پاکستان میں چینی کلچر کیسے پروان چڑھ رہاہے، واقف حال نے سب کچھ بتادیا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاک چین بڑھتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں ہم نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ٹرانسلیشن اینڈ انٹرپریٹیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ جناب ڈاکتر انعام الحق غازی سے رہنمائی لینے کا سوچا، انھوں نے باوجود سخت ناسازی طبع کے، بڑی محبت کا اظہار کیا، ہم نے ان سے تعلیم کے میدان میں پاک چین تعلقات کی بابت سوال کیا، وہ کہنے لگے:
‘‘اب تک پاکستان کے مختلف علاقوں میں اٹھائیس کے قریب ایسی یونیورسٹیز ہیں جو چینی زبان کی تدریس کے مختلف سطح کے پروگرام شروع کرچکی ہیں، ان کی تعداد اب آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ ان میں ایک ہماری اپنی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ہے، اس میں ’سینٹرفار ایکسی لینس‘ کھلا ہے جہاں چینی زبان سکھانے کے مختلف لیول کے پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز ہے، جس نے چینی زبان سکھانے کا سلسلہ بہت پہلے سے شروع کررکھا تھا، لیکن سی پیک شروع ہونے کے بعد اس میں کافی اضافہ ہوگیا ہے، انھوں نے دو لینگویج لیب قائم کرلی ہیں۔ طلبہ کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے’’۔
‘‘ان کے پروگراموں میں بھی بہت زیادہ تنوع پیدا ہوچکا ہے۔ وہاں ایک کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ‘ کا اضافہ ہوا ہے جو ریسرچ کا کام کرے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ ساری کاوشیں چینی زبان اور چینی کلچر سیکھنے ہی کے لئے راہ ہم وار کررہے ہیں۔ مزیدبراں صوبائی حکومتوں نے بھی اس طرف خاص توجہ دی ہے، پنجاب کی حکومت بہت سے لوگوں کو زبان سکھانے کے لیے اسپانسر کررہی ہے۔ انھیں ایک سال کا کورس کرانے کے لیے چین بھیج رہی ہے، سندھ کی حکومت نے اپنے اسکولوں میں چینی زبان متعارف کرانے کے لیے دو ہزار تیرہ میں ایک معاہدہ کیا تھا، اس پر اب عمل ہورہا ہے۔ خود چین نے بھی چینی زبان کی تدریس اور ترویج کے لیے مختلف پروگرام شروع کیے ہیں۔ ان میں بہت سے اسکالرشپس ہیں، لوگ وہاں سیکھنے کے لیے جارہے ہیں۔ یہاں جو مختلف ادارے ایسا کام کررہے ہیں، انھیں وہ اسپانسر کررہے ہیں’’۔
‘‘اٹھائیس یونیورسٹیوں کے ساتھ مختلف پرائیویٹ ادارے اور چھوٹے چھوٹے انسٹی ٹیوٹ کُھل رہے ہیں جو چینی زبان کے کورسز کروارہے ہیں، ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سی پیک کے سلسلہ میں جہاں چینی زبان کی تدریس کا معاملہ ہے، وہاں اس کی ٹرانسلیشن کے بھی بہت زیادہ مواقع پیدا ہورہے ہیں، بہت سی چینی کمپنیاں آرہی ہیں تو انھیں چینی ترجمہ کرنے والوں کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے، بہت سے لوگ ہیں جنھوں نے ٹرانسلیشن ایجنسیز شروع کردی ہیں اور اپنی خدمات فراہم کرنا شروع کردی ہیں، یہ سلسلہ مزید آگے بڑھے گا، ہم حکومتی اعدادوشمار کو دیکھیں تو تقریباً 197 ایسے ادارے ہیں جو سی پیک سے متعلقہ 38 تجارتی شعبوں کی تربیت دینے کا اپنا کام کررہے ہیں’’۔
‘‘جہاں تک اس خدشہ کا تعلق ہے کہ سی پیک کی شکل میں کوئی نئی ایسٹ انڈیا کمپنی قائم تو نہیں ہورہی ہے؟ یہ بڑا نازک سوال ہے جو بعض حلقوں کی طرف سے اٹھایا بھی جارہا ہے۔ اس میں دونوں طرح کے دلائل دیے جارہے ہیں کہ اس سے ہمارے بہت سے بین الاقوامی سطح کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوجائے گا’’۔
‘‘سی پیک کے معاہدے کی تفصیلات کے حوالے سے جب سوالات اٹھائے جاتے ہیں تو حکومتی سطح سے اس کے عمومی جوابات دیے جاتے ہیں اور وہ کافی حد تک تسلی بخش بھی ہوتے ہیں لیکن دستاویزی انداز میں جوابات نہیں دیے جارہے جس کی وجہ سے ابہام پیدا ہوتا ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی والا خدشہ مضبوط ہوتا ہے، کیوںکہ اس خطے کے لوگوں کو پہلے ہی ایک بڑا تلخ تجربہ ہوچکا ہے جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے ایک تجارتی کمپنی یہاں آئی، آہستہ آہستہ اس نے اپنے پائوں اس قدر پھیلا لیے کہ پورے علاقے پر قبضہ کرلیا، ذہنوں میں وہ خوف اب بھی گہرا ہے۔ میری رائے میں اس کا بہترین حل یہ ہے کہ اس پر کُھلی بحث ہونی چاہیے، جو لوگ اس قسم کے خدشات کا اظہار کررہے ہیں اور جو دفاع کررہے ہیں وہ میڈیا پر، تعلیمی اداروں میں بحث کریں، اس طرح دستاویزی حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں تاکہ ایسے خدشات دور ہوسکیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں