کہانیاں جو میں نے لکھنی ہیں۔۔۔

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رعنائی خیال/ڈاکٹر رابعہ خرم درانی………
روزانہ رات واک کے نام پر شہر کی سڑکیں ناپی جاتی تھیں۔ ایک رات ہلکی رم جھم میں بھیگتی گرین بیلٹ میں پرزے پرزے ہوا بھگتا مٹتا ایک خط نظر آیا ایک پرزےپر “میں تمہیں” اور دوسرے پر” اداسی” لکھا تھا میں ان تمام پرزوں کو اکٹھا کر کے ان دو پرزوں پر لکھی ادھوری کہانی کو مکمل کرنا چاہتی ہوں

ایسے ہی سیر کے 60 منٹ کے دوران ایک نوجوان کو فون پر مصروف دیکھا ۔ ایک ہاتھ سے فون کان پر لگائے اور دوسرا ہاتھ جیب میں ڈالے وہ دبی دبی آواز میں چلاتا تھا ۔ پیر کی ٹھوکر سے پتھر اڑاتا تھا دوسرے چکر میں اس کی ہنسی سنائی دی اور تیسرے چکر میں اسے کھلکھلا کے ہنستے آسمان کی طرف شکر گزاری سے دیکھتے اور گہرا آزادی بھرا مطمئن سانس لیتے دیکھا تو تھمبز اپ کے سائن کے ساتھ اس کی کامیابی اس کے ساتھ بانٹی ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ وقت اسے بھی یاد ہو گا جب ایک اجنبی نے اسے بک اپ backup کیا تھا ۔ایک بےساختہ مسکراہٹ اور سر کے اشارے سے اس نوجوان مے شکریہ کہا تھا ۔ اس ایک گھنٹے کی فون کال پر ایک ہارے مقدمے کو جیت میں بدلنے کی کہانی لکھنے کی خواہش ہے

ایک بچی جسے اپنے گھر کے باغیچے کی چکنی مٹی گوندھ کے برتن بنانے کی عادت تھی جسے کچی پنسل سے ہر سکیچ کو اپنی کاپی میں اتار لینے کا ہڑکا تھا جو درسی کتب کو کہانی کی طرح من میں اتار لینے کی عادی تھی ۔ جو کچھ بڑے ہونے پر این سی اے NCAکو اپنا خواب بنا بیٹھی تھی ۔ وہی لڑکی چپ چاپ اپنے والد کے مسیحا بننے کے خواب پر اپنا خواب قربان کر دیتی ہے ۔ اس قربان شدہ خواب کی کرچیوں کی چبھن بھی ادھار ہے وہ بھی لکھنی ہے

ایک مفلوک الحال خاندان کا پرعزم بچہ جو پاکستان بننے پر سبھی کچھ لٹا کر پاک وطن میں آیا تھا ۔ اس بچے کے عزم و محنت کی داستان بھی لکھنی ہے کہ کیسے والد کی دکان پر دائیں ہاتھ سے نسوار کے لیے تمباکو پیستے بائیں ہاتھ میں پکڑی کتاب سے سبق یاد کرنے کی عادت پختہ تر ہوتی چلی گئی ۔ کیسے کاپی کے صفحات بچانے کے لیے لکھائی چھوٹی سے چھوٹی کرتا چلا گیا۔ کیسے ردی والے سے بچی کھچی کاپیوں کے صاف صفحے خرید کے موچی سے سلائی کروا کے اپنے لیے نئی کاپی تیار کرنے والا بچہ انگریز کمشنر کے آفس کے باہر ہر روز اپنا عزم دہراتا رہا کہ ہاں یہ آفس ایک دن اس کا ہو گا ۔ کیسے اس خودرو ننھے پودے نے خود کو ایک تن آور درخت مین بدلنے کی سعی کی اور بالآخر اپنا خواب شرمندہ تعبیر کیا ۔ مجھے اس پرعزم بچے کی انتھک محنت کی کہانی لکھنی ہے

دھنی رام روڈ پر رنگین لباس اور سادے چہرے میں ملبوس اس خواجہ سرا کی کہانی بھی مجھ پر قرض ہے جو پان سگریٹ کا کیبن چلاتا تھا تاکہ اس کا اور ہمارا رب اسے حرام سے بچاتے ہوئے رزق حلال سے اس کی کفالت فرمائے اور ماسوا سے بےنیاز کر دے ۔

روایات کی بھینٹ چڑھی خاندان میں نفسیاتی متیض کزن سے شادی کرنے والی وہ لڑکی جسے اس کے والد نے خلع کی اجازت نہ دی نتیجتا اس نھ خود کو جلا کر ختم کر دیا ۔ مجھے اس انسان کش روایات سے بغاوت کی کہانی لکھنی ہے

مجھے ہر اس عورت کی کہانی بھی لکھنی ہے جو سبھی کچھ محبت پر قربان کر کے خوش رہتی ہے لیکن پھر بھی ہار اس کا مقدر بنتی ہے ۔کیونکہ وہ عورت ہے اور یہ معاشرہ مرد کا ہے ۔

انگنت کہانیاں ہیں ۔ مجھے ہر روز دکھائی دینے والی سینکڑوں کہانیوں میں سے ہر عام و خاص کہانی لکھنی ہے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں