مشرق اور مغرب کے درمیا ن ایک نیا پل

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

آوازہ/ فاروق عادل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر زاہد حسین بخاری نے اگلے روز عجب انکشاف کیا: کہا کہ ان دنوں ہم امریکی مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ پاکستان، مصر، ترکی یا جہاں کہیں سے بھی وہ تعلق رکھتے ہیں، اپنے وطن محض ڈالر ہی نہ بھیجا کریں، یہاں کی اقدار بھی منتقل کیا کریں۔ دانش وروں اور اہل فکر کی مجلس تھی لیکن اس کے باوجود کان کھڑے ہوئے اور لوگوں کی سوالیہ نگاہیں مہمان کی طرف اٹھیں۔ تجسس کی ان کیفیات سے مہمان نے لطف لیا اور وضاحت کی کہ ہم اہنے مسلمان بھائیوں کو مشورہ دیتے ہیں وہ اہل خانہ کو اپنی محنت کی کمائی کے ساتھ ساتھ برداشت، رواداری اور قانون کے احترام جیسی اچھی اور مستحسن روایات بھی منتقل کریں کیونکہ یہی وہ تو خوبیاں ہیں جن کے بروئے کار آنے سے امریکی معاشرہ پروان چڑھا اور آج بھی اس کی ترقی روز افزوں ہے۔ بات کہنے کی تو نہیں لیکن پھر بھی ایک صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھ لیا کہ زاہد صاحب! کیا یہ مشورہ آپ اپنے پاکستانی بھائیوں کو بھی دیتے ہیں؟ ان کا جواب اثبات میں تھا۔

زاہد حسین بخاری پاکستان کی سرزمین سے اٹھے، لاہور اور کراچی میں تعلیم پائی، اب امریکا میں اپنے علم و فضل کے جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جارج ٹاون یونیورسٹی کے الولید سنٹر برائے مسلم کرسچین ہم آہنگی سربراہ تھے، اس کے علاوہ بھی امریکا کی مختلف یونیورسٹیوں میں علمی اوررفاہی خدمات انجام دیں، ان دنوں کونسل برائے سماجی انصاف امریکا (ICNA)کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔اسلام آباد آمد پر اقبال انسٹی ٹیوٹ برائے تحقیق و مکالمہ کے سربراہ ڈاکٹر حسن الامین نے انھیں مدعوکیا اور بدلتی ہوئی دنیا کے موضوع پر اظہار خیال کی دعوت دی۔یوں اندازہ ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد امریکا اور اس نسبت سے عالمی سطح پر فکر و خیال میں جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، ان کے تناظر میں امریکا میں بسنے والے مسلمانوں کی سوچ میں کیا تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کررہے ہیں۔اس اعتبار سے یہ نشست اور اس میں ہونے والی گفتگو دیر تک یاد رکھی جائے گی۔

علم سیاسیات میں جب زمانے کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے تو اس کے لیے انسانی تاریخ کے بڑے واقعات کو بنیاد بنایا جاتا ہے جیسے ماضی میں بعد از نوآبادیاتی دور کی اصطلاح رائج ہوئی۔ اب ہم مانیں یا نہ مانیں، ڈاکٹر زاہد حسین بخاری نے بتا دیا ہے کہ یہ زمانہ آنے ماہ و سال میں پوسٹ نائین الیون دورکے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اگر چہ اس عہد کی یہ پہچان حقیقت ثابتہ کی حیثیت رکھتی ہے لیکن معروف اسلامی تحریکوں اور دیار مغرب میں ان کی نمایاں شخصیات کی طرف سے اس کا لفظی یا معنوی ، خاص طور پرذہنی اقرار خاص معنویت رکھتا ہے جس سے خبر ملتی ہے کہ مسلم معاشروں کو فکری اور سیاسی طور پر فعال رکھنے والی قوتیں نئے حقائق کو تسلیم کررہی ہے اور ان حقائق کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی میں بھی تبدیلی لا رہی ہیں۔ یہ تبدیلی کیسے رونما ہوئی؟ اس کا تذکرہ بھی دلچسپ ہے، جن دنوں پاکستان اور اسلامی دنیا کے بعض ناپختہ ذہن مغرب میں رونما ہونے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر خوشیاں منایا کرتے تھے، عین ان ہی دنوں مغرب اور خاص طور پر امریکا میں بسنے والے مسلمان دعائیں کیا کرتے تھے کہ کہیں ان واقعات کے ذمہ داروں میں کوئی مسلمان یا پاکستانی نہ نکل آئے۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں میں مغرب کی ناپسندیدگی کے تعلق سے جو بہت سے روّیے پیدا ہوئے، وہ کسی سوچی سمجھی حکمت عملی سے زیادہ جذباتیت،ردعمل اور بعض دکھائی نہ دینے والے گروہوں کی خواہشات کے طابع تھے لیکن جب ان معاشروں میں مقیم مسلمانوں کو اس بے سوچے سمجھے ، جذباتی یا انتقامی طرز عمل کے نتائج کا سامنا کرنا پڑاتو اس کے ردعمل میں بھی ایک سوچ پیدا ہوئی۔یہ وہی سوچ ہے جس کا اظہار بخاری صاحب اور امریکا میں مقیم ان جیسے دوسرے دانشور کررہے ہیں۔

یہ سوال فطری ہے کہ ہمارے مسلمان امریکی دانشوروں کے نزدیک وہ کیا خوبیاں جو مسلمان معاشروں کے لیے اہمیت رکھتی ہیں؟ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ہم اپنے لوگوں کو بتاتے ہی کہ وہ قانون کے احترام،برداشت، رواداری ، اپنا کام خود کرنے اور دوسروں کے کام میں مداخلت نہ کرنے ، بے معنی تعصبات اورنفرت سے بچنے جیسی اقدار اپنے معاشروں منتقل کرنے کے لیے شعوری طور پر کام کریں ۔ امریکا میں مقیم پاکستانی دانشور اور مختلف شعبوں کے ماہرین پاکستان اور اپنے اپنے معاشروں کو چھوڑ کر دیار غیر میں بس جانے کے باوجود ایک قیمتی اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔یہ لوگ اپنے عزیزو اقارب کو نہ صرف اپنی محنت کی کمائی بھیج کراقتصادی طور پر اپنے معاشروں کی مدد کرتے ہیں بلکہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں جو علوم و فنون سیکھتے ہیں، بالواسطہ طور پر اور بعض اوقات براہ راست اپنے ترقی پذیر یا بعض صورتوں میں پسماندہ معاشروں کی ترقی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں لیکن اب اس صورت حال میں تبدیلی واقع ہورہی ہے جس کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اسلامی معاشروں میں رائے سازی اور رائے عامہ کی رہنمائی کرنے والے ان طبقات میں یہ شعور اجاگر ہوا ہے کہ وہ مشرق اور مغرب کو سیاسی اور مفاداتی پس منظر میں انتہاوں میں جانے سے روکیں اور اس دنیا کی اچھی باتوں کو اپنانے کی شعوری کوشش بھی کریں۔

امریکی مسلمانوں میں پیدا ہونے والا یہ انداز فکر ایک بڑی اور غیر معمولی تبدیلی کی حیثیت رکھتا ہے جس کے بروئے کار آنے سے مشرق اور مغرب کے درمیان پائے جانے والے فکری اور ذہنی فاصلوں میں کمی واقع ہوگی ، ایک دوسرے کو زیادہ خوش گوارطریقے سے سمجھنے کے مواقع میسر آئیں گے اور مسلم معاشرے جو اس وقت اپنے بہت سے ذہنی تحفظات اور الجھنوں اور نفرتوں کے سمندر کے درمیان غوطے کھا رہے ہیں، اس کیفیت سے نکل سکیں گے۔ اس رجحان کے پنپنے سے اس سے بھی زیادہ فائدہ یہ ہوگا کہ مسلم معاشرے اپنی مسلمہ مذہبی اور ثقافتی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے ترقی یافتہ معاشروں کی ان اقدار کو سمجھ کر انھیں اختیار کرسکیں گے جو اس زمانے میں ترقی کی ضامن سمجھی جاتی ہیں۔

ہمارے ہاں جب آئین اور قانون کی پابندی کی بات ہوتی ہے تو لامحالہ ذہن سول ملٹری کشمکش اور اور تاریخ کی ان تلخیوں کی طرف جا بھٹکتا ہے جن کی ناگوار یادیں ہمارے اجتماعی حافظے میں محفوظ ہیں لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ ان معاملات کا تعلق خود ہماری ذات سے بھی ہے۔ ہمارے معاشروں میں قانون کے احترام کو شاید اب بھی نوآبادیاتی ذہن سے دیکھا جاتا ہے جس کے سبب ٹریفک قوانین کی پابندی جیسی بنیادی اقدار بھی ہمارے ہاں نہیں پنپ سکیں۔ ایسے ہی مسائل ہوتے ہیں جن پر اگر ابتدا میں توجہ نہ دی جائے تو بڑے بڑے مسائل جنم لیتے ہیں جن سے نکلنے کے لیے پھر بڑے اقدامات کی ضرورت پڑتی ہے۔توقع رکھنی چاہئے کہ امریکی مسلمانوں کے درمیان جنم لینے والا یہ نیا رجحان خوش گوار اور صحت منداقدارکی مضبوطی کا ذریعہ بنے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں