پاکستان میں چین کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ، خدشات سراٹھانےلگے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سی پیک منصوبے میں جوں جوں تیزی آئی ، پاکستان میں مختلف حلقوں کی طرف سے جوش و خروش دیکھنے میں آیا، تاہم بعض حلقے ایسے بھی تھے کہ جن کا سوال تھا کہ پاکستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے کہیں منفی اثرات مرتب نہ ہوں؟ یہ سوال لے کر میں جناب عرفان شہزاد کے سامنے جا بیٹھا، وہ اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک ‘‘انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز’’ میں ریسرچ فیلو کے طور پر ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں اور ادارے کے علمی، تحقیقی جریدے‘ پالیسی پرسپیکٹوز’ کے مدیر بھی ہیں۔ پاک چین تعلقات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
میرا سوال سن کر جناب عرفان شہزاد نے سب سے پہلے پاک چین تعلقات کے اولین دنوں کا تذکرہ کیا۔ کہنے لگے:
‘‘پاکستان اور چین کا باہمی تعاون پہلے باقی شعبوں میں زیادہ مضبوط تھا،1951ء میں دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ ہماری شاہراہ قراقرم 1974ء میں بننا شروع ہوئی تھی یہ 1981-82ء میں لانچ بھی ہوگئی۔ ہمارا زیادہ تعاون 1951 سے لے کر 2000ء تک سیاسی اور سفارتی اور دفاعی، ایٹمی تعاون کی شکل میں تھا۔ یہ ایٹمی تعاون دفاع اور بجلی کی پیداوار میں مدد دیتا ہے۔ خلائی میدان میں بھی تعاون تھا۔ 2000ء کے ابتدائی سالوں تک ہمارا معاشی تعاون بہت کم تھا۔ 2003-4 تک ہماری باہمی تجارت ایک ارب ڈالر تک تھی جو اب پندرہ ارب ڈالر تک پہنچ رہی ہے۔ پچھلے سات آٹھ سالوں میں زیادہ بڑا فوکس معیشت ہی رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارا میری ٹائم بحری افواج کے ساتھ تعاون تیزی سے بڑھا ہے۔ جے ایف 17 کی شکل میں مختلف پراجیکٹس کی شکل میں ہماری فضائی دفاعی تعاون بہت بڑھا ہے’’۔
جناب عرفان شہزاد کا کہنا تھا:‘‘پاکستان اور چین کی زمینی افواج کے درمیان بہت ہی مضبوط رابطہ، بہت ہی باقاعدگی کے ساتھ تینوں افواج کی مشترکہ مشقیں ہو رہی ہیں وہ اس عرصہ میں زیادہ ہوئی ہیں۔ اعلیٰ سطح پر مسلح افواج کے درمیان نہ صرف رابطے بڑھے ہیں بلکہ آپریشنل لیول پر بھی تعاون ہوا ہے، دفاعی پیداوار کے شعبوں میں تعاون کافی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ تعلیمی میدان میں بھی کافی تعاون بڑھ چکا ہے، چینی اداروں اور پاکستانی اداروں کے درمیان بہت سے معاہدات ہو چکے ہیں، جن کے باعث اکیڈمک ایکسچینجز بھی بہت بڑھی ہیں۔ مشترکہ تحقیق بھی بہت زیادہ ہورہی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی تعاون بھی کافی بڑھا ہے، پچھلے پانچ چھے سات سال کے دوران سرکاری اور غیرسرکاری دونوں سطح پر میڈیا کے اداروں کے درمیان تعاون کافی آگے بڑھا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان اس وقت کم از کم چار سو مختلف معاہدے موجود ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں کسی نہ کسی سطح پر تعاون چل رہا ہے یا اس کی بنیاد رکھی گئی ہے’’۔
‘‘اگر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ چین کی صنعت ہماری صنعت پر چھا جائے گی، اس میں بھی ایک حد تک مبالغہ آرائی موجود ہے، لیکن اس اعتراض کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا کہ مقامی صنعت کی ضرورت کا احساس کیے بغیر اس کی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائے بغیر جس طرح پورے ملک کو چینی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا گیا ہے اس کی وجہ سے ایک حد تک مقامی صنعت کاروں کی تشویش بجا ہے’’۔
‘‘ہم نے ان کے تحفظات دور کرنے کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کی، اس حوالے سے ہماری جانے والی یا آنے والی حکومت کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چین کے بہت سارے لوگ آنے کی وجہ سے پاکستان میں ثقافتی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس کو ہمیں واضح طور پر اس طرح سے دیکھنا چاہیے کہ مغرب کی ایک کُھلی دو ٹوک پالیسی ہے کہ وہ اپنا سیاسی، معاشی، معاشرتی نظام ایکسپورٹ کرنا چاہتا ہے اور کرتا بھی ہے، اس کے برعکس چین کی پالیسی یہ ہے کہ سوشلزم اور ان کے اقدار وہ ملک کے اندر کے لیے ہیں، ہم اس کو ایکسپورٹ نہیں کریں گے، لیکن اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جس ملک سے ہزاروں کی تعداد میں سرمایہ کار آ رہے ہوں تو اس کے آپ کے اوپر بالکل ثقافتی اثرات مرتب نہیں ہوں گے، لیکن اس کو ہمارے ہاں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ ثقافتی اثر میں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ ایک ہی طرف سے آ رہا ہو ۔ ایک ثقافت چاہے وہ بہت مضبوط ہو لیکن آپ کے پاس بھی ایک ثقافت ہوتی ہے، آپ اس کے رنگ و روپ کو اچھائیوں برائیوں کے ساتھ پیش کر سکیں’’۔
‘‘جہاں تک ممکن ہو اس کے اثرات وہاں پہ ڈال سکیں۔ میں اپنے پندرہ سالہ تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ اثرات دو طرفہ ہیں، چونکہ چین کے پیسے زیادہ لگ رہے ہیں تو ایک خاص وقت کے دوران ہمیں یہ لگے گا کہ چینی ریستوران زیادہ کھل رہے ہیں، بہت ساری چینی دکانیں کھل رہی ہیں، چینی آئوٹ لیٹس یہاں آ رہے ہیں، یہ ایک وقت تک ٹھیک بھی ہوگا۔ ہمیں اس بات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ ہمارے8ہزار طلبا چین میں پڑھ رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی تاجر چین جا رہے ہیں’’۔
کیا چین سی پیک منصوبوں میں کرپشن کی شکایت کرتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں عرفان شہزاد کا کہنا تھا کہ چین اور پاکستان کے تعلقات دو جماعتوں اور دو اداروں نہیں، دو ریاستوں کے درمیان ہیں، ان کو اُس وقت بھی فرق نہیں پڑا جب پاکستان میں انتہائی مغرب زدہ، مغرب کی حمایت یا مغرب کی حامی حکومتیں رہی ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سی پیک کے پراجیکٹس سو فیصد ضروری شفافیت کے ساتھ چل رہے ہیں۔ مجھے درجنوں اعلیٰ سطحی چینی عہدے داروں، چینی ماہرین، پراجیکٹس سے جڑے ہوئے سنیئر اہلکاروں سے کئی بار ملنے کا موقع ملا ہے۔ تقریباً ہفتہ وار بنیادوں پر ہماری کوئی نہ کوئی بات ہوتی ہے۔ انہوں نے اس طرح کا کوئی قابل ذکر خدشہ ظاہر نہیں کیا کہ کرپشن چینیوں کو سی پیک سے دور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں