عائشہ غازی، دفاعی تجزیہ نگار، ڈاکومنٹری فلم میکر، شاعرہ

سایہ دار درخت جس سے مقدس روشنی نکلا کرتی تھی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عائشہ غازی۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے گھر کے پچھلے صحن میں بڑی عمر کا درخت ہوا کرتا تھا. جس دن اسے کاٹا اس دن چڑیوں کے شور میں ہماری آوازیں مدہم پڑ رہی تھیں. تب میں کم عمر تھی، منظر یادداشت پر ٹھہر جاتے تھے لیکن معنی سمجھ نہیں آتے تھے..

اب جب یہ نیا سال مجھ سے میرے والد کو چھین کر لے گیا تب مجھے سمجھ آیا کہ سایہ دار درخت کے گرنے پر چڑیاں ایسی بےتاب ہو کر کیوں تڑپتی ہیں..

میرے والد.. ایک ایسا سایہ دار شجر تھے جس کے سائے سے نکل کر دھوپ میں قدم رکھتی تو وہ شفتقت سے انگلی پکڑ کر واپس سائے میں لے آتے… میں دھوپ کے لیے بضد ہوتی تو ان کی چھائوں میرے ساتھ ہو لیتی تھی.. آج تک کوئی دھوپ ایسی نہیں جھیلی جب ان کی چھائوں بادل کی طرح ساتھ سایہ کیے نہ چلی ہو.. جہاں کہیں میرے راستے میں اندھیرا آیا اس درخت سے ایک مقدس روشنی نکل کر مجھے راستہ دکھانے پہنچ گئی..

میں جو دشوار راستوں کی مسافتیں اپنے لیے چن چن کر لاتی ہوں، اب کس چھائوں، کس مقدس روشنی کی حفاظت میں رہوں گی.. وہ نفیس ہاتھ جو دعائوں کو اٹھے رہتے تھے، جن کی انگلیاں تسبیح کے ہر دانے کے ساتھ میرے لیے خیر مانگتی تھیں، اب اپنے حصے کی خیر سمیٹ کر اس دنیا سے رخصت ہو چکے.. میں اب خالی آنکھوں سے اس دنیا میں بکھری مسافتیں دیکھ کر ڈرتی ہوں.

وہ ہر دم مسکراتا چہرہ اب نہیں رہا جسے دیکھ کر مجھے لگتا تھا ساری کائنات مسکرا رہی ہے.. ایسا بارعب عاشق رسول (ص)، ایماندار، عبادت گزار، شفیق، رحیم، دوراندیش اور عوام الناس کی خیر میں مگن رہنے والا، مختصر اور نپے تلے جملوں میں گہری باتیں سمجھا دینے والا، پہلی جماعت کی نوٹ بک کے حاشیوں سے لے کر اب تک میری زندگی کی کتاب میں حاشیے لگانے والا اب نہیں رہا.. اور زندگی میں کچھ خلا کبھی پر نہیں ہوتے..

مجھ میں کوئی خیر ہے تو ان کی وجہ سے ہے، اور مجھ میں تمام خامیاں وہاں ہیں جہاں میں نے ان کی تربیت سے روگردانی کی.. یہ دعا ہے کہ میرے حصے میں کوئی نیکی کوئی خیر آیے تو اسے اللہ میرے والد کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے.. آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں