت اختیار کر جائے گا کہ وہ اسرائیل پر کسی قسم کی تصفیہ مسلط کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

’یہاں بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ امریکہ اور بین الاقوامی برادری اسرائیل پر پابندیاں لگا سکتے ہیں۔ اسرائیل ایک خودمختار ملک ہے جو انتہائی پیچیدہ صورتحال سے نمٹ رہا ہے۔‘

ماہرین کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی یمن کے بارے میں سامنے آنے والی حکمت عملی سے لگتا ہے کہ ان کا مقصد حوثی جنگجوؤں کو کمزور کرنا ہے۔ مگر یہ پالیسی اس گروپ کو شکست دینے یا حوثیوں کے مرکزی سرپرست ایران سے براہِ راست مقابلہ کرنے کی بات نہیں کرتی۔

جوبائیڈن، امریکی صدر

امریکی حکمت عملی محدود فوجی کارروائیوں اور پابندیوں پر مشتمل ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے جیسے اس کا مقصد حوثیوں کو سزا دینا ہے اور مشرق وسطیٰ میں کسی بڑے تنازعے کو پیدا ہونے سے روکنا ہے۔

امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے برائن کارٹر کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں اس مشن کا بنیادی مقصد حوثیوں کو تباہ کرنا یا یمنی حکومت کو دوبارہ اقتدار میں لانا نہیں ہے۔

وہ سمجھتے ہے کہ اس حکمتِ عملی کا مقصد بحیرہِ احمر میں حوثیوں کی عالمی سمندری جہاز رانی کو چیلنج کرنے کی بحری اور فوجی صلاحیتوں کو کم کرنا ہے۔

’فوجی نظام کا انحطاط کوئی ناقابل فتح کام نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا عسکری ہدف ہے جسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘

امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے یمن ٹِم لینڈرکنگ نے بھی اس بات پر زور دیا کہ یہ جنگ کوئی وسیع پیمانے کا تصادم نہیں ہے۔ ’یہ صرف حوثیوں کی جہازوں پر حملہ کرنے کی صلاحیت ختم کرنے کے لیے ہے۔‘

پینٹاگون کا کہنا ہے کہ 11 جنوری سے شروع ہونے والی امریکی کارروائیوں کے بعد سے یمن میں حوثیوں کے 25 سے زیادہ میزائل لانچنگ اور تعیناتی کی تنصیبات اور 20 سے زیادہ میزائلوں کو تباہ کیا جا چکا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ڈرونز، ساحلی ریڈار اور حوثیوں کی فضائی نگرانی کی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کے ذخیروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

ٹم لینڈرکنگ کا کہنا ہے کہ حوثی شاید اس جنگ میں ملوث ہونا چاہتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ شاید (یمنی) عوام کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ نہ صرف فلسطینی عوام کے ساتھ بلکہ مغرب کے خلاف بھی کھڑے ہیں۔

بی بی سی کے سکیورٹی نامہ نگار فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ حوثی اب عرب دنیا میں کافی مقبول ہیں، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف ایران کے حمایت یافتہ مزاحمتی تحریک کے تحت حماس کی حمایت کر رہے ہیں۔

آپریشن پوسائیڈن آرچر کے تحت، امریکی زیر قیادت حملوں نے اب نئے اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ اس سے پہلے حوثیوں کی لانچنگ سائٹس پر پیشگی حملے کیے گئے تھے۔

پینٹاگون کا کہنا ہے کہ میزائلوں کو اس وقت تباہ کیا گیا جب انھیں لانچ کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ مغربی انٹیلی جنس نے حال ہی میں اندازہ لگایا ہے کہ حوثیوں کے میزائلوں کے ذخیرے کا کم از کم 30 فیصد حصہ تباہ کر دیا گیا ہے یا وہ اپنی صلاحیت کھو چکا ہے۔ اس کے باوجود، امکان ہے کہ اسرائیل، امریکہ یا برطانیہ سے منسلک بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملے جاری رہیں۔

گارڈنر کا کہنا ہے کہ ان حملوں کی وجہ سے یمن میں جہاں بہت سے یمنی ان کے سفاکانہ حکمرانی سے نالاں ہیں وہاں انھیں مقامی سطح پر کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔

ہشام العمیسی یورپی انسٹی ٹیوٹ برائے امن سے بطور سینئر مشیر برائے یمں منسلک ہیں۔ انھوں نے ایکس (ٹوئٹر) پر لکھا ہے کہ بہت سے لوگوں کو شاید یہ احساس نہیں کہ غزہ کی حمایت کے علاوہ حوثیوں کے اپنے بھی کئی مقاصد ہیں۔ حالیہ تصادم انھیں امریکہ سے لڑنے کے اپنے کئی دہائیوں پرانے دعوے کو درست ثابت کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔

صنعا میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ایک بڑی ریلی

ان کا کہنا ہے کہ حوثی نہ صرف لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں، بلکہ انھوں نے ’مقدس زمین پر فتح اور جہاد‘ کے لیے بھرتی کی ایک بڑی مہم کامیابی سے چلا رہے ہیں۔

ہشام العمیسی کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب مقامی سطح پر امریکہ اور برطانیہ مخالف جذبات اپنے عروج پر ہیں، اس معاملے کو خالصتاً فوجی تناظر میں دیکھنا اور اس کے سماجی و سیاسی اثرات کو یکسر نظر انداز کر دینا دانشمندانہ بات نہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں